مولانا بدرالقادری ہالینڈ
مولانا بدرالقادری ہالینڈ (تذکرہ / سوانح)
ادیب عصر مولانا بدر القادری رضوی اعظمی
ولادت
حضرت مولانا بدر عالم عرف بدر القادری بن حافظ محمد رمضان بن شیخ محمد اسحاق بن محمد حبیب ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۵۰ء محلہ ملک پورہ (مرزاجمال پور) قصبہ وپوسٹ گھوسی ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔
تعلیم وتربیت
مولانا بدر القادری کی ابتدائی تعلیم مدرسہ ناصر العلوم ملک پورہ اور مدرسہ خیریہ فیض عام گھوسی میں ہوئی۔ درس نظامیہ دار العلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور میں ہوئی۔ ۱۰؍شعبان المعظم ۱۳۸۹ھ؍ ۲۳؍اکتوبر ۱۹۶۹ء کو اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور سے فراغت حاصل کی۔
قطعات تاریخ فراغت
حضرت مولانا بدرالقادری کی فراغت پر جناب رحمت الٰہی برق صدیقی اعظمی نےتاریخی قطعات کہے۔
آج دستار فضیلت بدر کے سر پر بندھی
کیوں نہ اشرفیہ کا دنیا بھر میں روشن نام ہو
حافظ ملت کے دل کی آج برآئی مراد
لکھ الٰہی بدر عالم خنجر اسلام ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۱۳۸۹ھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حافظ ملت کے دل کی آج برآئی مراد
بدر کے سر پر ہے دستار ِ فضیلت ضوفگن
برق کے دل کی دعا بھی ہے یہ ارخ عیسوی
بدر عالم ہو الٰہی روشن بخش زمن
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۱۹۶۹ء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اساتذہ کرام
۱۔ حافظ ملت حضرت مولانا الشاہ عبد العزیز محدث رضوی مراد آبادی علیہ الرحمہ
۲۔ حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ
۳۔ حضرت مولانا مفتی عبدالمنان اعظمی شیخ الحدیث شمس العلوم گھوسی اعظم گڑھ
۴۔ حضرت مولانا مظفر حسن ظفر ادیبی مبارکپوری
۵۔ حضرت مولانا محمد شفیع اعظمی مبارکپوری
۶۔ حضرت مولانا سید حامد اشرف کچھ چھوی
۷۔ حضرت مولانا قاری محمد یحییٰ مباکپوری
۸۔ حضرت مولانا شمس الحق گجہڑوی رحمۃ اللہ علیہ
درس وتدریس
مولانا بدر القادری ۱۹۷۰ء میں بحیثیت صدر مدرس دارالعلوم غوثیہ ہیلی ناٹک میں رہے ۱۳۹۲ھ؍ ۱۹۷۳ء میں مدرسہ سیدالعلوم بہرائچ شریف میں صدرمدرس رہے ۱۹۷۳ء میں مدرسہ ضیاء الاسلام مور انواں ضلع اُنَّاؤ کے صدر کی حیثیت سے کام کیا۔
خطابت وامامت
مولانا بدر القادری ۱۳۹۰ھ؍ ۱۹۷۱ء میں جامع م سجد انکو لاضلع کاردار کرناٹک کے خطیب کی حیثیت سے کام انجام دیے، ۱۹۷۲ء مسجد باغ فردوس بھیونڈی ضلع تھانہ مہار اشٹر کی امامت کے فرائض انجام دیئے۔ رمضان المبارک ۱۳۹۱ھ؍اکتوبر ۱۹۷۲ء کو مولانا بدر القادری بحیثیت خطیب جامع مسجد خوردمن ضلع بلسار گجرات تشریف لے گئے۔ ۱۹۷۱ء نپویل ضلع تھانہ مہار اشٹر تشریف لے گئے اور ماامت وخطابت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیئے۔
مبارکپور میں
مولانا بدر القادری الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور شعبۂ نشریات کے انچارج کی حیثیت سے یکشنبہ ۱۷؍جمادی الاولیٰ ۱۳۹۴ء مطابق ۹؍جون ۱۹۷۴ء کو آئے۔
