مولانا بدر الدین اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات
مولانا بدر الدین اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات (تذکرہ / سوانح)
باسط علوم ربانی کاشف غوامضِ معانی مولانا بدر الحق والدین اسحاق بن علی بن اسحاق دہلوی ہیں۔ یہ بزرگ زہد و تقوی اور عشق و درد اور آہ و زاری میں بے نظیر تھے۔ جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے داماد اور خلیفہ اور خادم تھے۔
مولانا بدر الدین اسحاق کا شیخ شیوخ العالم سے ملاقات
کرنا اور آپ سے بیعت کرنا
منقول ہے کہ یہ بزرگ بھی دہلی کے باشندے تھے۔ تحصیل علوم اسی شہر میں کی تھی اور دہلی کے دانشمندوں اور طباعوں کے زمرے میں علم و فضل میں فائق ہوگئے جب آپ نے دانشمندی اور علمی تبحر میں کمال حاصل کر لیا اور دہلی کے علما و فضلا میں امتیاز یہ نظروں سے دیکھے جانے لگے تو گوشہ نشینی اختیار کی لیکن چونکہ ہمت بلند رکھتے تھے اس لیے یہ بات ہمیشہ پیش نظر تھی کہ تمام علوم و فنون پر اچھی طرح حاوی ہونا اور انہیں عروج پر پہنچا دینا چاہیے۔ علاوہ ازیں ہر علم و فن میں چند اشکال بھی اس قسم کے باقی رہ گئے تھے جو متبحریں علماء شہر سے بھی حل نہیں ہوئے تھے اس لیے آپ بہت سی کتابیں ساتھ لے کر بخارا کے قصد سے دہلی سے روانہ ہوئے۔ جب اجودھن میں پہنچے اور ان دنوں شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کی کرامتوں اور تبحر کا شہرہ عالم میں منتشر ہو چکا تھا۔ اور مخلوق خدا نے ہر ولایت و اقلیم سے آپ کی خاک بوسی کی طرف توجہ کی تھی لہذا مولانا بدر الدین اسحاق کو آپ سے ملنے کا اشتیاق ہوا۔ مولانا بدر الدین اسحاق کا ایک نہایت ہی دلسوز اور جان نثار عزیز و یار تھا اس نے مولانا کو اور بھی شیخ شیوخ العالم سے ملاقات کرنے کا مشتاق بنایا اور اس بات پر آمادہ کیا کہ مولانا شیخ شیوخ العالم سے ملاقات کریں چنانچہ مولانا شیخ شیوخ العالم کی قدم بوسی کی دولت کو پہنچے دیکھا کہ ایک اولو الغرم بادشاہ ہے جو اپنے سنیۂ صافی اور دلکشا تقریر سے آنے والوں کے دلی بھید بیان کرتا اور ان کے دلوں کو اُچک لیتا ہے چنانچہ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ شیوخ العالم کی حسن عبارت اور لطافت تقریر اس حد کو پہنچ گئی تھی اور آپ کی فصاحت و بلاغت میں وہ جادو تھا کہ جب سننے والے کے کان میں آپ کے موثر الفاظ پہنچتے تو وہ انتہا درجہ کے ذوق سے اس وقت مرجانا اچھا سمجھتا تھا۔ الغرض جو علمی اشکال کہ مولانا بدر الدین اسحاق کے دل میں کھٹکتے تھے عین اسی بحث علمی اور حکایت دینی کی تقریر کے ذیل میں جو شیخ شیوخ العالم وقتاً فوقتاً بیان کرتے تھے سب پانی ہوگئے۔ مولانا شیخ شیوخ العالم کی مجلس کا یہ رنگ دیکھ کر دنگ ہوگئے اور اپنے دل میں کہا یہ بزرگ کوئی کتاب اپنے پاس نہیں رکھتے اور باوجود اس کے ایسے غوامض و مشکلات باتوں میں حل کر دیتے ہیں اس سے صاف معلوم ہے کہ علم لدنی سے خبر دیتے ہیں۔ بیشک یہ علم کسبی نہیں ہے بلکہ وہبی ہے جس چیز کے لیے میں بخارا جاتا تھا اس سے سو حصے زیادہ میں نے یہیں حاصل کر لیا چنانچہ بخارا جانے کا رادہ آپ نے ملتوی کر دیا اور یہ خیال ان کے دل سے نکل گیا۔ اب صافی اعتقاد کے ساتھ شیخ شیوخ العالم سے بیعت کی اور آپ کے مریدوں کے زمرہ میں داخل ہوگئے شیخ سعدی فرماتے ہیں۔
من کہ درھیج مقامے نز دم خیمہ عشق
پیش تو رخت بیگندم و سربنھا دم
شیخ شیوخ العالم نے بھی جب مولانا کو قابل و لائق دیکھا تو بے انتہا عنایت مبذول فرمائی اور اپنی خادمی اور دامادی سے مشرف و ممتاز کیا اور محرمیت کے ساتھ مخصوص فرمایا۔ انجام کار یہاں تک نوبت پہنچی کہ درگاہِ بے نیازی کے اصلوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ و اصل ہوگئے اور شیخ شیوخ العالم کی نعمت خلافت سے ملا مال ہوئے۔ آپ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں مستقیم رہے اور خویش و اقارب جو دہلی میں رہتے تھے آپ نے سب سے قطع تعلق کر لیا اور دوست کی طرف یکسو ہوگئے۔
دل و جان و تن با خیالت یکے شد
کاتب حروف نے اپنے والد بزرگوار سید مبارک محمد کرمانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ مولانا بدر الدین اسحاق اس قدر زارو قطار رویا کرتے اور آپ کو ایسا جلد رونا آتا کہ ایک ساعت بھی آپ کی چشم مبارک آنسوؤں سے خالی نہیں رہتی تھی۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔
اے زعشقت خانہ عقلم خراب
ھر دم چشمم ز گریہ غرق آب
رونے کی کثرت سے آپ کی دونوں مبارک آنکھوں میں گل پڑگئے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کاتب حروف کی وادی نے جو شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کی بیعت کے شرف سے ممتاز ہوچکی تھیں مولانا بدر الدین اسحاق سے کہا کہ اے بھائی اگر آپ ایک ساعت اپنے آنسوؤں کو تھمائے رکھو تو میں ان کا علاج سرمہ سے کروں مولانا بدر الدین یہ سن کر روئے اور فرمایا اے میری بہن میں کیا کروں کہ آنسو میرے قبضے میں نہیں ہیں ایک بزرگ فرماتے ہیں۔
از آب دیدہ خانہ چشمم خراب شد
پس نامدیم دیدۂ خانہ خراب را
(میرے آنسوؤں سے آنکھوں کا مخزن نور خراب ہوگیا۔ پس میں نے آپنی آنکھوں کا نام خانہ خراب رکھا ہے۔)
کاتب حروف کے والد بزرگوار فرماتے ہیں کہ مولانا بدر الدین اسحاق جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے انتقال کے بعد اجودھن کی قدیم جامع میں تشریف رکھتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ جب شیخ شیوخ العالم کا انتقال ہوگیا تو آپ کے فرزندوں میں سے شیخ بدر الدین سلیمان شیخ شیوخ العالم کے سجادہ پر بیٹھے۔ مولانا بدر الدین اسحاق جس طرح شیخ شیوخ العالم کی خدمت کرتے تھے اس طرح اپنے مخدوم زادہ کی خدمت میں کمر بستہ اور ایستادہ رہتے تھے۔ ایک بزرگ کہتے ہیں۔
در خلمتِ تو اے ز دل و جان عزیز تو
جان برمیان بہ بند و صد بندگی کنم
(تیری خدمت میں اے دل و جان سے زیادہ عزیز۔ میں اپنی جان و دل سے سو بندگی کے واسطے حاضر ہوں۔)
اور جب ایک مدت اس طرح گزرگئی حاسدوں نے شیخ بدر الدین سلیمان اور مولانا بدر الدین اسحاق کے درمیان عداوت ڈال دی اور چاہا کہ آپ اپنی خادمی کے منصب سے جدا ہوجائیں اس وجہ سے مولانا بدر الدین اسحاق کی خاطرِ مبارک منغض ہوئی اور آپ نے اس بارہ میں کاتب حروف کے بزرگوار دادا سید محمد کرمانی سے مشورہ کیا سید محمد کرمانی مولانا بدر الدین اسحاق کی وہ عزت و وقعت جو آپ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں رکھتے تھے دیکھ چکے تھے لہذا آپ نے فرمایا کہ مولانا!
