مولانا برہان الدین رحمتہ اللہ علیہ
مولانا برہان الدین رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
علم و عشق جہانِ صدق زہدو ورع تقوی و طہارت میں معروف، کثرت گریہ کے ساتھ اعلیٰ یاروں میں موصوف و مشہور مولانا برہان الملۃ والدین غریب رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ایک عزیز کہتا ہے۔
غریب ست این بحب حق بدنیا
حبیب اللہ فی الدنیا غریب
(یہ محبّ حق دنیا میں غریب ہے اور حبیب دنیا میں غریب ہوا کرتا ہے۔)
محبت و اعتقاد جو مولانا برہان الدین غریب
رحمۃ اللہ علیہ سلطان المشائخ سے رکھتے تھے
کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ جو اعتقاد و محبت مولانا برہان الدین کو سلطان المشائخ سے تھا۔ عجب اعتقاد تھا کہ مرتے دم تک اپنی پشت مبارک غیاث پور کی طرف کبھی نہیں کی۔ یہ ایک ایسی بات تھی جو بڑے بڑے عزیزوں میں سے کسی کو میسر نہیں ہوئی۔ آپ اعتقاد و محبت کی فہرست میں تمام یاروں سے ممتاز اور سب کے مقتدا مانے جاتے تھے اور بہت سے اعلیٰ درجہ کے یاروں سے ارادت میں سابق تھے۔ محبت و عشق کے گھائلوں اور زخمیوں کے لیے زود اثر مرہم تھے اور عاشقوں کی درد کی عمدہ دوا۔ خوش طبعان وقت جیسے امیر خسرو۔ میر حسن اور مثل ان کے دیگر عزیز آپ کی لطافت طبع اور عشق کی وجہ سے آپ کے اسیر محبت تھے اور بیشتر اوقات آپ کی صحبت میں رہا کرتے تھے چنانچہ جس زمانہ میں شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ شہر میں طلبا کو پڑھاتے تھے آپ ہی کے پاس رہا کرتے تھے اور کبھی کبھی آپ کی امامت بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ سلطان المشائخ نے مولانا محمود رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ تم کہاں رہتے ہو۔ شیخ محمود نے عرض کیا کہ شہر میں مولانا برہان الدین غریب کے گھر میں اس پر سلطان المشائخ نے فرمایا۔
مرد سرّہ باش ہر کجا خواہی باش
مولانا برہان الدین کو سماع میں پلے درجہ کا غلو تھا اور ذوق بہت رکھتے تھے اور آپ کے ساتھ آپ کے یاروں کے رقص میں ایک جدا گانہ طرز تھی۔ چنانچہ آپ کے یاروں کو اور لوگ برہانی کہ کر پکارا کرتے تھے۔ آپ کی تاثیر دلی کا یہ حال تھا کہ جو شخص ایک ساعت آپ کے پاس بیٹھتا آپ کے عشق آمیز کلام کے ذوق اور محاورہ دلفریب کی صفائی سے آپ کی جمال ولایت پر عاشق ہوجاتا اعتقاد و محبت میں بندگان خدا کے لیے آپ سے بہتر رہنما پیر کوئی نہ تھا۔ کاتب حروف نے بہت دفعہ اس بزرگ کی سعادت قدمبوسی حاصل کی ہے اور اس کے عشق انگیز کلمات کا اسیر ہوا ہے۔
سلطان المشائخ کا مولانا برہان الدین سے ناراض ہونا اور
پھر آپ سے راضی و خوشنود ہوکر آپ کو خلافت عطا کرنا
کاتب حروف عرض کرتا ہے چونکہ مولانا برہان الدین کی عمر ستر سال ہے تجاوز کر گئی تھی اور کبر سنی کے علاوہ آپ اپنی خلقت و بناوٹ میں نہایت ہی ضعیف و کمزور واقع ہوئے تھے پھر سب سے قطع نظر کر کے پیر کی محبت میں بالکل سوختہ ہوگئے تھے امیر خسرو کیا خوب فرماتے ہیں۔
خسرو اگرچہ سوختہ است نے زپئے دیگران
سوختہ تر باد ازین گر زبرائے تو نیست
(خسروا گر نے دوسرے کے لیے جلی ہے تو اس سے زیادہ جل جائے کیونکہ وہ تیرے لیے نہیں ہے۔)