۷؍مئی ۱۹۷۴ء کو جناب علیم الدین بن صوفی علی رضا شہر اعظم گڑھ کی صاحبزادی سے نکاح ہوا۔
قلی خدمات
۱۔ تذکرہ مسعود غازی ‘‘حضرت سید سالار مسعود غازی علیہ الرحمہ (بہرائچ شریف) کے حالات و واقعات پر مشتمل کتاب ۱۹۷۳ء میں لکھی۔
۲۔ اشک خون (چند انقلابی نظموں کامجموعہ ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا)
۳۔ اشرفیہ کا ماضی اور حال (تاریخ اشرفیہ پر پہلی کتاب فروری ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی
۴۔ ماہنامہ اشرفیہ (فروری ۱۹۷۶ء میں اپنی مساعی جمیلہ سے الجامعۃ الاشرفیہ کا علمی دینی ترجمان جاری کیا۔ اور جب تک ہندوستان میں رہے۔ اعلیٰ معیاری مضامین پر جاری رکھا۔ اور اس کے مدیر مسئول رہے)
۵۔ حافظ ملت نمبر (۱)(اس سلسلہ کی آخری اور اہم کڑی ماہنامہ اشرفیہ کا ۵۷۵ صفحات پر مشتمل حافظ ملت نمبر ہے جو پریس کے حوالے کرنے کے بعد خود یوپر کے دورہ پر چلے گئے)
سفر ہالینڈ
۷؍اگست ۱۹۷۷ء بریڈفورڈ انگلینڈمیں ورلڈاسلامک مشن کی دوسری عالمی کانفرنس کےموقع پرارسال کردہ پیغام(مطبوعہ ماہنامہ اشرفیہ اکتوبر ۷۷ء ص ۲ تا ۵) دراصل مولانا بدر القادری کے سفر ہالینڈ کا سبب بنا۔ اس کانفرنس میں الجمعیۃ الاسلامیہ ہالینڈ کا وفد بھی شریک تھا۔ جس نےکانفرنس کے دوران علامہ قمر الزماں اعظمی سے مولانا کا تعارف حاصل کیا۔ اور ہالینڈ آنے کی دعوت دی۔ جس کے نتیجہ میں ۲۰؍جولائی ۱۹۷۸ء کو نیدر لینڈ اسلامک سوسائٹی اسٹرڈم میں انہوں نے مشیر دینیات
(NEATHER LAND ISLAMIC SOVCIETY AM STERDAM)
کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی اور اس ملک میں اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کا کام شروع کیا۔
وائس آف اسلام
جولائی ۱۹۸۰ء میں انٹر نیشنل سہ ماہی میگزین (ISLAM VOICE OF) انگلش، اردو، نیدر لینڈ ز زبانوں میں جاری کیا۔ جو تنظیمی امور کے بعض اختلافات کے باعث جاری نہ رہ سکا۔ اس کا اردو ایڈیشن دو سال تک متوتر جاری رہا تا آنکہ تنظیم (NIS)نےخود ہی اسے بند کرنے کا فیصلہ کردیا۔
مولانا بدر القادری میگزین کے اجراء تک مدیر مسئول کی جملہ ذمہ داریوں پر بحسن وخوبی کارفرمارہے۔ اس دوران مولانا بدرالقادری کے دو مذہبی رسالے شائع ہوئے۔
۱۔ فلسفہ قربانی: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ قبانی کی حکمتوں پر مشتمل مؤثر رسالہ ہے۔ ۱۹۸۱ء میں طبع ہوا
۲۔ ‘‘زمین پر اللہ کا گھر’’ فضائل مسجد اور احکامِ مسجد سے متعلق یہ رسالہ اس وقت تصنیف کیا گیا تھا۔ جب تنظیم (N.I.S) اسٹرڈم میں ایک عظیم اسلامک سینٹر کے پروگرام پر ہمہ ج ہت مصروف تھے۔
ہالینڈ میں مسجد کا قیام
