استاذ الاساتذہ حضرت مولانا علامہ محب النبی
استاذ الاساتذہ حضرت مولانا علامہ محب النبی (تذکرہ / سوانح)
استاذ الاساتذہ حضرت مولانا علامہ محب النبی قدس سرہ
بحر العلوم حضرت مولانا محب النبی ابن حضرت مولانا احمد ابن حضرت مولانا امیر حمزہ (قدست اسرار ہم) ۱۳۱۴ھ؍۱۸۹۷ء میں بھوئی ضلع کیمبلپور میں پیدا ہوئے۔آپ خاندان علم و فضل کے اعتبار سے مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔آپ نے فارسی کی کتابیں والد ماجد سے پڑھیں، صرف ونح کی کتابیں پانوں ڈھیری ہزارہ میں مولانا نواب علی سے پڑھیں،پھر اکثر و بیشتر علوم و فنون اپنے والد گرامی سے پڑھے، درس حدیث مدرس عالیہ مسجد فتح پوری ،دہلی میں مولانا عبد اللطیف محدث سے لیا، بعد ازاں بعض فنون عالیہ کی تکمیل کے لئے مدرسہ معینیہ،اجمیر شریف میںمولانا علامہ مشتاق احمد کانپوری ابن استاذ من مولانا احمد حسن کانپوری کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان سے تصریح،شرح چغپینی او صدر اکے کچھ اسباق پڑھے تھے کہ آپ کے بھائی مولانا فرید الدین بیمار ہو گئے لہذا واپس گھر آنا پڑا۔
سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں حضرت شیخ الاسلام پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ ک ے مردی ہوئے۔مولانا محب النبی رحمہ اللہ تعالیٰ کی درخواست پر حضرت نے انہیں تصریح (علم ہیئت کی متد ا ول کتاب) اور کچھ اسباق فتوحات مکیہ ار فصوص الحکم (ازشیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ) کے پڑھائے۔
حضرت مولانا محب النبی رحمہ اللہ علیہ فارغ التحصیل ہونے سے آخر عمر تک علوم دینیہ کی تدریس میں محور ہے،ابتداء چھ سال بھوئی میں گزرے،پھر بڑدہ تشریف لے گئے،اس کے بعد مکھڈ شریف ایک عرصہ تک مدرس رہے،بعد ازاں پانچ سال تک دربار پیر صلاح الدین قدس سرہ ضلع لائل پور میں فرائض تدریس انجام دیتے رہے،نو سال دار العلوم اویسیہ،جنید ھڑ شریف،ضلع گجرات،بارہ سال دا ر العلوم غوثیہ، گولڑہ شریف،دو سال جامعہ نظامیہ،وزیرآباد،دوسال جامعہ محمدی،ضلع جھنگ میں علم وفضلو کے دریا بہاتے رہے، ۱۹۶۵ء میں ضیاء العلوم جامعہ رضویہ،راولپنڈی تشریف لے آئے[1] ۱۹۷۲ء میں دار العلوم غوثیہ،راولپنڈی تشریف لے لئے اور وہاں تقریباً تین سال پڑھاتے رہے۔
حضرت مولانا محب النبی قدس سرہ دور حاضر میں سلف صالحین کی سچی یادگار اور اکابر اساتذہ میں سے تھے۔پاکستان کے بیشتر علماء بالواسط یا بلا واسط ان کے رشتۂ تلمذ میں منسلک ہیں،چند مشہور تلامذہ کے اسماء یہ ہیں:۔
۱۔ ملک المدرسین حضرت مولانا حافظ عطا محمد چشتی بند یالوی دامت بر کاتہم العالیہ۔
۲۔ شیخ القرآن مولانا ابو الحقائق علامہ محمد عبد الغفور ہزاروی قدس سرہ۔
۳۔ مولانا علامہ حسن الدین ہاشمی،
جامعہ اسلامیہ،بہاولپور، (بھتیجے)
۴۔ حضرت مولانا سید غلام محی الدین شاہ مدظلہ
مہتمم ضیاء العلوم جامعہ رضویہ، راولپنڈی۔
۵۔ حضرت مولانا علامہ حافظ عبد الغفور مدظلہ
مہتمم جامعہ غوثیہ،بھا بڑہ بازار،راولپنڈی۔
حضرت مولانا محب النبی قدس سرہ کا بہت بڑا جہادیہ تھا انہوں نے تمام زندگی علوم دینیہ کی تعلیم وتدریس میں صرفکی،سادگی اور بے تکلفی میں اپنی مثال آپ تھے، طلبہ کے ساتھ شفقت و مہر بانی کای ہ عالم کہ کوئی باپ بھی ا پنی اولاد کے ساتھ کیا کرے گا۔ غالباً ۱۹۷۰ء کا واقعہ ہے،راقم الحروف ان دنوں دار العلوم اسلا میہ رحمانیہ، ہری پور میں فرائض تدریس انجام دے رہا تھا کہ ایک دن حضرت استاذ الاساتذہ،دار العلوم میںتشریف لائے،تشریف آوری کا سبب پوچھا تو فرمایا یہ مولانا صاحب میرے شاگرد ہیں،ان کے ل ئے سند کی ضرورت ہے مجھے حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے استاذ نے ایک شاگرد کی درخواست پر راولپنڈی سے ہری پور تک کے سفر میں کوئی تکلف محسوسن نہیںکیا، اللہ اللہ ! آج ایسی مثالیں کہاں ملیں گی۔
۲۱؍ربیع الاول ،۲۲ مارچ۱۳۹۶ھ؍۱۹۷۶ء کو حضرت استاذ الاساتذہ مولانا محب النبی قدس سرہ کا وصال ہوا۔آپ کی آخری آرام گاہ بھوئی ضلع کیمبلپور میں بنی،چار صاحبزادے آپ سے یاگار ہیں:۔
۱۔ مولانا مشتاق النبی
۲۔ مولانا فداء النبی
۳۔ مولانا مختار النبی
۴۔ مفتی صاحب کے نام سے معروف ہیں۔
جناب ابو الطاہر فدا حسین فداؔ مدیر اعلیٰ ماہنامہ ’’مہر و ماہ‘‘ لاہور نے قطعہ تاریخ وصال کہا ؎
اٹھ گئے بزم جہاں سے آض ہیں وہ حق پرست
ہر بشر مداح جن کا ہم نے دیکھا با لعموم
کار گر ہوتی ہے کب،کوئی یہاں تدبیر، آہ!
ظلمتوں میں جس گھڑی آجائیں انساں کے نجوم
عالم ذی مرتبت تھے اور وہ استاد زماں
ہو چکا شہرہ ہے انکا تا عراق و شام و روم
گلشن دین متیں میں تھے بہار تازہ وہ
ان کے زہد و اتقا ء کی ہیمچی ہر سمت دھوم
تھے نبی محترم کے اک محب خاص وہ
کیوں نہ ہو پھر رحمتوں کا ان کی تربت پر ہجوم
طہم غیبی پکارا ان کا سال وصل یوں
اے فدا ؔ توفی البدیہ کہہ’’غم بحر علوم‘‘
[1] غلام مہر علی ،مولانا :الیواقیت المہر یہ
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)