لہذا مولانا غایت ضعف سے اپنی کملی کی دوتہ کر کے اس پر گھر میں بیٹھ جاتے تھے یہ بات دیکھ کر علی زنبیلی اور ملک نصرت نے جو سلطان علاؤ الدین کے مقرب اور حضرت سلطان المشائخ کے مرید تھے اور محلوق بھی ہوگئے تھے خدمت میں سلطان المشائخ کے لگایا کہ مولانا برہان الدین غریب سجادہ شیخی پر بیٹھ کر اس طریقہ کی ہر گز رعایت نہیں کرتے جو مشائخ کا ہے بلکہ اپنے تئیں افضل و بزرگ سمجھتے ہیں۔ سلطان المشائخ یہ بات سن کر سخت رنجیدہ ہوئے اور جب مولانا برہان الدین رحمۃ اللہ سلطان المشائخ کی زیارت و ملاقات کے لیے ئے تو سلطان المشائخ نے ان سے کوئی بات نہیں کی۔ مولانا بائبوسی کے بعد سلطان المشائخ کی خدمت سے جماعت خانہ میں آبیٹھے اس وقت اقبال خادم آیا اور سلطان المشائخ کا یہ فرمان پہنچایا کہ تم فوراً لوٹ جاؤ اور اپنے گھر چلے جاؤ۔ مولانا سخت متحیر ہوئے کہ یہ کیا حادثہ زا اور جانگزا واقعہ ہے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں۔
تاچہ گردیم دگر بار کہ شیریں لب دوست
بسخن باز نمے باشد و چشم از نازش
(ایسا مجھ سے دوبارہ کیا قصہ ہوا کہ دوست منہ سے نہیں بولتا اور اس کی آنکھیں خدنگ ناز کا نشانہ نہیں بناتیں۔)
مولانا مجبوراً وہاں سے باہر نکلے اور مولانا ابراہیم کے گھر میں آئے جو سلطان المشائخ کے طشت دار اور مولانا برہان الدین غریب کے دوست اور مخلص مہربان تھے۔ یہ مولانا ابراہیم غیاث پور میں رہتے تھے۔ مولانا برہان الدین یہیں آکر ٹھہرے۔ جب آپ کو یہاں قیام کیے ہوئے دو روز ہوگئے تو مولانا ابراہیم نے سوچا کہ مبادا سلطان المشائخ کو خبر ہوجائے کہ مولانا برہان الدین میرے مکان میں قیام پذیر ہیں اور محل عتاب میں آؤں چنانچہ انہوں نے مولانا پر یہ خیال ظاہر کیا۔ آپ وہاں سے نکل کر شہر میں گئے اور نہایت سراسیمہ اور پریشان خاطر اپنے گھر میں آکر اس تعزیت میں بیٹھے کہ سلطان المشائخ کو ان کی طرف سے رنج و صدمہ پہنچا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ خبر شہر کے تمام یاروں میں پھیل گئی۔ عزیزانِ شہر آپ کی ملاقات کو آتے تھے اور آپ کو روتا دیکھ کر خود زار قطار رونے لگتے تھے۔ چند روز کے بعد امیر خسرو علیہ الرحمۃ جو مولانا برہان الدین کے قدیم دوست تھے حضرت سلطان المشائخ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں گئے اور نہایت بہتر طریقے سے باب شفاعت کھولا اور عرض کیا حضور! مولانا برہان الدین آپ کا مرید صادق بندۂ معتقد ہے۔ اب وہ اس درجہ ضعیف و کمزور ہوگئے ہیں کہ بورئیے پر بیٹھ نہیں سکتے۔ ان کے دونوں زانوؤں میں سخت درد رہتا ہے اور اس زحمت کے دفع کرنے کے لیے ناچار اپنی کملی کو دوتہ کر کے نیچے ڈال لیتے ہیں۔ امیر خسرو ہر چند کہ اس جیسی باتیں عرض کرتے تھے لیکن سلطان المشائخ رغبت کے کانوں سے نہ سنتے تھے اور قبول نہ فرماتے تھے۔ آخر کار امیر خسرو نے دوسرے یاروں سے اس بارے میں مشورہ کیا اور سب نے متفق ہوکر یہ قرار ٹھہرایا کہ امیر خسرو دستار گردن میں ڈال کر سلطان المشائخ کی خدمت میں جائیں اور مولانا کی معافی کی التماس کریں۔ چنانچہ امیر خسرو نے ایسا ہی کیا۔ دستار اپنی گردن میں ڈالی اور سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مؤدب کھڑے رہے۔ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ ترک کیا چاہتے ہو۔ عرض کیا۔ مولانا برہان الدین کے عفو جرائم کی التماس حضرت مخدوم سے چاہتا ہوں۔ سلطان المشائخ نے مسکرا کر فرمایا کہ وہ کہاں ہیں اچھا انہیں بلاؤ فوراً آدمی گیا اور مولانا برہان الدین گھر سے تشریف لائے۔ جب یہاں پہنچے تو مولانا اور امیر خسرو دونوں حضرات نے اپنی اپنی دستاریں گردنوں میں ڈالیں اور سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سر زمین پر رکھا اور صف فعال میں کھڑے ہوگئے۔ سلطان المشائخ نے اپنی خوشنودی و رضا مندی ظاہر کی اور مولانا دو بارہ تجدید بیعت سے مشرف ہوے والحمد للہ علے ذالک کاتب حروف خود عرض کرتا ہے کہ جب بعض اعلی یاروں کو سلطان المشائخ کے با عظمت دربار خلافت کی اجازت ہوئی تو سید السادات سید خاموش عم کاتب حروف اور خواجہ سلطان المشائخ کے قدیم خدمت گار تھے اور اپنے فرزندوں کی طرح ان کے ہاں پرورش پائی تھی۔ سید السادات سید حسین کی خدمت میں عرض کیا کہ مولانا برہان الدین سابق مریدوں میں ایک پاک اعتقاد و راسخ قسم مرید ہیں اور اعتقاد و محبت میں سب یاروں سے ممتاز ہیں یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ ان کی خلافت کے لیے حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں التماس کی جائے۔ سید حسین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں اقبال سے کہوں گا تاکہ موقع و محل دیکھ کر مولانا کی یہ گذارش سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کریں چنانچہ اس کے کچھ دنوں بعد سید خاموش اور خواجہ مبشر نے خواجہ اقبال کے کان میں یہ بات ڈال دی۔ چونکہ خواجہ اقبال کو سادات سے انتہا درجہ کی محبت تھی اور ہمیشہ ان کی حمایت و مدد میں لگے رہتے تھے یہ بات فوراً قبول کر لی اور مولانا برہان الدین سے فرمایا کہ تم مستعد و تیار ہوکر آؤ تاکہ تمہیں سلطان المشائخ کی خدمت میں پیش کروں جب مولانا آئے تو اقبال آپ کو اپنے ساتھ اندر لے گئے اور سید خاموش بھی اس وقت ان کے ساتھ تھے۔ سلطان المشائخ چوب خانہ کے حجرہ میں جو جماعت خانہ کے کوٹھے پر تھا لیٹے ہوئے تھے لحاف اوپر پڑا ہوا تھا مگر چہرہ مبارک کھلا ہوا تھا۔ جب یہ سب حضرت اندر پہنچے تو خواجہ اقبال نے سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ مولانا برہان الدین غریب مخدوم کا بندۂ قدیم پائے بوسی کی اجازت چاہتا ہے اور بخشش و رحمت کی امید رکھتا ہے۔ سلطان المشائخ آنکھ کھول کر اقبال کی طرف دیکھنے لگے۔ مولانا فوراً زمین پر گر پڑے اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا۔ بعدہ خواجہ اقبال حضرت سلطان المشائخ کی نظر مبارک کے سامنے کپروں کا بقچہ خاص لائے اور کھول کر ایک پیراہن، ایک کلاہ، جنہوں نے سلطان المشائخ کی صحبت پائی تھی نکال لی اور سلطان المشائخ کے آگے لا رکھی آپ نے اپنا دست مبارک پیرا ہن اور کلاہ سے چھوادیا۔ اس کے بعد خواجہ اقبال نے سلطان المشائخ کے رو برو وہ کپڑے مولانا برہان الدین کو پہنادیے اور کہا تم بھی سلطان المشائخ کے خلیفہ ہو۔ اس وقت سلطان المشائخ یہ سب باتیں دیکھ رہے تھے سن رہے تھے پر ساکت و خاموش تھے اور سکوت رضا مندی کی دلیل ہوتی ہے۔ سلطان المشائخ کے انتقال کے بعد مولانا برہان الدین چند سال زندہ رہے اور خلق خدا کی بیعت لیتے رہے۔ جب دیوگیر میں تشریف لے گئے تو سفر آخرت قبول کیا اور وہیں مدفون ہوئے۔ آج آپ کا روضۂ مبارک ان شہروں کی خلق کا قبلۂ حاجات ہے۔