مولانا برہان الدین رحمۃ اللہ علیہ
مولانا برہان الدین رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
علم و عشق جہانِ صدق زہدو ورع تقوی و طہارت میں معروف، کثرت گریہ کے ساتھ اعلیٰ یاروں میں موصوف و مشہور مولانا برہان الملۃ والدین غریب رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ایک عزیز کہتا ہے۔
غریب ست این بحب حق بدنیا
حبیب اللہ فی الدنیا غریب
(یہ محبّ حق دنیا میں غریب ہے اور حبیب دنیا میں غریب ہوا کرتا ہے۔)
محبت و اعتقاد جو مولانا برہان الدین غریب
رحمۃ اللہ علیہ سلطان المشائخ سے رکھتے تھے
کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ جو اعتقاد و محبت مولانا برہان الدین کو سلطان المشائخ سے تھا۔ عجب اعتقاد تھا کہ مرتے دم تک اپنی پشت مبارک غیاث پور کی طرف کبھی نہیں کی۔ یہ ایک ایسی بات تھی جو بڑے بڑے عزیزوں میں سے کسی کو میسر نہیں ہوئی۔ آپ اعتقاد و محبت کی فہرست میں تمام یاروں سے ممتاز اور سب کے مقتدا مانے جاتے تھے اور بہت سے اعلیٰ درجہ کے یاروں سے ارادت میں سابق تھے۔ محبت و عشق کے گھائلوں اور زخمیوں کے لیے زود اثر مرہم تھے اور عاشقوں کی درد کی عمدہ دوا۔ خوش طبعان وقت جیسے امیر خسرو۔ میر حسن اور مثل ان کے دیگر عزیز آپ کی لطافت طبع اور عشق کی وجہ سے آپ کے اسیر محبت تھے اور بیشتر اوقات آپ کی صحبت میں رہا کرتے تھے چنانچہ جس زمانہ میں شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ شہر میں طلبا کو پڑھاتے تھے آپ ہی کے پاس رہا کرتے تھے اور کبھی کبھی آپ کی امامت بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ سلطان المشائخ نے مولانا محمود رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ تم کہاں رہتے ہو۔ شیخ محمود نے عرض کیا کہ شہر میں مولانا برہان الدین غریب کے گھر میں اس پر سلطان المشائخ نے فرمایا۔
مرد سرّہ باش ہر کجا خواہی باش
مولانا برہان الدین کو سماع میں پلے درجہ کا غلو تھا اور ذوق بہت رکھتے تھے اور آپ کے ساتھ آپ کے یاروں کے رقص میں ایک جدا گانہ طرز تھی۔ چنانچہ آپ کے یاروں کو اور لوگ برہانی کہ کر پکارا کرتے تھے۔ آپ کی تاثیر دلی کا یہ حال تھا کہ جو شخص ایک ساعت آپ کے پاس بیٹھتا آپ کے عشق آمیز کلام کے ذوق اور محاورہ دلفریب کی صفائی سے آپ کی جمال ولایت پر عاشق ہوجاتا اعتقاد و محبت میں بندگان خدا کے لیے آپ سے بہتر رہنما پیر کوئی نہ تھا۔ کاتب حروف نے بہت دفعہ اس بزرگ کی سعادت قدمبوسی حاصل کی ہے اور اس کے عشق انگیز کلمات کا اسیر ہوا ہے۔
سلطان المشائخ کا مولانا برہان الدین سے ناراض ہونا اور
پھر آپ سے راضی و خوشنود ہوکر آپ کو خلافت عطا کرنا
کاتب حروف عرض کرتا ہے چونکہ مولانا برہان الدین کی عمر ستر سال ہے تجاوز کر گئی تھی اور کبر سنی کے علاوہ آپ اپنی خلقت و بناوٹ میں نہایت ہی ضعیف و کمزور واقع ہوئے تھے پھر سب سے قطع نظر کر کے پیر کی محبت میں بالکل سوختہ ہوگئے تھے امیر خسرو کیا خوب فرماتے ہیں۔
خسرو اگرچہ سوختہ است نے زپئے دیگران
سوختہ تر باد ازین گر زبرائے تو نیست
(خسروا گر نے دوسرے کے لیے جلی ہے تو اس سے زیادہ جل جائے کیونکہ وہ تیرے لیے نہیں ہے۔)