صحبت کہ بعزت نبود دوری بہ
(جو صحبت کہ عزت کے ساتھ نہ ہو اس سے دوری بہتر ہے۔)
مولانا بدر الدین اسحاق نے جب یہ بات سنی تو آپ سب سے علیحدگی کر کے اجودھن کی قدیم جامع مسجد میں آبیٹھے۔ الغرض والد بزرگوار علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ میں اور خواجہ یعقوب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے چھوٹے فرزند رشید اور شیخ شیوخ العالم قدس سرہ العزیز کے پوتے شیخ علاؤ الدین اور چند اور لوگ جامع مسجد میں مولانا بدر الدین اسحاق سے کلام اللہ پڑھتے تھے کیونکہ آپ ہمارے خلیفہ تھے اخی مبارک جو شیخ شیوخ العالم کا غلام تھا اور شیخ قدس اللہ سرہ العزیز نے اپنی صاحبزادی بی بی فاطمہ کے جہیز میں اسے دے دیا تھا جو مولانا بدر الدین اسحاق کے نکاح میں تھیں وہ بھی آپ کی خدمت میں موجود تھا۔ الغرض والد بزرگوار فرماتے ہیں کہ جس وقت مولانا چاشت کی نماز میں مشغول ہوتے تو اس قدر روتے کہ سجدہ کے وقت آپ کے سجدہ کی تمام جگہ آنسوؤں سے تر ہوجاتی تھی۔ والد بزرگ یہ بھی فرماتے تھے کہ مولانا بدر الدین اسحاق قدس اللہ سرہ العزیز بہت جلد مردانِ خدا کے کمالات پر پہنچ گئے تھے اس جگہ آپ کے آنے کی عرض صرف یہ تھی کہ لوگوں کو تحصیل کمالات ہو جائے۔ جب کمال کو پہنچ گئے تو اس سے آگے کوئی جہت نہیں رکھتے تھے آپ کو جو کچھ حاصل ہوا شیخ شیوخ العالم کے دروازہ سے حاصل ہوا۔ منقول ہے کہ شیخ شیوخ العالم کی زندگی کے زمانہ میں مولانا بدر الدین اسحاق قدس اللہ سرہ العزیز اکثر اوقات یہ بیت زبان مبارک پر جاری کیا کرتے تھے۔
پیش سیاست غمش روح چہ نطق نمیز ند
اے زھزار صعوہ کم بس تو نواچہ میزنی
سارے سارے دن اس بیت کے ذوق میں عالم تحیر میں رہتے تھےا ور جس وقت زبان مبارک پر آتی تھی بکا اور اہتزاز پیدا ہوتا تھا ایک دن کا ذکر ہے کہ شام کے وقت شیخ شیوخ العالم نے مولانا بدر الدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کو امامت کا حکم فرمایا مولانا آگے بڑھے اور نماز شروع کی نیت باندھی اور قراءت کی جگہ یہی بیت زبانِ مبارک پر گزری بعدہ بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ جب ہوش میں ہوئے تو شیخ شیوخ العالم نے پھر آپ ہی کو امام بنایا اور فرمایا نماز شروع کرو اور حاضر رہو۔ اس دفعہ مولانا نے نہایت احتیاط سے نماز تمام کی۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ مجھے مولانا بدر الدین اسحاق سے غایت درجہ کی محبت تھی جس قدر امور مجھے پیش آتے مولانا شیخ شیوخ العالم کے آگے ان میں مجھے بہت مدد دیتے اور خود بھی تربیت فرماتے یہاں تک کہ جب تک مولانا بدر الدین زندہ رہے سلطان المشائخ ان کی عظمت و احترام کی وجہ سے کسی شخص سے بیعت نہ لیتے لیکن جب مولانا انتقال کر گئے تو پھر سلطان المشائخ نے لوگوں سے بیعت لینا شروع کی اور کاتب حروف کے دادا سید محمد کرمانی کو جو اس خاندان کے محرم راز تھے اجودھن روانہ کیا تاکہ خواجہ محمد اور خواجہ موسی مولانا بدر الدین کے صاحبزادوں اور ان کی والدۂ محترم کو جو شیخ شیوخ العالم کی صاحبزادی اور مولانا کی حرم محترم تھیں شہر دہلی میں اپنے ہمراہ لے آئیں چنانچہ کاتب حروف کے دادا ان حضرات کو دہلی میں لے آئے اور سلطان المشائخ نے ان کے دربارہ میں طرح طرح کی رعائتیں ملحوظ رکھ کر ان کے حق میں بہت کچھ تربیت فرمائی۔ چنانچہ یہ کیفیت بی بی فاطمہ کے ذکر میں مفصل بیان ہوگی جہان شیخ شیوخ العالم کی صاحبزادیوں کے مناقب و فضائل کا ذکر ہوا ہے۔ مولانا بدر الدین اسحاق نے علم تصریف میں ایک نہایت قیمتی کتاب نظم کے پیرایہ میں تالیف کی جو آپ کی فصاحت و بلاغت اور تبحر کی واضح دلیل ہے اور جسے تصریف بدری کہتے ہیں۔ اس کتاب کے آخر میں یہ چند شعر لکھے ہیں۔
انی بسطت یدی الیک الھی |
|
ویسل سیل الدمع من ماقی |
اور مولانا بدر الدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے تصرف مذکور کے تتمہ میں اپنے قلم مبارک سے سلطان المشائخ کی التماس سے یہ بھی لکھا ہے سمع منی وقراء ھذا النظم العزیز الامام المجاھد العالم نظام الملۃ والدین محمد بن احمد ذو الخصائل الرضیت والشمائل السنیتہ شملت شمائلہ واثارہ وعمت فضائلہ و انوارہ واتی وان کنت قلیل البضاعۃ فی ھذہ الصناعہ ولکن اتفاق ھذا النظم کان لامر من ھوا واجب الایتمار کسعی النملۃ بین یدی سلیمان وھو دام فضلہ التمس منی ھذہ الاسطرمع کثرۃ قدرہ فکتبت ذالک امتثالا لا مرہ وانا اضعف الفقراء الی اللہ الغنی اسحاق بن غلی الدھلوی بخطی رجاء ان یذکرنی بصالح دعائہ حامدا ومصلیا۔
