منبع العلم مولانا بہاء المصطفیٰ رضوی
منبع العلم مولانا بہاء المصطفیٰ رضوی (تذکرہ / سوانح)
استاذ دار العلو م منظر اسلام بریلی شریف
قصبہ گھوسی ضلع اعظم گڑھ کا محلہ کریم الدین اور بڑا گاؤں وہ مردم خیز خطہ ہے جہاں سے اپنے وقت کی نابالغۂ روزگار شخصیتیں پیدا ہوئیں جو اپنے وقت کے امام علم و فمن ہیں، اور یہ سب فیض ظاہری وباطنی ہے صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ کا جن کے دم قدم سے گھوسی مدینۃ العلماء کے نام سےجانا پہچانا جاتا ہے۔
ولادت
حضرت علامہ مولانا بہاء المصطفیٰ رضوی امجدی بن صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی اعظمی بن حکیم مولانا جمال الدین شعبان المعظم ۱۳۶۳ھ؍ ۱۹۴۳ء کو قصبہ گھوسیم حلہ کریم الدین پور ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔
تعلیم وتربیت
مولانا بہاء المصطفیٰ کی عمر جب چار پانچ سال ہوگئی تو والد ماجد صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی نے بسم اللہ خوانی ادا کرائی۔ اور قرآن پاک کی تعلیم والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔ تعلیم و تربیت کا اہتمام والدہ ماجدہ نےکیا۔ یہ والدہ ماجدہ کی دعاؤں اور تربیت کا ثمرہہے کہ آج مولانا بہاءالمصطفیٰ اس لائق ہوئےاور تمام بھائیوں کی تربیت بھی والدہ نےکی۔مولیٰ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر قائم رکھے اور ان کی دعاء سحر گاہی سے مستفیض کرے (آمین)
بعد ازاں مولانا بہاء المصطفیٰ درس نظامی کی کتابیں پڑھنےکے لیے جامعہ اشرفیہ مبارک پور تشریف لے گئے۔ برادر اکبر حضرت مولانا ضیاءالمصطفیٰ رضوی قادری شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارکپور سے مشکوٰۃ وہدایہ وغیرہ کتابیں پڑھیں اور یہیں سے ۱۹۶۴ء میں فراغت حاصل کی۔
۱۹۶۱ء میں مولوی، ۱۹۶۲ء میں عالم، ۱۹۷۴ء میں فاضل دینیات الٰہ آباد کےامتحانات پاس کیے۔
اساتذہ کرام
۱۔ حافظ ملت ملت مولانا عبدالعزیز مراد آبادی ثم مبارکپور
۲۔ حضرت مولانا مفتی شریف الحق رضوی امجدی صدر شعبۂ افتاءجامعہ اشرفیہ مبارکپور
۳۔ حضرت مولانا مفتی عبدالمنان اعظمی شیخ الحدیث شمس العلوم گھوسی اعظم گڑھ
۴۔ حضرت مولانا حافظ عبدالرؤف مبارکپوری
۵۔ حضرتمولانا مظفر حسین ظفرادیبی مبارکپوری
۶۔ حضرت مولانا قاری محمد یحییٰ اعظمی
۷۔ حضرتمولانا مولوی سعید احمد فتح پور گھوسی
درس وتدریس
اللہ تبارک وتعالیٰ نےحضرت مولانا بہاءا لمصطفیٰ کو ابتداء ہی سے ذہن رسا، تقویٰ وپرہیزگاری اور سلامتی طبع ایسے اوصاف سےنوازا تھا، دور طالب علمی میں بھی آپ کی یہ صفات نمایاں رہیں۔ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۶۶ء میں جامعہ اشرفیہ میں رہ کر تعلیم جاری رکھی اور ساتھ ہی ساتھ معین المدرسین کی حیثیت سےکام کرتے رہے۔مولانا بہاء المصطفیٰ تدریس کا آغاز تو جامعہ اشرفیہ ہی سے کر چکے تھے۔ ۱۹۶۷ء میں تدریسی سلسلہ آگے بڑھاتےہوئے ضلع بہرائچ شریف کےعلاقے لچھمن پور بازار میں پڑھانا شروع کیا۔ وہاں ایک سال قیام رہا۔ فروری ۱۹۶۸ء میں حضرت ساجد علی خاں رضوی بریلوی سابق مہتمم دارالعلوم مظہر اسلام بریلی کے ایماء پر حضرت مولانا حافظ عبدالرؤف صاحب مبارکپوری نے آپ کو دارالعلوم مظہر اسلام بریلی بھیج دیا۔ درالعلوم مظہر اسلام میں ۱۹۷۲ء تک مسلسل درس دیتے رہے، چونکہ مولانا بہاء المصطفیٰ بنیادی طور پر تبحر عالم دین، صوفی اور لائق مدرس ہیں۔
ریحان ملت مولانا محمد ریحان رضا کاں قادری بریلوی کی منشاءپر نومبر ۱۹۷۲ء سے دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں منتقل ہوگئے اور تادم تحریر اسی مرکز اہلسنت منظر اسلام میں فیض لُٹارہے ہیں۔
اخلاق وسادگی
حضرت مولانا بہاء المصطفیٰ نہایت خوش اخلاق، جید عالم دین اور متواضع شخصیت ہیں۔ تصنع اور تکبر سے انہیں کوئی واستہ نہیں ہے۔ سادگی کے پیکر مجسم ہیں۔ راقم کی پہلی ملاقات ۱۴۰۵ھ میں ہوئی جب مولانا بہاء المصطفیٰ مدرسہ الجامعۃ الاسلامیہ گنج قدیم رام پور تشریف لائے وہ جمعہکا دن تھا۔ آپ بہت معمولی سے آدمی لگ رہے تھے۔ الجامعۃ الاسلامیہ کی مسجد سُرخی والی کے خطیب اُستاذ محترم حضرت مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی تھے۔ چونکہ استاذ محترم مدظلہٗ کو مولانا بہاء المصطفیٰ سے شرف تلمذ حاصل ہے اس لیے جمعہ کی امامت آپ کےسپرد کی، خطبۂ جمعہ میں سورۂ فاتحہ کی عربی میں تفسیر کی۔ الجامعہ الاسلامیہ کے طلبہ فصیح وبلیغ خطبہ سُنکر ونگ رہ گئے بعدہٗ مزید آشنائی ہوگئی۔
بیعت وخلافت
حضور مفتی اعظم مولانامصطفیٰ رضا نوری قدس سرہٗ اکثر گھوسی اعظم گڑھ تشریف لیجاتے تھے۔ ایک بار ربیع الآخر میں تشریف لے گئے، اسی موقع پر ۸؍ربیع الآخر ۱۷؍جنوری ۱۳۷۰ھ ۱۹۵۱ء میں مولانا بہاء المصطفیٰ کو داخل سلسلہ فرمایا۔
مولانا بہا ء المصطفیٰ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے ربیع النور ۱۳۸۹ھ؍ ۱۹۶۹ء میں اپنے در اقدس پر سلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی اجازت وخلافت سے نوازا۔ ۱۹۶۷ء کو واپسی بہرائچ شریف پر اور ادو وظائف کی اجازت مرحمت فرمائی۔
عقد مسنون
حضرت مولانا بہاءالمصطفیٰ کا عقد شریف جمادی الاولیٰ ۱۳۸۲ھ؍ ۱۹۶۲ء کو خال مکرم فیض العارفین مولانا غلام آسی پیا حسنی رضوی ابو العلائی کی دختر نیک اختر سےبھینسوڑی شریف قصبہ ملک ضلع رام پور شریف میں ہوا۔ بفضلہ تعالیٰ فی الحال تین لڑکے، تین لڑکیاں ہیں۔ جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ محمد ابو العلیٰ
۲۔ محمد شمس العلیٰ
۳۔ محمد نور العلیٰ
۴۔ اُم العلیٰ عرف فرحت زیبا
۶۔ اُم الہدیٰ عرف نکہت زیبا [1]
[1] ۔ مکوب گرامی علامہ مولانا بہاء المصطفیٰ امجدی بنام راقم محررہ ۲۵؍شعبان المعظم ۱۴۱۰ھ؍ ۱۹۹۰ء ۱۲رضوی غفرلہٗ