ہالینڈ میں کوئی مسجد شرعی اصول وضوابط کی رو سے موجود نہیں تھی۔ اس سینٹر اور عظیم مسجد کا پروگرام شروع ہوتے ہی سب سے اہم کام مسجد کے لیے زمین کا حصول تھا۔ اس ملک میں عام طور پر زمینیں حکومت کی ہوتی ہیں اور ح کومت اہل ھاجت کو، کسانوں اور تعمیراتی اداروں کو اور دیگر کمپنیوں کو کرایہ پر دیتی ہے۔ چنانچہ زمین کے مسئلہ پر کوششیں ہوئیں تو یہمسئلہ پارلیمنٹ تک گیا۔ اسلامی قانون میںمسجد کے لیے زمین وقف علی الدوام ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں مولانا بدر القادری نے عالم اسلام کے عظیم مفتیوں سے فتاویٰ حاسلکیے الور اسلامی م وقف کی بھر پور پیروی کی اور زمی کے حصول کی اُمیدیں روبہ رو تکمیل ہوچکی تھیں۔ مگر۔۔۔۔
ادھر سعودی حکومت کویت اور دیگر ممالک عرب کی متواتر وعدہ خلافیوں کے بعد مولانا بدرالقادری نےلیبیا کی عالمی تنظیم اسلامک کال سوسائٹی سے رابطہ قائم کر کے پندرہ ملین گلڈر کی رقم منظور کرالی۔ اس رقم کی منظوری کے آثار ہوتے ہی تنظیم کے اندر مدد یانتی کے نیچے دراز ہونے لگے۔ اور یہ پروگرام بننےلگا کہ مولانا بدر القادری کو کسی طرح ملک سے نکلوادیا جائے۔ مگر ملک ہالینڈ کے ہر گوشے میں پھیلے ہوئے مولانا بدر القادری کےقدر دانوں نے اس خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا اور نتیجتاً عظیم اسلامک سینٹر کا یہ پروگرام خاک میں مل گیا۔
طرابلس عالمی کانفرنس
۱۴؍اگست ۱۹۸۲ء کو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے علماء اور دعاۃ کی عالمی کانفرنس میں مولانا بد القادری نے شرکت کی اور اطراف عالم سے آنے والے علماء و مفکرین سے ملاقات کی۔ عالمی سطح پر اسلام کی اشاعت کےپروگرام اور مسلمانوں کے در پیش مسائل کا قریب سے جائزہ لیا۔ اور باحوصلہ تازہ دم ہوکر واپس آئے۔ اس کانفرنس کے دوران مولانا بدرالقادری جن عظیم شخصیتوں سے متاثر ہوئے۔ ان میں شام کے مفتی شیخ احمد کفتارو اور ویونان کےمفتی محمد احمد نیز اسلامک کال سوسائٹی کےسکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد احمد الشریف قابل ذکر ہیں۔ اسی دوران اسلامک کال سوسائٹی کے ذمہ داروں سے مل کر مولانا بدرالقادری نے تنظیم کے حالات پر گفتگو کی اور منظور شدہ رقم منسوخ کرادی۔ مولانا بدرالقادری کے از خود اس عمل نے اس عالمی تنظیم کے ارباب حل وعقد کو آپ کا گردیدہ بنادیا۔
مولانا کی مساعی سے ہالینڈ اور گردونواح میں کئی اسلامی تنظیموں کو غذاء زیست مل رہی ہے۔ ہالینڈ کےعلاوہ فرانس، بلجیم اور جرمنی تک کے اہل تعلق مولانا سے دینی وعلمی استفادہ کرتےہیں۔
مختلف یورپی ممالک کے دورہ
مالٹا کانفرنس: ۱۰؍اکتوبر۱۹۸۲ء کو مالٹا میں منعقد کانفرنس (ائمہ دوعاۃ کانفرنس) میں شرکت کی۔ جس میں امریکہ اور کناڈا اور تمام پور پین ممالک میں کام کرنے والے عظیم علماء اور مفکرین کا اجتماع ہوا اور خط ہائے ارضی پر اسلام اور مسلمانوں کو درپیش مسائل پر غور وخوض کیا گیا۔
لندن کانفرنس: ویمبلے میں اسلامک کال سوسائٹی کی جانب سے ائمہ اور دعاۃ کی ایک کانفرنس ۲۱؍اپریل ۱۹۸۳ء کو منعقد ہوئی۔ جس میں خاص بات یہ تھی کہ اردو بولنے والے علماء کو خاص نمائندگی نصیب ہوئی۔