ترجمہ نظم عربی: اے میرے معبود میں نے تیری طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہیں اور میرے گوشہ چشم سے آنسوؤں کی ندیاں بہتی ہیں۔ سو تو میرے رونے پر حم کر اور جو غفلت ان اوراق میں ہو گئی ہے اس سے درگزر کر۔ جو عیب اس نظم میں واقع ہوا ہے اسے اپنے فضل سے دور کر اور اس نظم کو میرے مرنے کے بعد یادگار قائم کر۔ اپنے دریائے قبول سے اس نظم پر ایک گھونٹ ڈال دے تاکہ اس کی طرف عشاق کی گردنیں جھک جائیں میرے دل کے شغلوں اور سختیوں کو دیکھ۔ اے عالم کے عیب پوشیدہ کرنے والے میں ان سختیوں کے ساتھ آزمایا گیا ہوں جن کی امید نہیں رکھتا تھا تو مجھے ہلاکت سے نجات دے کیونکہ میرے پاس کوئی دوا اور علاج نہیں ہے۔ اس زمانہ میں دین بالکل مٹ گیا ہے یا کم ہے میں اس وقت اخلاق کی جگہ نفاق کو دیکھتا ہوں۔ ان دونوں میں دشمنی پوشیدہ اور رخصت آشکارا ہے اور اسی پر دشمنوں اور دوستوں کا حال قیاس کر۔ آج جو بد دینی اختیار کرتا ہے اسی کو راحت حاصل ہوتی ہے اور یہ زمانہ بدکاری اور بدکاروں کا ہے۔ اس زمانے کے منصف حقیقت میں لوگوں کے گوشت کھانے والے ہیں جو اس طرح پارہ پارہ کر کے کھاتے ہیں جیسے جانور۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں ایسے دانشمند بہت کم پائے جاتے ہیں جو بلا کی سختیوں اور سوز انندہ خوف سے محفوظ ہوں۔ خدا وندا تو اس شخص پر رحم کر جو اس قصیدہ کو پڑھے اور تیرے بندے اسحاق بن علی بن اسحاق کو دعائے خیر سے یاد کرے۔
ترجمہ نثر: مجھ سے اس نظم مبارک کوا س شخص نے سنا اور پڑھا جو خلق کا پیشوا اور کار دین میں بہت کچھ کوشش کرنے والا اور حقائق کا جاننے والا ہے یعنی نظام الملۃ والدین محمد بن احمد نے جو پسندیدہ خصلتوں کا صاحب اور عمدہ عادتوں کا مالک ہے اس کی خوبیوں کے نشانات اور نیکی کی خصلتیں شامل اور اس کی بزرگیاں اور انوار عام ہیں اگرچہ میں شاعری کے فن میں بہت کم پونجی رکھتا ہوں لیکن اس نظم کے کہنے کا اتفاق اس شخص کے فرمانے سے ہوا ہے جس کافرمان قبول کرنا واجب و لازم ہے اور یہ میری کوشش بالکل ویسی ہی ہے جیسے سلیمان کے آگے چیونٹی کی کوشش الغرض نظام الحق نے (اس کی بزرگی ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے) با وجود اپنی بے حد قدر و منزلت ان چند سطروں کے لکھنے کی مجھ سے التماس کی چنانچہ میں نے اس کی امتثال امر کے لیے یہ چند سطریں لکھیں اور میں ان تمام فقرا سے ضعیف تر ہوں جو خدائے بے نیاز کے محتاج ہیں اور جسے اسحاق بن علی دہلوی کہتے ہیں ان چند سطروں کو اپنے قلم سے اس لیے لکھا کہ نظام الحق اپنی نیک دعاؤں میں مجھے یاد رکھے در حالیکہ میں خدا کی تعریف کرنے والا اور پیغمبر پر درود بھیجنے والا ہوں۔
مولانا بدر الدین اسحاق قدس اللہ سرہ العزیز کی عظمت و کرامات
اور آپ کے دنیا سے عقبےٰ میں انتقال کر جانے کا بیان
منقول ہے کہ ملک شرف الدین کُبری جو دیپا لپور کا صوبہ تھا اس کے دل میں شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز سے بیعت کرنے کا داعیہ پیدا ہوا اور اس ارادہ سے شیخ شیوخ العالم کی قدم بوسی حاصل کی۔ سعادت قدم بوسی حاصل کرنے بعد بیت کی التماس کی۔ شیخ شیوخ العالم نے مولانا بدر الدین اسحاق کی طرف اشارہ کیا کہ تم ان سے بیعت لے لو۔ مولانا بدر الدین نے شیخ شیوخ العالم کے حکم سے ملک شرف الدین سے بیعت لی لیکن چند روز کے بعد بادشاہِ وقت کے فرمان کے بموجب اسے گرفتار کر لیا گیا اور دیپالپور سے شہر دہلی کی طرف روانہ کیا۔ ملک شرف الدین نے ایک عرضداشت اسی باب میں مولانا بدر الدین کی خدمت میں لکھی اور اپنے لوگوں کو حکم کیا کہ یہ خرپزہ کی فصل ہے جب تم اجودھن پہنچو تو تھوڑے سے خرپزے خرید کر عرضداشت کے ساتھ مولانا بدر الدین کی خدمت میں پیش کرنا۔ جو میرے مخدوم ہیں جب ملک شرف الدین کے بھیجے ہوئے لوگوں نے وہ عرضی خرپزوں کے ساتھ مولانا بدر الدین کی خدمت میں پیش کی تو عزیزوں کی ایک جماعت اس بزرگ کی خدمت میں بیٹھی ہوئی تھی قاضی صدر الدین جو اجودھن کا حاکم تھا اور مولانا کی خدمت کیا کرتا تھا آپ نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ صدر الدین! انہیں تقسیم کردو۔ چنانچہ قاضی صدر الدین نے خرپزوں کو تقسیم کر دیا اور جب مولانا کا نمبر آیا تو آپ کا حصہ آپ کے سامنے رکھ دیا۔ اس پر مولانا بدر الدین نے فرمایا کہ صدر الدین! اشرف الدین کُبری کا حصہ بھی میرے پاس رکھ دو۔ جب خرپزے تقسیم کر دیے گئے تو مولانا بدر الدین نے اپنی دستار مبارک سر سے اتاری اور اس خرپزے کے متصل رکھ کر فرمایا جو شرف الدین کبریٰ کا حصہ تھا کہ جب تک شرف الدین کُبری یہاں نہ آجائے گا ہم اس وقت تک نہ تو یہ خرپزہ ہی کھائیں گے نہ دستار ہی سر پر رکھیں گے۔ جب وہ یہاں آ پہنچے گا تو ہم اس کے ساتھ مل کر خرپزہ کھائیں گے۔ یہ کہلا اور مشائخ کی حکایت اور بزرگانِ دین کے مناقب بیان کرنے میں حاضرین مجلس کی طرف مشغول ہوئے اسی اثناء میں شرف الدین کبری اپنی رہائی کی حکایت مولانا بدر الدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں یوں عرض کرنے لگے کہ میرے دشمنوں اور چغل خوروں نے بادشاہ کے سامنے میرے باب میں چند ایسی باتیں بیان کیں جو حقیقت میں میری شان کے خلاف تھیں اس لیے بادشاہ نے میری گرفتاری کا حکم دے دیا لیکن پھر فوراً ہی بادشاہ کو ان کا کذب تحقیق ہوگیا اور اس نے ایک دوسرا فرمان روانہ کیا کہ شرف الدین کو رہائی دے دو اور جس مقام تک آپہنچا ہے وہیں سے اسے اس کی جاگیر پر روانہ کردو میں قصبہ نہر والا میں پہنچا تھا کہ یہ دوسرا فرمان مجھے پہنچا میں مخدوم کی برکت سے رہا ہوکر بخیریت تمام خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ منقول ہے کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے یار نوبت بنوبت لکڑیاں چننے کے لیے اجودھن کے جنگلوں میں جایا کرتے تھے جب مولانا بدر الدین کی باری آئی تو آپ بھی لکڑیاں چننے کے لیے تشریف لے گئے اس وقت آپ کے ساتھ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے دو صاحبزادے بھی تھے جو شہر سے نکل کر مولانا بدر الدین کے ہمرا ہی میں جا رہے تھے۔ اثناء راہ میں ان صاحبزادوں نے مولانا بدر الدین سے کہا کہ بابا کے مریدوں کو وہ کرامات و عظمت حاصل نہیں ہے جو سیدی احمد کے مریدوں کو حاصل ہے کیونکہ سیدی احمد کے مرید شیر پر سوار ہوتے اور زہریلے سانپ ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ مولانا بدر الدین نے فرمایا مخدوم زادوں کو اس قسم کی باتیں منہ سے نکالنا نہ چاہیے شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین نہایت بزرگ ہیں کوئی شخص ان کی اور ان کے متعلقوں کی عظمت و کرامات کی برابری نہیں کرسکتا۔ اور اگر بالفرض کرے بھی تو اس کا یہ دعوی چل نہیں سکتا۔ الغرض جب یہ تینوں صاحب آگے بڑھے تو ایک خونخوار شیر جنگل سے باہر نکلا جسے دیکھ کر شیخ شیوخ العالم کے دونوں فرزند ایک درخت پر چڑھ گئے۔ مولانا بدر الدین نے نہایت جرأت و دلیری سے آگے قدم بڑھایا اور آستین مباک شیر کے سر پر رکھی اور فرمایا کہ اے کتے تجھے کیا مجال ہے کہ میرے مخدوم زادوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔ ازاں بعد شیخ شیوخ العالم کے صاحبزادوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ آپ لوگ درخت سے اتر آئیں انہوں نے جواب دیا کہ تاوقتیکہ یہ شیر نہ جائے گا ہم درخت سے نیچے نہ اُتریں گے۔ مولانا بدر الدین رحمۃ اللہ علیہ نے شیر سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اے کتے چلا جا شیر نے سر زمین پر کھا اور لوٹ گیا۔ اب شیخ شیخوخ العالم کے صاحبزادے درخت سے اترے اور پنے کہنے سے سخت نادم و پشیمان ہوئے۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ مولانا بدر الدین ایک دفعہ کچھ لکھ رہے تھے اور نماز عصر کا وقت تنگ ہوگیا تھا ایک شخص نے کہا خواجہ نماز کا وقت تنگ ہوگیا ہے آپ نے حاضرین میں سے ایک شخص کو فرمایا کہ جاؤ آفتاب کو دیکھو اس نے جا کر آفتاب کو دیکھا اور عرض کیا کہ بیشک وقت تنگ اور سورج ڈوبنے کو ہے آپ نے دوسرے شخص کو حکم دیا کہ جا تو دیکھ کہ آفتاب ڈوبنے کو ہے؟ اس نے عرض کیا کہ حضرت سورج ڈوبنے کو ہے ازاں بعد مولانا نے مجھے بھیجا میں نے کہا بیشک آفتاب قریب غروب ہونے کو ہے۔ ازاں بعد مولانا نے فرمایا میں آج آفتاب کو حکم کرتا ہوں کہ جب تک میرا صفحہ تمام نہ ہوجائے غروب نہ ہو۔ جب آپ کا صفحہ پوا ہوگیا تو فرمایا آفتاب کو دیکھو۔ جب ایک شخص نے اوپر جا کر آفتاب کو دیکھا تو اسے اپنی جگہ پر برقرار پایا خواجہ حکیم سنائی جناب امیر المومنین کرم اللہ وجہہ کی مدح میں کیا خوب فرماتے ہیں۔
قوت حسر تش ز قوت نماز
داشتہ چرخ راز گشتن باز
سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ مولانا بدر الدین اسحاق شیخ شیوخ العالم قدس اللہ سرہ العزیز کی اس درجہ خدمت کیا کرتے تھے کہ دس آمیوں سے ویسی خدمت میسر نہیں ہوتی تھی لیکن باوجود اس کے ہمیشہ خدا تعالیٰ کی یاد میں اس درجہ مستغرق و مشغول رہتے تھے کہ اپنی خبر نہیں رکھتے تھے۔ حقیقت میں مولانا نہایت بزرگوار اور فضیلت مآب تھے اور صاحب نعمت تھے میں نے ایک روز آپ سے عرض کیا کہ جب مجھے کسی قسم کی سختیاں اور تنگیاں پیش آتی ہیں تو پہلے شیخ شیوخ العالم کو یاد کرتا ہوں پھر آپ کو خدا تعالیٰ کی جناب میں شفیع لاتا ہوں۔ مولانا نے جواب دیا یہ کہ میں پیشتر غیر محدود نعمت رکھتا تھا لیکن اب وہ مجھ سے چھن گئی ہے جس کی تعزیت میں مصروف ہوں۔ اس کے بعد سلطان المشائخ نے فرمایا۔ سبحان اللہ۔ اس سے زیادہ اور کیا نعمت ہوگی کہ اس زمانہ میں اس حد تک موجود ہے اور یہ قصہ یوں تھا کہ ایک دن شیخ شیوخ العالم نے مولانا بدر الدین اسحاق کو عتاب کیا اور عتاب کی وجہ یہ تھی کہ ایک مرتبہ شیخ شیوخ العالم نے مولانا بدر الدین کو آواز دی لیکن بدر الدین اسحاق پر اس درجہ مشغولی غالب تھی کہ شیخ شیوخ العالم کو جواب نہ دے سکے۔ شیخ شیوخ العالم بگڑ گئے اور رنجیدہ ہوکر فرمایا کہ اب تم از سر نو اپنے کام میں مشغول ہو۔ کیونکہ تمہارے پہلے کام سب ضائع اور رائیگاں گئے۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے تھے کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے ایک ممتاز خلیفہ کا جو نہایت بزرگ اور صاحب کرامت تھے انتقال ہوگیا۔ میں ان کے انتقال کے وقت موجود تھا۔ جب میں دہلی سے شیخ کبیر شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں گیا اور ان بزرگ کے انتقال کا حال شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں عرض کیا تو آپ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور فرمایا کہ ان کی نماز کا کیا حال تھا میں عرض کیا کہ اخیر وقت میں ان کی تین دن کی نمازیں فوت ہوئیں شیخ شیوخ العالم یہ سن کر خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ مولانا بدر الدین اسحاق بول اٹھے کہ ان بزرگ کا خاتمہ اچھا نہیں ہوا۔ میں نے اپنے دل میں کہا تعجب کی بات ہے کہ شیخ شیوخ العالم نے تو اس بارے میں کچھ بھی نہیں فرمایا پھر مولانا بدر الدین رحمۃ اللہ علیہ ایسا کیوں فرماتے ہیں چنانچہ یہ خلش میرے دل میں یہاں تک باقی رہی کہ مولانا بدر الدین اسحاق کا انتقال ہوگیا۔ جب آپ کے انتقال کا وقت قریب ہوا تو صبح کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اور معمولی اوراد وظائف پورے کیے۔ ازاں بعد دریافت کیا کہ اشراق کا وقت ہوگیا ہے لوگوں نے کہا کہ ہاں آپ نے نماز اشراق ادا کی اور اوراد میں مشغول ہوئے پھر پوچھا کہ چاشت کا وقت ہوگیا ہے لوگوں نے کہا ہاں۔ آپ نے چاشت کی نماز ادا کی۔ ازاں بعد سر سجدے میں رکھا اور حق تعالیٰ کی رحمت سے جا ملے رحمۃ اللہ علیہ۔ سلطان المشائخ نے فرمایا اس وقت میں نے وہ زمانہ یاد کر کے کہا کہ بلا شبہ مولانا کو یہ بات کہنی سزاوار تھی اور وہ اس کے لائق تھے۔ ان بزرگ کا مدفن بھی اجودھن کی قدیم جامع مسجد میں ہے جہاں آپ اکثر اوقات مشغول بحق رہتے تھے۔ بندہ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ جن مردانِ خدا نے لبِ گور تک خدا تعالیٰ کی عبادت و بندگی پر توفیق استقامت پائی اور اپنے مشائخ کے ساتھ حسنِ معاملہ سے پیش آتے ہیں ان کا نام اور شہرت قیامت تک باقی رہتی ہے۔
مائیم کہ درپیچ حسابے نائِم
ایک بزرگ کیا اچھا فرماتے ہیں۔
مردان جہان گوئے زمیدان بروند
اے تنگ زنان حدیث مردان چہ کنی
شیخ جمال الدین ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات
شیخ با کرامت تکلف و بناوٹ سے بیزار شیخ جمال الملۃ والدّین ہانسوی ہیں جن کا دلِ مبارک غیر حق سے سلامت تھا اور جو اہل حقیقت کے جمال اور صاحبانِ اہل طریقت کے مقتدا تھے۔ علم و تقوی اور لطافتِ طبع میں بے نظیر اور درویشی کے ساتھ مخصوص تھے۔ آپ کی نظم جو عاشقانِ خدا کے لیے ایک قانوں ہے آپ کے کمالِ عشق پر دلالت کرتی ہے۔ یہ بزرگوار شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے ایک نہایت ممتاز و اولعزم خلیفہ تھے اور مشائخ کبارے کے مرتبہ کو پہنچ گئے تھے۔ شیخ شیوخ العالم کامل بارہ سال تک آپ کی محبت میں ہانسی میں سکونت پزیر رہے آپ کی نسبت شیخ شیوخ العالم نے بہت دفعہ فرمایا ہے کہ جمال حقیقت میں ہمارا جمال ہے اور کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ جمال! میں چاہتا ہوں کہ تمہارے سر پر سے قربان ہو جاؤں شیخ شیوخ العالم کا یہ ارشاد صاف طور پر آپ کی بزرگی و عظمت پر دلالت کرتا ہے اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ شیخ شیوخ العالم کے نزدیک بہت کچھ قدر و منزلت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیخ شیوخ العالم نے ایک شخص کو خلافت نامہ دے کر فرمایا کہ جب تم ہانسی میں پہنچو تو اسے ہمارے جمال کو دکھا دینا چنانچہ جب وہ شخص ہانسی گیا اور شیخ شیوخ العالم کا عنایت کیا ہوا خلافت نامہ شیخ جمال الملۃ والدین کو دکھایا تو آپ نے اس خلافت نامہ کو پارہ پارہ کر ڈالا اور فرمایا کہ تو خلافت کے قابل نہیں ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ اس شخص نے التماس و اصرار کے ساتھ شیخ شیوخ العالم سے خلافت نامہ پایا تھا ورنہ حقیقت میں وہ اس قابل نہ تھا الغرض یہ شخص پھر ہانسی سے اجودھن آیا اور جس خلافت نامہ کو کہ شیخ جمال الدین نے چاک کردیا تھا شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں پیش کیا اس پر شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ جمال کے چاک کیے ہوئے خلافت نامہ کو ہم جوڑ نہیں سکتے۔ شیخ جمال الدین ہانسوی کی عظمت و بزرگی اس قدر تھی کہ سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز فرماتے تھے کہ جب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز نے مجھے اپنی دولتِ خلافت سے سرفراز فرمایا تو ارشاد کیا کہ اس خلافت نامہ کو ہانسی میں مولانا جمال الدین کو دکھا دینا۔ چنانچہ یہ کیفیت نہایت بسط و شرح کے ساتھ سلطان المشائخ کے حالات میں لکھی جا چکی ہے سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ منصب خلافت کے عطا ہونے سے پیشتر جس وقت میں مولانا جمال الدین کی خدمت میں جایا کرتا تھا آپ میری تعظیم کے لیے سر و قد کھڑے ہو جایا کرتے تھے لیکن خلافت کا منصب پانے کے بعد جب میں ایک دن آپ کے پاس گیا تو آپ بیٹھے رہے۔ میرے دل میں فوراً کھٹکا ہوا کہ شاید میری خلافت آپ کے ناگوار خاطر ہے۔ شیخ جمال الدین نے نور باطن سے اس میرے خطرہ کو تاڑ لیا اور فرمایا۔ مولانا نظام الدین اس سے پیشتر جو میں تمہاری تعظیم کے لیے کھڑا ہو جایا کرتا تھا اس کا اور سبب تھا لیکن جب مجھ میں اور تم میں محبت ہوگئی تو میں اور تم ایک ہوگئے اب مجھے تمہارے آگے کھڑا ہونا کیونکر جائز ہوسکتا ہے۔ شیخ سعدی کہتے ہیں۔
قیام خواستمت گرد عقل مے گوید
مکن کہ شرط ادب نیست پیش سر و قیام
سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں اور شیخ جمال الدین ہانسوی اور خواجہ شمس الدین دبیرا اور دیگر یاروں اور عزیزوں کی ایک جماعت جناب شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت سے ایک ساتھ اپنے اپنے وطنوں کی طرف لوٹی رخصت کے وقت شیخ جمال الدین نے وصیت کی درخواست کی یہ اہل ارادت کا آداب ہے کہ جب سفر کا عزم کرتے ہیں اور شیخ سے رخصت ہوتے ہیں تو کوئی وصیت چاہتے ہیں اگر شیخ مرید کے سوال سے پیشتر ہی وصیت کر دے فہو المراد ورنہ مرید خود درخواست کرتے ہیں۔ الغرض شیخ شیوخ العالم نور اللہ مرقدہ نے شیخ جمال الدین کے سوال کے جواب میں فرمایا ہماری وصیت یہی ہے کہ فلاں شخص کو (اور میری جانب اشارہ فرمایا) اپنی اس مصاحبت میں خوش رکھنا چاہیے۔
مقصود توئی دگر بھانہ است
شیخ جمال الدین وصیت کے بموجب مجھ پر بے حد مہربانیاں فرماتے تھے اور خواجہ شمس الدین دبیر بھی جو لطافت کی کان اور ظرافت کے سرچشمہ تھے بہت ہی تعظیم و تکریم سے پیش آتے تھے۔ غرضکہ اسی طرح لوگ اگر وہا کے قریب پہنچے شیخ جمال الدین کے دوستوں میں سے ایک عزیز جسے میران کہا جاتا تھا اور جو اس موضع کا حاکم تھا یاروں کے آنے کو باعث سعادت سمجھا اور نہایت جوش مسرت سے استقبال کر کے شیخ جمال الدین کو مع تمام یاروں کے اپنے گھر لے گیا۔ اور نہایت عزت و وقعت کے ساتھ مہمانی کی اور گراں بہا تحفے پیش کیے شیخ جمال الدین نے فرمایا کہ اے عزیز تو نے عجیب و غریب میز بانی کی اب ہمیں یہاں سے کب رخصت کرے گا کہ اپنے وطنوں کو روانہ ہوں کہا میں آپ کو اس وقت رخصت کروں گا جب مینہ برسے گا۔ اس زمانہ میں مینہ نہیں برسا تھا اور مخلوق قحط کی بلا میں گرفتار تھی شیخ جمال الدین نے بالفعل اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور اس معاملہ میں باطن سے توجہ کی ابھی رات نہ گزری تھی کہ اس زور سے مینہ برسا کہ اس ولایت کے تمام اطراف کو سیراب کردیا۔ صبح کو ہر ایک شخص نہایت شاداں و فرحاں خدمت میں حاضر ہوا اور شیخ جمال الدین نیز آپ کے تمام یاروں کے لیے کسے کسائے گھوڑے حاضر کیے چنانچہ سب لوگ وہاں سے ہانسی تک گھوڑوں پر سوار ہوکر آئے۔ میری سواری کا گھوڑا بدلگام اور سرکش تھا اور سب سے پیچھے رہتا تھا اور یار تو آگے بڑھ گئے اور میں تنہا رہ گیا جس کی وجہ سے مجھے کچھ مشقت چھیلنی پڑی انجام کار میں بے طاقت ہوکر گھوڑے سے اتر آیا اور پیدل رستہ چلنے لگا۔ صفرا غالب ہوا اور میں بے ہوش ہوکر گر پڑا لیکن اس حالت میں بھی شیخ شیوخ العالم کی یاد میری زبان پر جاری تھی جب میں ہوش میں آیا تو مجھے اپنے اوپر بھروسہ ہوگیا کہ دم واپسین میں بھی میں آپ ہی کی یاد پر جاؤں گا۔
خوش آن رفتن کہ بریادت رود جانم
سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اجودھن جاتا تھا رستہ میں خیال آیا کہ ہانسی ہوتا چلوں چنانچہ میں ہانسی پہنچا اور شیخ جمال الدین سے ملاقات کی آپ نے فرمایا تم شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں میری طرف سے عرض کرنا کہ جمال الدین کو خرچ میں بہت عسرت و تنگی رہتی ہے۔ شیخ شیوخ العالم اس کے حق میں دعا فرمائیں جب شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں پہنچا تو ان کا پیام عرض کیا۔ فرمایا اس سے کہہ دینا کہ جب کسی شخص کو ولایت دی جاتی ہے تو اسے ولایت کی استمالت واجب ہے۔ شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ دنیاوی بادشاہوں کی استمالت خدا کی طرف دل کو من کل الوجہ متوجہ کرنا ہے۔ سائل نے دوبارہ عرض کیا کہ شیخ جمال الدین ہانسوی کی مشغولی اور کرامت مشہور ہے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے لیکن انبیاء علیہم السلام کے سوا اور کوئی شخص معصوم نہیں ہے۔ ورنہ اس بزرگ کا یہ پیام اور شیخ شیوخ العالم کا جواب دلیل کرتا ہے۔ منقول ہے کہ شیخ جمال الدین ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کنیزک تھی خادمہ اور نہایت صالحہ۔ ہانسی سے شیخ جمال الدین کے عرائض شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں بھی لے جایا کرتی تھی اور شیخ شیوخ العالم اسے ام المومنین کہتے تھے۔ ایک دن شیخ شیوخ العالم نے فرمایا۔ کہ اے مومنوں کی مان ہمارا جمال کیا کرتا ہے۔ ام المومنین نے عرض کیا کہ ہمارے خواجہ نے جس روز سے شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں پیوندگی کی ہے گاؤن اور اسباب اور کتابت کے شغل کو کلیۃً ترک کر دیا ہے اور بھوک اور سخت سخت مصیبتیں جھیلتا ہے۔ شیخ شیوخ العالم یہ حکایت سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ الحمد اللہ ہمیشہ خوش رہے گا۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ جاڑے کے موسم میں میں شیخ جمال الدین ہانسوی کی خدمت میں بیٹھا تھا اسی اثناء میں شیخ جمال الدین نے یہ نظم زبانِ مبارک پر جاری کی۔
بار و غن گاؤ اندریں روز خنک
نیکو باشد ھر یسہ و نان تنک
میں نے کہا مولانا ذکر الغائب غیبتہ یعنی غائب کا ذکر کرنا غیبت ہے۔ شیخ نے مسکرا کر فرمایا۔ اول میں نے اسے موجود کر لیا ہے پھر اس کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد جیسا آپ نے ذکر کیا تھا مجلس میں حاضر کیا گیا۔ منقول ہے کہ شیخ جمال الدین ہانسوی شیخ ابو بکر طوسی حیدری سے بہت محبت کرتے تھے جو جون ندی کے کنارے اندر پت کے متصل ایک نہایت خوش منظر پر فضا خانقاہ رکھتے تھے جو بہشت کے دعوایدار تھی اسی خانقاہ میں آپ مدفون تھی ہیں یہ ایک نہایت عزیز درویش تھے اور ان کا معاملہ حیدریوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتا تھا خلاصہ یہ کہ شیخ جمال الدین اور شیخ ابو بکر طوسی رحمۃ اللہ علیہما کے ما بین انتہا درجہ کی محبت تھی اور اس باہمی محبت کا واسطہ و ذریعہ مولانا حسام الدین اندر پتی قاضیوں اور واعظوں کے شیخ تھے۔ مولانا حسام الدین شیخ جمال الدین رحمۃ اللہ سے بیعت تھے جس وقت شیخ جمال الدین جناب شیخ الاسلام قطب الدین بختیار قدس اللہ سرہ العزیز کی زیارت کو آتے تھے تو شیخ ابو بکر طوسی سے ملاقات کرتے تھے اور مولانا حسام الدین شیخ جمال الدین کے آنے کو بہت ہی غنیمت شمار کرتے تھے اور بڑی بڑی عمدہ دعوتیں کیا کرتے تھے جن میں سلطان المشائخ بھی موجود ہوتے تھے۔ ایک دفعہ شیخ جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ ہانسی سے آتے تھے مولانا حسام الدین نے استقبال کیا۔ جس وقت مولانا حسام الدین استقبال کے ارادہ سے باہر نکلے تو شیخ ابو بکر طوسی نے مولانا حسام الدین سے کہا کہ تم شیخ جمال الدین سے کہہ دینا کہ ابو بکر حج کو جاتا ہے چنانچہ جب مولانا حسام الدین موضع کلو کھری میں جون ندی کے کنارے پہنچے تو شیخ جمال الدین پر لے کنارے پر آپہنچے تھے۔ اس کنارے پر مولانا حسام الدین کھڑے اور اس کنارے پر شیخ جمال الدین موجود تھے اور جون ندی بیچ میں تھی مولانا جمال الدین نے شیخ حسام الدین سے بآواز بلند کہا کہ ہمارا سفید باز یعنی شیخ ابو بکر طوسی کہاں ہے مولانا حسام الدین کے کہا کہ شیخ ابو بکر حج کو جاتے ہیں شیخ جمال الدین نے اسی کنارہ سے مولانا حسام الدین سے فرمایا کہ تم بھی یہیں سے ان کے پیچھے جاؤ اور یہ بیت پڑھو۔ ہم بھی تمہارے تعاقب کرتے ہوئے پہنچتے ہیں ابیات یہ ہیں۔
مر پائے تر اسرم نثار اولیٰ تر |
|
یک سرچہ بود ھزار سر اولٰی تر |
|
شیخ قطب الدین منور جناب شیخ جمال الدین ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے سے منقول ہے کہ جس روز شیخ جمال الدین کے مبارک کان یہ حدیث پہنچی تھی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم القبر روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفر لنیران۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے اس روز سے آپ نہایت متفکر اور اس وعید کی ہیبت سے سخت بے قرار رہتے تھے حتیٰ کہ جب آپ نے سفر آخرت قبول کیا اور خدا تعالیٰ کی جوار رحمت میں جا پہنچے تو آپ کے یاروں عزیز بھی اس وجہ سے قلق و اضطراب میں تھے کہ شیخ کا حال قبر میں کیسا ہوگا چنانچہ چند روز کے بعد لوگوں نے آپ کی قبر پر گنبد تعمیر کرنا چاہا اور گنبد کی بنیادیں کھودنی شروع کیں۔ جب لحد کے نزدیک پہنچے تو قبلہ کی جانب سے آپ کے منہ مبارک کے سامنے ایک کھڑکی ظاہر ہوئی جس میں سے بہشت کی خوشبو آتی تھی یہ دیکھتے ہی وہاں سے ہٹ گئے اور اس موضع کوڈہا دیا۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ جب شیخ جمال الدین ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تو لوگوں نے آپ کو خواب میں دیکھ کر حال دریافت کیا فرمایا۔ جوں ہی لوگوں نے مجھے قبر میں اتارا عذاب کے دو فرشتے آئے اور ان ہی کے عقب میں ایک اور فرشتہ آیا جس نے فرمان پہنچایا کہ ہم نے اسے صلوۃ البروج کی ان دو رکعت کی وجہ سے بخش دیا جو نماز مغرب کی سنتوں کے متصل پڑھا کرتا تھا اور آیتہ الکرسی کی بدولت اس کے سر پر مغفرت کا تاج رکھا جو ہر فرض کے متصل پڑھا کرتا تھا۔
