حضرت استاذ العلماء حضرت مولانا ابو الضیاء محمد باقر ضیاء النوری بصیر پور علیہ الرحمۃ
ماہرِ تدریس و تحریر ابوالضیاء مولانا محمد باقر نوری ولد مولانا محمد سلطان ۱۰؍ ذوالحجہ ۱۳۴۳ھ / ۲ ؍ جولائی ۱۹۲۵ء بروز جمعۃ المبارک بوقت عصر بستی منگا بھڈال تحصیل دیپالپور ضلع ساہیوال میں پیدا ہوئے۔ خاندان کے اکثر افراد علومِ اسلامیہ سے بہرہ ور رہے۔ آپ نے نانا مولانا احمد دین، ماموں مولانا ابوالنور محمد صدیق رحمہما اللہ اپنے علاقے میں علم و حکمت کے سرچشمہ تھے۔
تعلیم و تربیت:
حضرت مولانا محمد باقر نوری نے ابتدائی کُتب اپنے والد مولانا محمد سلیمان سے پڑھیں۔ فارسی کی بعض کتب اپنے نانا اور کچھ اپنے ماموں سے پڑھیں۔ فلسفہ و منطق کی آخری کتب کا درس دار العلوم حنفیہ فریدیہ، فرید پور جاگیر ضلع ساہیوال میں مولانا چراغ دین سے لیا۔ باقی تمام فنون، فقہ، تفسیر، اصولِ تفسیر وغیرہ اپنے ماموں زاد بھائی فقیہ اعظم حضرت مولانا مفتی ابوالخیر محمد نور اللہ نعیمی سے فرید پور ہی میں پڑھے اور دورۂ حدیث بھی یہیں شروع کیا۔
اسی اثناء میں جب دار العلوم حنفیہ فریدیہ فرید پور سے بصیر پور منتقل ہوگیا، تو آپ نے درسِ حدیث کی تکمیل پر ۱۹۴۵ء میں دستارِ فضیلت اور سندِ فراغت دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور سے حاصل کی۔
علمِ طب اپنے والد ماجد اور حکیم چراغ دین (کنداہیر سنگھ) سے حاصل کر کے امتحان کے بعد یُونانی طبی بورڈ سے سندِ طب حاصل کی۔ اُردو، پنجابی، فارسی اور عربی میں شعر کہہ لیتے ہیں۔ شاعری میں آپ کا تخلص ضیاء ہے۔
دینی و ملّی خدمات:
فراغت سے لے کر اب تک دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور میں صدر مدرس کی حیثیت سے علومِ اسلامیہ عربیہ کا فیضان جاری کیے ہوئے ہیں۔ بے شمار علماء علمی استفادہ کے بعد ملک کے اطراف و اکناف میں تبلیغ و اشاعت دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
تدریس کے علاوہ تقریباً بارہ سال سے جامع مسجد شاہ مقیم رحمہ اللہ (حجرہ شاہ مقیم) میں خطبہ جمعہ دیتے ہیں۔ اس سے قبل چودہ سال غلّہ منڈی بصیری پور میں خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
مولانا محمد باقر ضیاء نوری نے تحریکِ ختم نبوّت میں بھر پور حصہ لیا۔ جمعہ کے خطبات کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی حقیقتِ ختم نبوّت اور تحریک کے مقاصد و افادیت سے عوام کو روشناس کراتے رہے۔
۱۹۵۲ء کی تحریکِ ختمِ نبوّت پر بصیر پور سے گرفتار بھی ہوئے اور کئی ماہ تک ساہیوال جیل میں بند رہے، کئی سال تک انجمن حزب الرحمٰن کے صدرِ اعلیٰ رہے۔
تحریرات:
خطابت و تدریس کی مصروفیات کے باوجود آپ نے مندرجہ ذیل کتب بھی تصنیف فرمائیں:
۱۔ صرف ضیائی۔
۲۔ تنویر المقال شرح رسالہ فی الزوال۔
۳۔ القول علی القول (نماز میں لاؤڈ سپیکر کے جواز میں)۔
۴۔ میلاد شریف۔
۵۔ عورت کی امارت اور مودودی کا چیلنج۔
۶۔ العلم (علم و علماء کے فضائل کے بارے میں)۔
۷۔ سوشلزم کیا ہے؟
۸۔ پاک جنگ (۱۹۶۵ء) میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کار نامے۔
۹۔ قدرت کا کرشمہ (مختلف اشیاء پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمِ مبارک کا ظہور۔
۱۰۔ فضائلِ مدینہ شریف۔
۱۱۔ وجودِ باری۔
۱۲۔ فتاویٰ ضیائی (غیر مطبوعہ)
بیعت و حج:
۱۹۴۵ء میں فراغت کے موقعہ پر آپ نے حضرت مولانا مفتی محمد نور اللہ نعیمی سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ ۱۳۹۶ھ / ۱۹۷۶ء میں حج بیت اللہ شریف اور زیارت گنبدِ خضریٰ کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔
چند مشہور تلامذہ:
مولانا محمد باقر نوری عرصہ تینتیس (۳۳) سال سے فنونِ اسلامیہ کی تدریس میں مصروف ہیں۔ اس دوران دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور سے فارغ ہونے والے جملہ علماء کرام آپ کے شاگرد ہیں، تاہم چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:
۱۔ مولانا محمد شریف نوری رحمہ اللہ۔
۲۔ ابو النصر مولانا سیّد منظور شاہ، ساہیوال۔
۳۔ مولانا محمد منشا تابش قصوری، مرید کے۔
۴۔ مولانا احمد علی قصوری، لاہور۔
۵۔ مولانا شاہ محمد چشتی قصوری، قصور۔
۶۔ مولانا ابوالفتح شبیّر احمد ہاشمی، بُورے والا۔
۷۔ مولانا ابو الفیض علی محمد نوری، وہاڑی۔
۸۔ مولانا غلام حسین صاحب نوری، ساہیوال۔
۹۔ مولانا صاحبزادہ ابو الفضل محمد نصر اللہ نوری، بصیر پور۔
۱۰۔ مولانا ابو الانعام محمد رمضان نوری، حویلی لکھّا۔
۱۱۔ مولانا منظور احمد شاعر نوری، قصور۔
۱۲۔ مولانا صاحبزادہ محمد محب اللہ، بصیر پور۔
اَولاد:
آپ کے چار صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں ہیں۔ صاحبزادہ ابوالافضل مولانا محمد اجمل نوری دار العلوم حنفیہ فریدیہ میں مدرس ہیں۔ مولانا محمد احسن بھی علومِ اسلامیہ کے فارغ التحصیل ہیں، جبکہ صاحبزادہ محمد اعظم اور صاحبزادہ محمد اکرم درسِ نظامی کے متعلّم ہیں۔ [۱]
[۱۔ جملہ کوائف مؤرخہ ۱۳؍ اپریل ۱۹۷۸ء کو حضرت مولانا محمد باقر نوری کی جامعہ نظامیہ رضویہ میں آمد پر بالمشافہ حاصل کیے گئے۔ (مرتب)]
(تعارف علماءِ اہلسنت)