استاذ العلماء مولانا احمد الدین (چکوالی ) قدس سرہٗ
استاذ العلماء مولانا احمد الدین (چکوالی ) قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
استاذ الا ساتذہ مولانا احمد الدین بن مولانا غلام حسین بن قاضی محمد احسن ۲۰ رمضان المبارک ۸ جولائی (۱۲۵۸/۱۸۵۲ئ)کو پیدا ہوئے،تاریخی نام چراغ دین (۱۲۶۸ھ) تجویز ہوا۔آپ کا آبائی وطن موضع بولہ تحصیل پنڈودادن خاں ضلع جہلم ہے لیکن وہاں سے منتقل ہو کر چکوال شہر میں مقیم ہو گئے تھے۔۲۴ محرم الحرام ۱۲۷۴ھ کو آپ کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی اور والد ماجد سے تمام مروجہ علوم کی تکمین کی۔۱۸۷۲ء میں انگریز حکومت نے علماء کا انٹر ویو لیا جس میں اول آنے پر آپ کو ۵۰ روپے نقد اور ۱۵ روپے ماہانہ کا وظیفہ مقر ہو ا تاکہ اورنیٹل کالج لاہور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن آپ کالج پہنچ کر واپس آگئے کیونکہ وہاں کا معیار تعلیم بہت پست تھا۔۱۲۹۸ھ میں حرمین شریفین کی زیارت کے لئے رخصت سفر بادھا،وہاں مشہور فاتح عیسائیت فاضل نیبل مولانا رحمت اللہ کیرانوی قدس سرہٗ ( جوکہ آپ کے والد ماجد کے بھی استاد تھے ) کے پاس ایک سال رہ کر حدیث ، قراء ت بہسیٔت،ربع مجیب اور ربع مقظرہ وغیرہ علوم وہاں کے جیدا ساتذہ سے حاصل کر کے تعلیم و تعریس کی اعلیٰ سندیں حاصل کیں،واپسی پر کراچی کے محلہ کھڈہ میں مولانا عبداللہ کے پاس کچھ عرصہ قیام کیا اور وہاں ایک دینی مدرسہ مظہر العلوم قائم کیا جو آج بھی جاری ہے۔قیام کراچی کے دوران کئی علماء و طلبا ء آپ سے مستفید ہوئے۔آپ نے علم طلب بھی پڑھا اور اس میںکمال حاصل کیا ، کئی لا علاج مریض آپ کے علاج سے شفایتاب ہوئے۔
۱۲۸۰ھ میں والد ماجد کے ہمراہ حضرت خواجہ شمس الدین العارفین سالوی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں بعت ہوئے ۱۳۱۰ھ میں بلا د مقدسہ کی زیارت کے لئے سفر کیا اور بغداد شریف میں حضرت نقیب سلمان رحمہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک پر سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے ۔ آپ نیجب جالی والی مسجد چکوال میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا تو آپ کی شہرت دور دور تک پہنچی،خاص طور پر مثنوی شریف،ربع مجیب اور ربع مقظرہ وغیرہ علوم پڑھنے کے لئے دور دراز سے علماء حاضر ہوتے اور شرف تلمذ حاصل کرتے۔ قدوۃ المحققین حضرت مولانا غلام محمود پپلانوی (محشی تکمہ و مصنف نجم الرحمن )آپ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔آپ پہلے حافظ قرآن نہ تھے بعد میں شوق پیدا ہوا تو قرآن کریم حفظ کر کے تراویح میں سنایا کرتے تھے،تاریخ گوئی میں آپ کو کمال حاصل تھا۔عربی فارسی اور اردو میں مشق سخن فر ماتے تھے۔
آپ نے اپنے استاذ گرامی مولانا رحمت اللہ مہاجر کی وفات پر قطعۂ تاریخ کہا جس کے چند اشعار نقل کئے جاتے ہیں:۔
آہ!زیں حین مصائب اقتراں
مجمع اندوہ و رنج ہیکراں
گشت صبراز خاظر غمدیدہ گم
ہست قول مثنوی شاہد براں
بشنو زنے طوں حکایت میکند
کایں نئے خامہ است دل را ترجماں
وزجدئیہا شکایت میکند
بازبان تیز و چشم خوں فشاں
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
گر کنم رنج نہانی راعیاں
تا بگریم ذکر درد اشتیاق
زانتقال ابلۂ اہل دلاں
حضرت مخدودمنا علم الہدیٰ
فیض بخش نا کساں و ناقصاں
فخر اہل الہند فی ملک العرب
بلکہ در اسلامبول [1]
ازوے نشاں
در عراق و ہند و مصر و شام و روم
در فضائل گشتہ ممتاز زماں
بود در دنیا چراغ دین و دل
تاکہ شیخ ملک حمین گشت آں
روز جمعہ بست و دوم ازماہ صوم
رفت سئے باغ شہ یعنی جناں
لاجرم چوں نیست درماں غیر صبر
می نمایم بر دعا ختم بیاں
گو غریب الوطن تاریخ وصال
رحمۃ اللہ لدیٰ خیر الجناں [2]
آپ کے دو صاجزادے آ پ کی زندگی ہی میں فوت ہوگئے،مولانا حافظ علاء الدین ۲۱ سال کی عمر میں فوت ہو گئے،دوسرے صاجزادے مولانا حافظ قاضی ضیاء الدین ایم،اے،بی ٹی ڈسٹر کٹ انسپکٹر سکولز صحیح العقیدہ سننی تھے،ملازمت کے دوران ایک حادثہ کا شکار ہوگئے،تاریخی ماہ قاضی صاحب مر حوم الابد اور مولوی ضیاء الدین علامۂ زمان(۱۳۴۴ھ) ہے ان کی وفات پر مولانا احمد الدین نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا،اس نے دیکھنے والوں کو محو حیرت بنادیا۔
مولانا احمد الدین ۸/مئی ، ۲۸/ذیقعدہ ( ۱۳۴۷/۱۹۲۹ئ)کو صبح صادق سے کچھ پہلے صرف ایک دن کی علالت کے بعد اس دار فانی سے رحلت فر ماہوئے اور چکوال میں اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس علامۂ جلیل کی قبر کس مپر سی کے عالم میں ہے،آج ان کی قبر کی تعیین کرنے والا شاید ہی کوئی موجود ہو،حضرت مولانا کا ذاتی کن خانہ بہت بڑا تھا جس کا اکثر حصاب بھی محفوظ ہے[3]
[1] دارالخلافت قسطنطیہ ،
[2] محمد سلیم : ایک مجاہد معمار ، مطبوعہ کراچی ۱۹۵۲ء ، ص ۷۱۔ ۷۲۔
[3] مکتوب قاضی انوار الحق نسیم، ڈینز ہائی سکول راولپنڈی صدر ، بنام راقم الحروف ، محررہ ۳ اکتوبر ۱۹۷۲ء
(تذکرہ اکبریہ اہلسنت)