واضح رہے کہ طرابلس کانفرنس (۸۲ء) میں شرکت کے بعد مولانا بدرالقادیر نے انگلینڈ اور یورپ کے سنی علماء کو اس طرفھ بھی متوجہ کیا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ حضرات اس تنظیم سے وابستہ ہونےکی کوشش کریں اور اس کے طُرق ومسائل پر بھی مشورے اور خطوط ارسال کیے تھے۔
بامخصوص شاہ احمد نورانی قائد اہلسنت کراچی، مولانا ارشد القادری مولانا سید سعادت علی ہالینڈ اور علاقہ قمر الزماں ا عظمی ومولانا شاہد رضا نعیمی انگلینڈ کو مولانا بدر القادری نے متوجہ کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ بہر حال لندن کی یہ کانفرنس اردو اسپیکرس کے ہاتھ میں رہی اور کئی لحاظ سے کامیاب رہی۔
مولانا بدرالقادری نے اسی کانفرنس کےدوران اسلامک کال سوسائٹی کے ارباب حل وعقد سے ملاقات کر کے امسٹرڈم کی نئی اسلامی تنظیم (ICN) کےلیے عمارتی ضرورت کیجانب متوجہ کیا جس کےنتیجہ
(BESEMMER STARAAT 25, AME STERDAM) ایک خطیر رقم موصول ہوئی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر کال سوسائٹی کا ایک وفد انڈیا آنے والا تھا۔ جس کی خبر ملتے ہی مولانا بدرالقادری نےہندوستان کےسنی حلقہ کو باخبر کیا۔ بامخصوص الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے ذمہ داروں کو اطلاع دی۔ مگر وفد ہندوستان آکر واپس بھی جاچکا لیکن اپنا کوئی نمائندہ اور کسی ادارہ کا ذمہ داران سے ملاقات نہ کرسکا۔
ناروے کانفرنس: ۱۳جولائی ۱۹۸۴ء کو ناروے کےدار السلطنت اوسلو میں جماعت اہل سنت کیجانب سےایک سہ روزہ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں مولانا بدرالقادری نے شرکت کی اور ‘‘اسلام میں تربیت اولادًکے عنوان پر ایک مقابلہ پیش کیا جو پسند کیا گیا۔
قبول اسلام
اس دوران میں مولانا بدرالقادری کے ہاتھ پر ڈھائی سو سے زائد غیر م سلم اسلام قبول کر چکے ہیں اور بہت سے لوگ تائب ہوکر صراط مستقیم پر گامزن ہوئے۔ اسلام وشریعت کی دعوت و تبلیغ کا یہ سلسلہ مولانا کی یومیہ مصروفیات میں داخل ہے۔ ربِّ کریم روز افزوں ترقی وکامیابی سے نوازے۔
اوقات الصلوٰۃ اور رویت ہلال
ہالینڈ اور دیگر ممالک یورپ کا حال ہمارے اسلام آشنا م مالک سے بہت مختلف ہے وہاں کے مسلمان دینی احکام ومسائل سے عموماً نابلد اور بہت دور ہیں ان سے شرعی احکام اور مذہبی پابندیاں تسلیم کرانا پھران پر عامل بنانا بڑا ہی صبر آزما مرحلہ ہے۔
مولانا بدرالقادری کی اس ملک میں آمد سے پیشتر ہالینڈ، بلجیم وغیرہ کے لوگوں کے پاس اپنا کوئی مستقل اوقات الصلوٰۃ چارٹ نہیں تھا۔ لوگ محکمۂ موسمیات کی اٹگل خبروں پر نمازیں گزارتے تھے۔ عام طورپر چارٹ میں صرف جماعت کے وقت ہی کو نماز کا وقت سمجھا جاتا تھا۔ زوال کے وقت کی بھی کوئی حقیقت ہے اس سے کوئی واقف نہ تھا۔ داردین علماء اس پر اس وجہ سے کام کرنے سے گری زکرتے تھے کہ سال کے کئی مہینوں میں یہاں فقہ حنفی کےمطابق عشاء کا وقت آتا ہی نہیں۔ مگر مولانا بدرالقادری نے مسلمانوں کو صحیح اوقات الصلوٰۃ سے آگاہ کیا۔ اس سلسلہ میں تحقیق و تلاش کے دوران کافی دشواریاں بھی اٹھانا پڑیں۔ کچھ دنیا دار لوگ آڑے بھی آئے۔ مگر بحمداللہ ملک اور اطراف میں اسی پر اکثر لوگوں کا عمل ہے۔ یوں ہی رویت ہلال کا باقاعدہ شرعی طور پر اہتمام کیا۔ تاکہ لوگوں میں دین کی اہمیت راسخ ہو۔
