مولانا علاؤ الدین نیلی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا علاؤ الدین نیلی رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
ذات پسندیدہ تمام عزیزوں اور یاروں میں جیسے نور دیدہ عالم علوم سبحانی حافظ کلام ربانی بادشاہ عالم باز، علماء میں تقریر خوب کے ساتھ ممتاز مولانا علاؤ الدین نیلی رحمۃ اللہ علیہ سلطان المشائخ کے معزز خلیفہ تھے۔ آپ ایسے مقرر و فصیح تھے کہ بڑے بڑے زبر دست علماء آپ کی تقریر کے شیدائی تھے اور جب آپ کلام کرتے تھے تو تقریر کا جادو تمام حاضرین کو خود بخود اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا۔ آپ اعلیٰ درجہ کے یاروں میں اعلیٰ سخن اور علم سلوک میں سب سے زیادہ ممتاز و نامور شمار کیے جاتے تھے اور کشاف و مفتاح کے غوامض بیان کرنے میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے۔ مولانا فرید الدین شافعی جو اودھ کے شیخ الاسلام تھے اور مروجہ علوم میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے ان کی مجلس میں آپ کشاف کی قرأت کرتے تھے اور مولانا شمس الدین یحییٰ اور علماء اودھ سامع تھے۔ کاتب حروف نے ان بزرگ کو دیکھا ہے ظاہر میں علماء کی شان کہتے تھے لیکن حقیقت میں اہل تصوف کے اوصاف کے ساتھ موصوف تھے۔ ایک دن سلطان المشائخ فجر کی نماز ادا کر کے جماعت خانہ کے کوٹھے پر تشریف لے گئے اور جہاں ہمیشہ تشریف رکھا کرتے تھے وہیں جا کر بیٹھ گئے۔ مولانا علاؤ الدین ذرا دیر کر کے پہنچے۔ جن عزیزوں نے سلطان المشائخ کے ساتھ نماز نہ پڑھی تھی انہوں نے مولانا علاؤ الدین نیلی کی اقتدا کی اور جماعت خانہ کے صحن میں آپ کو امام بنا کر نماز میں مشغول ہوئے۔ مولانا علاؤ الدین نے امامت کی حالت میں ایسی خوش الحانی سے قرأت ادا کی کہ سننے والوں کو مزہ آگیا اور انتہا درجہ کا ذوق شوق پیدا ہوا۔ سلطان المشائخ بھی کوٹھے پر بیٹھے ہوئے قرأت سن رہے تھے آپ پر بھی وہ ذوق شوق کی حالت طاری ہوئی جو بیان سے باہر ہے۔ حضور نے فوراً اقبال خادم کو بلا کر فرمایا کہ یہ خوش آواز عزیز جو نماز میں مشغول ہے۔ اس کے پاس میرا مصلا لے جا اور سلام پھیرنے کا منتظر رہ۔ جونہی نماز سے فارغ ہو مصلا اس کے ہاتھ میں دے دے۔ خواجہ اقبال نے ایسا ہی کیا مولانا علاؤ الدین نیلی نے جب سلام پھیرا دیکھتے ہیں کہ کہ ایک شخص فرشتہ صفت بہشتی خلعت آسمان کرامت کے حضور سے لایا ہے اور منتظر کھڑا ہے۔ آپ نے نہایت تعظیم و تکریم سے وہ مصلی اقبال خادم کے ہاتھ سے لے کر جو در حقیقت مقبول اہل دل تھے سر اور آنکھوں پر رکھا اور جان کے برابر حفاظت و احتیاط سے رکھا۔ اگرچہ بزرگ سلطان المشائخ کے حضور سے اجازت مطلق رکھتے تھے۔ اس کے باوجود آپ نے ایک مرید بھی نہیں کیا۔ بلکہ آپ اکثر اوقات فرمایا کرتے تھے اگر سلطان المشائخ زندہ ہوتے تو میں خلافت نامہ حضور کی خدمت میں پہنچا دیتا اور عرض کرتا کہ اگرچہ مخدوم نے ازراہ بندہ نوازی شفقت و مہربانی فرمائی ہے اور اس ناچیز بندہ کو اپنی دولت خلافت پر پہنچایا ہے لیکن بندہ اپنے تئیں اس محل مرتبہ کے قابل نہیں دیکھتا۔ اور اس منصب اور شرعی عہدہ کی ذمہ داری نہیں کر سکتا اور اس قضیہ میں شیخ عارف خلیفۂ شیخ شیوخ العالم فرید الحق قدس اللہ سرہ العزیز کی اتباع و تقلید کرتا ہے شیخ عارف کے حالات کیفیت جناب شیخ شیوخ العالم کے خلفاء کے ذکر میں مفصل تحریر کی جا چکی ہے وہاں دیکھنا چاہیے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مولانا شمس الدین یحییٰ اور مولانا علاؤ الدین نیلی اور چند دیگر عزیز اودھ سے سلطان المشائخ کی خدمت میں تشریف لائے تھے اور ان دنوں میں ملاعین نے چاروں طرف سخت تشویش پھیلا رکھی تھی دہلی کے اطراف و جوانب کو خراب و برباد کر رہے تھے اور خلق کو گھیر گھیر کر قلعہ میں لاتے تھے۔ یہ بزرگ جب سلطان المشائخ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے چوتھے روز انہیں بلا کر اودھ جانے کی اجازت دی اور ایک ایک رخصت کیا۔ یہ بزرگ اس وجہ سے کہ سلطان المشائخ نے اس قدر جلد رخصت کر دیا اور کچھ روز بھی خدمت میں رکھنا پسند نہ فرمایا۔ نہایت منغض و مکدر ہوئے اور ملال و رنج کے ساتھ اودھ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب تلپتہ میں داخل ہوئے تو مولانا علاؤ الدین رحمۃ اللہ علیہ کو تپ محرق کا آغاز ہوا اس سے مولانا شمس الدین یحییٰ اور دوسرے یاروں کو زیادہ حیرت ہوئی۔ مولانا علاؤ الدین نازک اور لطیف اندام آدمی تھے اور تمام رستے خراب پڑے ہوئے تھے۔ یہ لوگ اسی اندیشہ میں تلپتہ میں اتر پڑے اور چند روز تک یہیں قیام پذیر رہے۔ ادھر ایک عرضداشت سلطان المشائخ کی خدمت میں بایں مضمون روانہ کی کہ حضور کے غلام فرمان عالی کے مطابق دہلی سے روانہ ہوئے پہلی ہی منزل میں مولانا علاؤ الدین کو بخار آگیا اور ایسا سخت و شدید بخار ہوا کہ ہمیں مجبوراً تلپتہ میں ٹھہرنا پڑا علاوہ اس کے رستے پہلے کی نسبت نہایت خطرناک اور خراب ہیں اسباب میں جیسا ارشاد ہو عمل میں لایا جائے سلطان المشائخ نے فوراً ان بزرگوں کےلیے خرچ اور مولانا علاؤ الدین کے لیے اپنی سواری خاص بھیجی اور کہلا بھیجا کہ تم فوراً پلٹ آؤ جب سلطان المشائخ کا یہ حکم ان بزرگوں کو پہنچا تو بڑی خوشی کے ساتھ تلپتہ سے لوٹے۔ مولانا علاؤ الدین سے فرمایا کہ آپ اس سواری میں بیٹھ جائیے اور ہم پا پیادہ چلتے ہیں مولانا نے فرمایا کہ میری کیا ہستی ہے کہ سلطان المشائخ کی سواری خاص میں سوار ہوں۔ الغرض ان بزرگوں نے ایک ڈولی کرایہ کی اور مولانا اس میں سوار ہوئے مولانا نے فرمایا کہ سلطان المشائخ کی سواری میرے آگے آگے چلنی چاہیے تاکہ اس پر میری نظر پڑے اور میری صحت کا موجب ہو۔ جب یہ لوگ سلطان المشائخ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے ان کے حال پر بے انتہا شفقتیں اور حد سے زیادہ مہربانیاں ارزانی فرمائیں اور فرمایا۔ مولانا علاؤ الدین کی بیماری کا آغاز کیوں کر ہوا۔ مولانا کے ہمراہیوں نے بخار کی کیفیت بیان کی تو آپ نے اقبال خادم سے ارشاد کیا کہ صبح کے کھانے میں سے جو کھانا بچ گیا ہے اس میں سے تھوڑا سا لے آؤ۔ اقبال کھچڑی اور گھی لے آئے۔ مولانا علاؤ الدین سے فرمایا کہ اسے کھاؤ۔ جونہی مولانا نے کھچڑی گھی کھایا بخار بالکل جاتا رہا۔ ازاں بعد سلطان المشائخ نے فرمایا چونکہ یہاں ملاعین کی تشویش چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور اطراف شہر شہر کی خلقت شہر میں جبراً داخل کی جاتی تھی اور لوگوں کو آب و طعام بمشکل دستیاب ہوتا تھا۔ مسافروں کے ساتھ خاص کر نہایت سختی برتی جاتی تھی۔ اس لیے میں نے تمہیں اس قدر جلد رخصت کر دیا تھا۔ کہ اگر اپنے مکانوں پر جلد پہنچ جاؤ تو بہت اچھا ہو۔ تم اس وجہ سے تنگ دل اور مکدر ہوئے حالانکہ تنگ دلی کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اس کے بعد سلطان المشائخ کو معلوم ہوا کہ مولانا علاؤ الدین نیلی ڈولی میں سوار ہوکر آئے ہیں اور سواری خاص میں نہیں بیٹھے تو آپ نے فرمایا کہ تم اس میں سوار ہوکر کیوں نہیں آئے مولانا نے روے نیاز زمین میں پر رکھ کر عرض کیا کہ اگرچہ مخدوم ازراہ بندہ نوازی حد سے زیادہ مہربانی و کرم فرماتے ہیں لیکن اس کمترین کو اپنا مرتبہ اور اپنی قدر خود جاننی چاہیے غرضیکہ مولانا علاؤ الدین جب تک زندہ رہے ہمیشہ اس سواری کو ایسے موقع پر رکھتے جو آپ کی زیر نظر رہتی۔ آپ اس کو بوسہ دیتے اور برکتیں حاصل کرتے۔ خدا تعالیٰ نے مولانا علاؤ الدین کو علمی فضائل بہت کچھ عنایت کیے تھے اور فی نفسہ آپ ایک بڑے جلیل القدر اور عظیم الشان منصب سے ممتاز تھے لیکن بایں ہمہ جو اعتقاد آپ سلطان المشائخ کی خدمت میں رکھتے تھے وہ سب پر غالب تھا۔ آپ نے آخر عمر میں سلطان المشائخ کے ملفوظات یعنی فواد الفواد اپنے قلم مبارک سے تمام و کمال لکھے اور بیشتر اوقات زیر نظر رکھتے اور مطالعہ کرتے تھے بلکہ انہیں اپنے اورادو وظائف ٹھہرالیتے تھے۔ آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر لوگوں نےپوچھا کہ حضرت آپ کے پاس اس قدر معتبر کتابیں ہر علم و فن کی موجود ہیں لیکن آپ بجز سلطان المشائخ کے ملفوظات کے کسی کتاب کی طرف رغبت نہیں کرتے۔ مولانا نے جواب میں فرمایا کہ اے غافلو کتب سلوک وغیرہ سے ایک جہاں پٹا پڑا ہے اور ہر فن کی کتابیں ہر جگہ دستیاب ہوسکتی ہیں۔ لیکن میں اپنے مخدوم کے روح افزا ملفوظات کہ ان ہی سے میری نجات متعلق ہے۔ کہاں پاسکتا ہوں۔ ایک بزرگ کیا خوب فرماتے ہیں بیت
مرا نسیم تو باید صبا کجا ست کہ نیست
کجا ست زلف تو مشک خطا کجا ست کہ نیست
(مجھے تو تیری نسیم چاہیے ورنہ صبا کون سی ایسی جگہ ہے جہاں نہیں ہے تیری زلف کہاں ہے ورنہ مشک خطا کون سی ایسی جگہ ہے۔)
بندہ ضعیف عرض کرتا ہے۔
خیال روئے تو شد عید من ازان شدم
مرا بعید کسان نیست حاجت چندان
(تیرے چہرے کا خیال میری لیے عید ہے۔ مجھے لوگوں کی عید سے ذرا غرض نہیں۔)
انجام کار یہ بزرگ چند روز تک بیمار رہے اور اسی بیماری میں انتقال فرما گئے۔ سلطان المشائخ کے خطیرہ میں گنبد دہلیز کے آگے چبوترہ کے اندر مقابر یاروں کے متصل اس عمارت میں مدفون ہوئے جسے مولانا ممدوح نے اپنے جیتے جی خود تعمیر کرایا تھا۔ رحمۃ اللہ واسعتہ:
(سِیَر الاولیاء)