منقول ہے کہ شیخ جمال الدین وفات پاگئے تو ام المومنین نے جو شیخ جمال الدین کی خادمہ تھیں شیخ جمال الدین کا عصا اور مصلا جو آپ نے شیخ شیوخ العالم کی خدمت سے پایا تھا شیخ جمال الدین کے چھوٹے صاحبزادے مولانا برہان الدین صوفی کو دیا جو شیخ قطب الدین منور کے والد بزرگوار تھے اور چونکہ مولانا برہان الدین ابھی صغیر لسن ہی تھے اس لیے ام المومنین انہیں شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں لے گئیں شیخ شیوخ العالم نے نہایت مہربانی و شفقت سے مولانا بدر الدین کی تعظیم و تکریم میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا اور اپنی بیعت وارادت کے شرف سے مشرف و ممتاز کیا اور چند روز اپنے پاس رکھ کر رخصت کیا۔ مراجعت کے وقت خلافت نامہ اور وہ عصا و مصلا جو مولانا جمال الدین کو عطا ہوا تھا مولانا برہان الدین صوفی کو بخشا اور فرمایا۔ برہان الدین! جس طرح جمال الدین کو ہماری طرف اجازت حاصل تھی اسی طرح تم بھی مجاز ہو اور یہ بھی فرمایا کہ تمہیں چند روز مولانا نظام الدین یعنی سلطان المشائخ کی صحبت میں رہنا چاہیے۔ اس وقت ام المومنین نے شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں بزبان ہندی عرض کیا کہ خوجا برہان الدین بالا ہے۔یعنی کم عمر ہے اس بار گراں کی طاقت نہیں رکھ سکتا۔ شیخ شیوخ العالم قدس اللہ سرہ العزیز نے بھی ہندی میں فرمایا کہ مادر مومناں! پونوں کا چاند بھی بالا ہوتا ہے یعنی چودہویں رات کا چاند بھی پہلی شب کو چھوٹا ہی ہوتا ہے جو تدریجاً کمال کو پہنچتا ہے۔ خواجہ سنائی کہتے ہیں۔
برگ توت است کہ گشتہ است بتدریج اطلس
اس کے بعد شیخ شیوخ العالم نے مولانا برہان الدین کو رخصت کیا۔ مولانا برہان الدین جناب شیخ شیوخ العالم کے فرمان کے بموجب ہر سال سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوکر تربیت حاصل کرتے۔ الغرض جب مولانا برہان الدین مرتبۂ کمال کو پہنچے اور شیخ شیوخ العالم کی نظر کی برکت اور سلطان المشائخ کی صحبت کی وجہ سے مشائخ کبار کے اوصاف آپ میں جمع ہوگئے تو بھی آپ نے کوئی مرید نہیں کیا۔ اگر کوئی شخص بیعت کی غرض سے آتا اور آپ کی طرف متوجہ ہوکر با صرار بیعت کرنا چاہتا تھا تو آپ فرماتے کہ باوجود سلطان المشائخ شیخ شیخ زمانہ حضرت سید نظام الدین محمد کے مجھ جیسے کو کلاہ ارادت دینا اور بیعت لینا جائز نہیں ہے مولانا برہان الدین کی یہ تقریر سلطان المشائخ کے کان مبارک میں پہنچ چکی تھی۔ جب مولانا برہان الدین حسب معمول سلطان المشائخ کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا۔ مولانا! جس طرح یہ ضعیف شیخ شیوخ العالم سے اجازت رکھتا ہے اسی طرح تم بھی مجاز ہو اور جب یہ ہے تو لوگوں کو کلاہ ارادت کیوں نہیں دیتے۔ مولانا برہان الدین نے کہا کہ آپ جیسے بزرگ کے ہوتے مجھے جائز نہیں ہے کہ کسی کو کلاہ ارادت دوں۔ مولانا برہان الدین صافی اعتقاد کے ساتھ دل سے سلطان المشائخ کی محبت رکھتے تھے آپ جس سال ہانسی سے سلطان المشائخ کی خدمت میں دہلی آتے تو سلطان المشائخ فرماتے کہ مولانا کے لیے جماعت خانہ میں چار پائی بچھادو۔ چونکہ توضع و انکسار کے اوصاف مولانا برہان الدین کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ مختص تھے لہذا آپ ترک ادب کی وجہ سے جماعت خانہ میں چار پائی پر نہیں سوتے تھے۔ آپ جس وقت سلطان المشائخ کی خدمت میں جانا چاہتے تو اول اپنے پاکیزہ کپڑوں کو عود اور دوسرے عطر سے معطر کرتے پھر سلطان المشائخ کی خدمت میں جاتے اگرچہ دن میں کئی مرتبے آپ بلائے جاتے۔ جب اس کی وجہ حکمت لوگوں نے اس بزرگ سے دریافت کی تو فرمایا جب کسی بزرگ کی خدمت میں جائیں تو خوشبو مل کر جائیں اور یہ بزرگ جمال با کمال رکھتے اور اپنا ظاہر حال آراستہ اور باطن معمور رکھتے تھے۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ جمال الدین ہانسوی کے ایک صاحبزادے نہایت بزرگ اور دانشمند تھے مگر دیوانے ہوگئے تھے کبھی کبھی ہوش میں آتے اور دانشمندانہ باتیں کرتے تھے۔ اگرچہ دیوانے لیکن جو باتیں میں نے ان سے سنی ہیں ہزار ہوشیاروں عقلمندوں سے نہیں سنی۔ اکثر کہا کرتے تھے العلم حجاب اللہ الاکبر۔ اس وقت مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ معنوی دیوانے ہیں۔ ایک دن میں اس جملہ کے معنے ان سے دریافت کیے۔ جواب دیا کہ علم۔ حق کے دَرے ہے اور جو چیز حق کے دَرے ہے حجاب حق ہے۔
(سِیَرالاولیاء)