اس سلسلے میں یورپ میں بسے ہوئے علماء کے بے احتیاطیاں حد سے متجاوز ہیں۔ بغیر کسی شرعی ثبوت کے بعض تو اتنے جری ہیں کہ اپنےماننے والوں سے کہتے ہیں کہ میرے رسک پر روزہ شروع کرو! میرے رسک پر کل عید کروگو یا اس کا میں ذمہ دار ہوں۔ بعض بہت محتاط ہیں تو ٹیلیفون کی خبر کو شہادت قرار دینے کے لیے کھینچ تان کر رہے ہیں۔ عزسمیت پر کسی طور پر عمل کرنا بہت دشوار محسوس ہوتا ہے۔
مگر الحمدللہ بدالقادری صاحب نے ہمیشہ چاند کےمعاملےمیں بھی اور مسائل شرعیہ کی طرح طرح نہایت سختی سے عمل کرنےکی تحریک چلائی۔ اور لوگوں کو عمل پہ آمادہ کیا۔ جو اس مذہب بیزار ماحول نہایت دشوار امر ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ شریعت واحکام شریعت کی عظمت وسطوت دلوں میں پیدا کی جائے۔ اگر علماء نے یہ نہ کیا اور شریعت بیزار لوگوں کی خاطر داری میں صرف رخصتیں اور سہولتیں ڈھونڈھتے رہے تو یہ سلسلہ کہیں جاکر تھمنے والا نہیں لوگ تو یہ چاہیں گے کوئی عمل نہ کرنا پڑے پھر بھی پکے سچے صالح عادل مسلمانوں میں ہمارا شمار ہوتا رہے۔ اس کے عواقب ونتائج بہت خطر ناک اور دور رس ہیں۔ اسلامی علماء ومفکرین خود غور کریں۔ہر ملک میں اس طرف توجہ کی سخت ضرورت ہے۔
یو۔پی کا تبلیغی دورہ
مولانا بدرالقادری اور مولانا عبدالمبین نعمانی رضوی نے چہار شنبہ ۹۳اگست ۱۹۸۹ء سے جمعہ ۱۲؍اگس ۱۹۸۹ء تک پہلادورہ کیا،دوسرادورہ شنبہ۲۶؍اگست ۱۹۸۹ء سےشروع ہوکرچہار شنبہ ۳۰؍اگست ۱۹۸۹ء کومکمل ہوا جس میں مزارات اولیاء کی زیارت، علماء اکابرین سے ملاقات، دانشگاہوں اور ،مدارس کےجائزے، بعض مردم خیز علاقوں کی تاریخی جگہیں، قدیمی عمارات کا نظارہ کیا۔ وہ جگہیں یہ ہیں۔
دارالعلوم قادریہ، چریاکوٹ، لکھنؤ، دربار شاہ مینا علیہ الرحمہ، دارالعلوم وارثیہ، جامع مسجد ضیاء الاسلام، مورانواں، شہر انَّاؤ،مارہرہ مطہرہ (امام احمد رضا کےقلبی مخطوطات دیکھے) حضرت شاہ آل احمد اچھے میاں، حضرت حمزہ قدس اسراہما۔ جامعہ برکاتیہ سید العلوم کا سگنج، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، لیڈن یونیورسٹی کےمخطوطات، یونیورسٹی جامع مسجد، بدایوں شریف، الجامعۃ القادریہ رچھا بہیڑی، اعظم گڑھ، مبارکپور، محمد آباد۔
اس کے بعد مولانا بدرالقادری اپنے وطن سےہالینڈکے لیے روانہ ہوگئےاس دورہ میں مولانا بدرالقادری مرکز اہلسنت بریلی شریف پہنچے اور یہاں پر جانشین مفتی اعظم علامہ اختر رضا خاں ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ اور کافی دیر تک علمی گفتگو ہوتی رہی۔
اندلس کا دورہ
