مقرر جادو بیان مولانا الحاج محمد شریف نوری قصوری
مقرر جادو بیان مولانا الحاج محمد شریف نوری قصوری (تذکرہ / سوانح)
خطیب پاکستان مولانا الحاج محمد شرف نوری قصوری رحمہ اللہ تعالی ابن مولانا محمد دین مدظلہ العالی۴۔۱۳۵۳ھ؍۱۹۳۵ء میں بمقام چکوڑی (ضلع گجرات) میں پیدا ہوئے۔کنجاہ (گجرات) میں میٹرک کا امتحان پاس کیا،اس کے بعد پاکستان کی عظیم دینی درس گاہ دار العلوم حنفیہ فرید یہ بصیر پور (ضلع ساہیوال ) میں تمام متد اور کتب کی تحصیل و تکمیل کر کے فقہ عصر مولانا ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی دامت بر کاتہم العالیہ سے درس حدیث لیا اور ۱۳۷۳ھ؍۱۹۵۳ء میں فراغت حاصل کی اسی سال قصور میں خطیب مقرر ہوئے اور ۱۳۸۱ھ تک کمال خوبی سے فرائض خطابت انجامدئے یہیں سے ان کی شہرت دور دراز تک پہنچی۔آپ کی آواز میں بلاکا سوز تھا اور دوران تقریر مجمع پر چھا جایا کرتے تھے بڑے سے بڑے مجمع کر کنٹرول کرنا ان کے لئے معمولی بات تھی ۱۹۷۰ء میںجب دار السلام (ٹوبہ ٹیک سنگھ) میں شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی دامت بر کاتہم العالیہ کی صدارت میں سنی کانفرنس منعدق ہوئی تو کسی وجہ سیلاکھوں افراد میں پھیل جانے والی بے چنی کو آپن یکنٹرول کر کے مشاہیر کو ورطۂ حیرت میںڈال دیا۔ پاکستان کے سابق گورنر ملک امیر محمد خاںاپنے گھر پر منعقدہ مجلس میلاد کیلئے آپ کو دعوت دیاکرتے تھے۔ آپ نے ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں جمیعت العلماء پاکستان کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا۔
قصور کے قیام کی نسبت سے نوری قصوری کے نام سے عوام و خواص کے طبقے میں متعارف ہوئے ۔۱۹۵۴ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل اور ۱۹۵۵ء میں ادیب فاضل کا امتحان نمایاں کامیابی سے پاس کیا۔قصوری ہی میں مشہور نعت خوان جناب محمد علی ظہوری کو ساتھ لے کر ماہنامہ نور و ظہور نکالا جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی مگر زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ا ن کے سحر خطابت کا یہ کارنامہ نا قابل فراموش ہے کہ یکم مئی ۱۹۵۹ء کو کلاک آباد (مضافات رائے ونڈ) کے تقریباً دو ہزار عیسائی ان کی تبلیغ سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تھے[1] ۔ ۱۳۸۱ھ؍۲۔۱۹۶۱ء میں لاہور آگئے[2] پہلے ایک عرصہ تک جامعی مسجد سبیل والی شاہ عالم مارکیٹ میں،پھر کچھ عرصہ سرائے رتن چند میں خطیب رہے،بعد ازاں شیشی محل ہوزری کے بالمقابل جامع مسجد محمدیہ (راوی روڈ)ل میں تشریف لے آئے،یہاں آپ نے جامعہ محمدیہ کی بنیاد رکھی،مسجد کا عظیم مینار آپ ہی کی مساعی سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
۱۳۸۴ھ میں مقامات مقدسہ کی زیارات کے لئے بغداد شریف، کربلائے معلی،نجف اشرف اور بییت المقدس کا سفر کیا اور حج و زیارت سے مشرف ہوئے ۔ ۱۳۹۱ھ میںکمال اشتیاق سے حرمین شریفین کی حاضری سے فیضیاب ہوئیواپسی پر راستے ہی میں علالت نے آلیا،واپس وطن پہنچنے کے بعد م یو ہسپتال لاہور میں علاج معالجہ شروع کیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا اور جلد ہی عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے،مولانا مرحوم نے چار مرتبہ حج و زیارت کی سعادت حاصل کی۔
مولانا نوری بلند اخلاق کے مالک تھے،دوستوں کے دست تھے اور ملنیجلنے والوںکی بڑی فراخد لیسے توضع کیا کرتے تھے،جمعیۃ العماء پاکستان،پاک سنی تنظیماور انجمن اصلاح المسلمین کے سر گرم رکن اور ممتاز عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۳۹۰ھ میں جابجا دورے کئے اور آئین اسلام ے نفاذ کے حق میں پرزور تقریریں کیں اور عوام الناس کو آئین اسلامی کی تائید و حمایت کے لئے تیارکیا۔
مولانا نوری رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے دور کے مقبول ترین مقرر تھے، سامعین ان کی خوش نوائی کیاثر سے کیف و سرور میں ڈوب جاتے تھے،وہ جہاں ایک مرتبہ تقریر کر آتے تھے وہاں کے لوگ ہمیشہ ان کے مشتاق رہتے،تقریر اپنی مادری زبان پنجابی میں کیا کرتے ان کے عقیدتمندوں کا حلقہ نہایت وسیع تھا،انہوں نے اپنے مواعظ کے ذریعے سنیت کا پیغام پاکستان کے گوشے گوشے تک پوری بیبیا کی سے پہنچایا اور عقائد باطلہ کی تردید پوریقوت سے کی،پر خطر راستوں سے گذر ے ،دھمک سنیں مگر کبھی ان کا عزم متز لزل نہ ہوا۔
مولانا نوری نور اللہ مرقدہ نے وعظ تقریر کے ساتھ تحریر کا سلسلہ بھی جاری رکھا،لاہور آنے کے بعد ماہنامہ الحبیب جاری کیا جسے کامیابی سے چلاتے رہے، ان دنوںنوجوان فاضل مولانا محمد شریف شر قپوری (فاضل بصیر پور) آپ کے معاون رہے، اس کے علاوہ آفتاب سنت رد چراغ سنت (تالیف فردوس علی شاہ دیوبندی قصوری) بارہ تقریریں،نشری تقریریں،مسئلۂ گیارہویں،حرمت تعزیہ داری اوع عرب کا مسافر ایسی مقبول عام تصانیف یادگار چھوڑدیں۔
۲۸ربیع الاول،۱۳مئی (۱۳۹۲ھ؍۱۹۷۲ئ) جمعہ ہفتہ کی درمیانی شب میو ہسپتال میں تقریباً ۲ بجے آپ کا انتقال ہوا۔نمازجنازہ مفتیٔ اعطم پاکستان حضرت مولانا علامہ ابو البرکات سید احمد دامت برکاتہم العالیہ نے پڑھائی[3]
آپ اپنے والد گرامی کے اکلوتے فرزند تھے،خطیب پاکستان مولانا غلام الدین قدس سرہ آپ کے عم محترم تھے،مولانا نوری قدس سرہ کے ہاںنرینہ اولاد نہیں ہوئی،اس وقت چار بچیاں بقید حیات ہیں۔
جامع مسجد محمدیہ راوی روڈ پر آپ کا مزار تعمیر ہے۔
[1] بارہ تقریرں،پہلا ایڈیشن ،گروپوش،ص۲
[2] غلام مہر علی،مولانا: الیواقیت المریہ ص۱۲۹
[3] ماہنامہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ (ربیع الآخر ۱۳۹۲ھ) ص ۱۷
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)