دس فروری ۱۹۸۸ء کی صبح ہالینڈ کو ڈیمارک سےجناب سید ریاض الدین احمد کا ٹیلیفون آیا اور مولانا بدر القادری کو اسپین کےدارالسلطنت میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے لیے دعوت ملی۔ پنجشنبہ کو ہوائی جہاز کے لیے ٹکٹ کی بکنگ کا مرحلہ طےہوا۔ ٹکٹ رات کو موصول ہوا اور با فروری کو جمعہ کا دن تھا اور ویزا لینے کے لیے مولانا بدرالقادری تشریف لےگئے۔ محمد فیروز القادری نے سفارت خانےجاکر معلومات حاصل کیں، اور مولانا بدرالقادری کی مصروفیات بتائیں کہ نماز جمعہ اور دیگر کاموں کے باعث نہیں آسکیں گے۔ اور شنبہ کے دن کی فلائٹ سے جانا بھی ہے، سفارت خانہ کے ذمہ داروں نےہمدروانہ جواب دیا اور کہا کہ کوئی مضائقہ نہیں، اگر چہ شنبہ ویکشنبہ چھٹی کے دنہیں۔ مگر شنبہ کی صبح وہ ویزا لینے کے لیے آسکتے ہیں۔
القادری اسلامک سینٹر۔۔۔۔ میں نماز جمعہ پڑھاکر اپنے دولت کدے پر چند ملاقاتیوں سے فارغ ہونے کے بعد رات تک مولانا بدرالقادری امسٹرڈم پہنونچ گئے۔ جہاں کچھ احباب سے ملاقاتیں ہوئیں۔محمد فیروز القادری کے گھر شب میں آرام کیا۔ اور صبح کو مولانا بدرالقاری ۹بجے اسپینکے سفارت خانہ پہونچ گئے۔ نصف گھنٹہ میں ویزالے کر واپس ہوئے۔ فلائٹ کا وقت پانچ بجکر پچپن منٹ تھا۔ وقت متعینہ سے قبل ایر پورٹ پر پہونچے اور نماز عصر ایئرپورٹ پر ادا کی۔ اور وقت مقررہ اجنٹائن یوئنگ ۷۴۷ کے ذریعہ امسٹرڈم انٹرنیشل ایئر پورٹ سے روانگی ہوئی۔ مولانا بدرالقادری آٹھ دن اندلس میں رہ کر علماء وفضلاء اور ادباء سےملاقاتیں کر کےہالینڈ واپس تشریف لائے۔
شعر وشاعری
مولانا بدرالقادری میدان نثر ہو یا نظم دونوں پر یکساں قوت رکھتے ہیں۔ بدر تخلص فرماتے ہیں۔ ۲۴؍دسمبر ۱۹۷۳ء کو عارف باللہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی قدس سرہٗ کے دربار میں حاضی دی اس وقت یہ استغاثہ پیش کیا؎
سلام اے ذات والا عارف اسرار ربَّانی
عنایت بار تیری شخصیت پر فضلِ رحمانی
ترے دل پر حقائق کھل گئے عرفان اعلیٰ کے
نگاہوں میں ہوئی جب ہیچ قدر عالم فانی
حکومت کر گئے دنیا پہ جو وہ کتنے دانا تھے
مگر اللہ اکبر حاکمانِ قلب انسانی
بڑا تاباں مقدر ہے ترے درکے گداؤں کا
یہاں کے مانگنے والے کیا کرتے ہیں سلطانی
اگر چہ بدرتو لائق نہیں لیکن جو تو چاہے
بدہ جامے مزار بادۂ عرفانِ رحمانی
مولانا بدرالقادری اپنی علمی سرشت کے اعتبار سے اہلسنت وجماعت کےنقیب ہیں، ان کے دل و دماغ پر امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوانکے عشق وفکر کی جوگہری چھاپ ہے، اس کے جلوؤں کے نقوش سےمولانا بدرالقادری کا نعتیہ دیوان رنگین ہے؎
اے بریلی تجھ میں ہے وہ راز دار جام جم
فیض بان عام جس کا صورت ابرِ کرم
بک گئے کتنے شیوخ الہند کے ملّی بھرم
جس کی قیمت بن سکی دنیا نہ تھا واحد قلم
خلوقت وحید کا وہ محرم اسرار ہے
شخصیت جس کی ہدایت کیلئے مینار ہے
کیا کرے کوئی تری علمی بصیرت پر کلام
وقت کے سمناں ورازی عصرکے ابن ہمام
تو محدث، تو مفسر، رشک علمِ خاص و عام
ساقئ بزم مدینہ سے ملا ہے تجھ کو جام
تجھ پہ انعام الٰہی تجھ پہ فضل مصطفیٰ
عالم اسلام ے مانا ہے تجھ کو مقتدا
بیعت وخلافت
حضرت مولانا بدرالقادری رضوی نے ۲۳؍جمادی الآخر ۱۳۹۹ھ کو حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ سے شرف بیعت وخلافت حاصل کی۔