لہذا مولانا غایت ضعف سے اپنی کملی کی دوتہ کر کے اس پر گھر میں بیٹھ جاتے تھے یہ بات دیکھ کر علی زنبیلی اور ملک نصرت نے جو سلطان علاؤ الدین کے مقرب اور حضرت سلطان المشائخ کے مرید تھے اور محلوق بھی ہوگئے تھے خدمت میں سلطان المشائخ کے لگایا کہ مولانا برہان الدین غریب سجادہ شیخی پر بیٹھ کر اس طریقہ کی ہر گز رعایت نہیں کرتے جو مشائخ کا ہے بلکہ اپنے تئیں افضل و بزرگ سمجھتے ہیں۔ سلطان المشائخ یہ بات سن کر سخت رنجیدہ ہوئے اور جب مولانا برہان الدین رحمۃ اللہ سلطان المشائخ کی زیارت و ملاقات کے لیے ئے تو سلطان المشائخ نے ان سے کوئی بات نہیں کی۔ مولانا بائبوسی کے بعد سلطان المشائخ کی خدمت سے جماعت خانہ میں آبیٹھے اس وقت اقبال خادم آیا اور سلطان المشائخ کا یہ فرمان پہنچایا کہ تم فوراً لوٹ جاؤ اور اپنے گھر چلے جاؤ۔ مولانا سخت متحیر ہوئے کہ یہ کیا حادثہ زا اور جانگزا واقعہ ہے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں۔
تاچہ گردیم دگر بار کہ شیریں لب دوست
بسخن باز نمے باشد و چشم از نازش
(ایسا مجھ سے دوبارہ کیا قصہ ہوا کہ دوست منہ سے نہیں بولتا اور اس کی آنکھیں خدنگ ناز کا نشانہ نہیں بناتیں۔)
مولانا مجبوراً وہاں سے باہر نکلے اور مولانا ابراہیم کے گھر میں آئے جو سلطان المشائخ کے طشت دار اور مولانا برہان الدین غریب کے دوست اور مخلص مہربان تھے۔ یہ مولانا ابراہیم غیاث پور میں رہتے تھے۔ مولانا برہان الدین یہیں آکر ٹھہرے۔ جب آپ کو یہاں قیام کیے ہوئے دو روز ہوگئے تو مولانا ابراہیم نے سوچا کہ مبادا سلطان المشائخ کو خبر ہوجائے کہ مولانا برہان الدین میرے مکان میں قیام پذیر ہیں اور محل عتاب میں آؤں چنانچہ انہوں نے مولانا پر یہ خیال ظاہر کیا۔ آپ وہاں سے نکل کر شہر میں گئے اور نہایت سراسیمہ اور پریشان خاطر اپنے گھر میں آکر اس تعزیت میں بیٹھے کہ سلطان المشائخ کو ان کی طرف سے رنج و صدمہ پہنچا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ خبر شہر کے تمام یاروں میں پھیل گئی۔ عزیزانِ شہر آپ کی ملاقات کو آتے تھے اور آپ کو روتا دیکھ کر خود زار قطار رونے لگتے تھے۔ چند روز کے بعد امیر خسرو علیہ الرحمۃ جو مولانا برہان الدین کے قدیم دوست تھے حضرت سلطان المشائخ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں گئے اور نہایت بہتر طریقے سے باب شفاعت کھولا اور عرض کیا حضور! مولانا برہان الدین آپ کا مرید صادق بندۂ معتقد ہے۔ اب وہ اس درجہ ضعیف و کمزور ہوگئے ہیں کہ بورئیے پر بیٹھ نہیں سکتے۔ ان کے دونوں زانوؤں میں سخت درد رہتا ہے اور اس زحمت کے دفع کرنے کے لیے ناچار اپنی کملی کو دوتہ کر کے نیچے ڈال لیتے ہیں۔ امیر خسرو ہر چند کہ اس جیسی باتیں عرض کرتے تھے لیکن سلطان المشائخ رغبت کے کانوں سے نہ سنتے تھے اور قبول نہ فرماتے تھے۔ آخر کار امیر خسرو نے دوسرے یاروں سے اس بارے میں مشورہ کیا اور سب نے متفق ہوکر یہ قرار ٹھہرایا کہ امیر خسرو دستار گردن میں ڈال کر سلطان المشائخ کی خدمت میں جائیں اور مولانا کی معافی کی التماس کریں۔ چنانچہ امیر خسرو نے ایسا ہی کیا۔ دستار اپنی گردن میں ڈالی اور سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مؤدب کھڑے رہے۔ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ ترک کیا چاہتے ہو۔ عرض کیا۔ مولانا برہان الدین کے عفو جرائم کی التماس حضرت مخدوم سے چاہتا ہوں۔ سلطان المشائخ نے مسکرا کر فرمایا کہ وہ کہاں ہیں اچھا انہیں بلاؤ فوراً آدمی گیا اور مولانا برہان الدین گھر سے تشریف لائے۔ جب یہاں پہنچے تو مولانا اور امیر خسرو دونوں حضرات نے اپنی اپنی دستاریں گردنوں میں ڈالیں اور سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سر زمین پر رکھا اور صف فعال میں کھڑے ہوگئے۔ سلطان المشائخ نے اپنی خوشنودی و رضا مندی ظاہر کی اور مولانا دو بارہ تجدید بیعت سے مشرف ہوے والحمد للہ علے ذالک کاتب حروف خود عرض کرتا ہے کہ جب بعض اعلی یاروں کو سلطان المشائخ کے با عظمت دربار خلافت کی اجازت ہوئی تو سید السادات سید خاموش عم کاتب حروف اور خواجہ سلطان المشائخ کے قدیم خدمت گار تھے اور اپنے فرزندوں کی طرح ان کے ہاں پرورش پائی تھی۔ سید السادات سید حسین کی خدمت میں عرض کیا کہ مولانا برہان الدین سابق مریدوں میں ایک پاک اعتقاد و راسخ قسم مرید ہیں اور اعتقاد و محبت میں سب یاروں سے ممتاز ہیں یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ ان کی خلافت کے لیے حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں التماس کی جائے۔ سید حسین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں اقبال سے کہوں گا تاکہ موقع و محل دیکھ کر مولانا کی یہ گذارش سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کریں چنانچہ اس کے کچھ دنوں بعد سید خاموش اور خواجہ مبشر نے خواجہ اقبال کے کان میں یہ بات ڈال دی۔ چونکہ خواجہ اقبال کو سادات سے انتہا درجہ کی محبت تھی اور ہمیشہ ان کی حمایت و مدد میں لگے رہتے تھے یہ بات فوراً قبول کر لی اور مولانا برہان الدین سے فرمایا کہ تم مستعد و تیار ہوکر آؤ تاکہ تمہیں سلطان المشائخ کی خدمت میں پیش کروں جب مولانا آئے تو اقبال آپ کو اپنے ساتھ اندر لے گئے اور سید خاموش بھی اس وقت ان کے ساتھ تھے۔ سلطان المشائخ چوب خانہ کے حجرہ میں جو جماعت خانہ کے کوٹھے پر تھا لیٹے ہوئے تھے لحاف اوپر پڑا ہوا تھا مگر چہرہ مبارک کھلا ہوا تھا۔ جب یہ سب حضرت اندر پہنچے تو خواجہ اقبال نے سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ مولانا برہان الدین غریب مخدوم کا بندۂ قدیم پائے بوسی کی اجازت چاہتا ہے اور بخشش و رحمت کی امید رکھتا ہے۔ سلطان المشائخ آنکھ کھول کر اقبال کی طرف دیکھنے لگے۔ مولانا فوراً زمین پر گر پڑے اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا۔ بعدہ خواجہ اقبال حضرت سلطان المشائخ کی نظر مبارک کے سامنے کپروں کا بقچہ خاص لائے اور کھول کر ایک پیراہن، ایک کلاہ، جنہوں نے سلطان المشائخ کی صحبت پائی تھی نکال لی اور سلطان المشائخ کے آگے لا رکھی آپ نے اپنا دست مبارک پیرا ہن اور کلاہ سے چھوادیا۔ اس کے بعد خواجہ اقبال نے سلطان المشائخ کے رو برو وہ کپڑے مولانا برہان الدین کو پہنادیے اور کہا تم بھی سلطان المشائخ کے خلیفہ ہو۔ اس وقت سلطان المشائخ یہ سب باتیں دیکھ رہے تھے سن رہے تھے پر ساکت و خاموش تھے اور سکوت رضا مندی کی دلیل ہوتی ہے۔ سلطان المشائخ کے انتقال کے بعد مولانا برہان الدین چند سال زندہ رہے اور خلق خدا کی بیعت لیتے رہے۔ جب دیوگیر میں تشریف لے گئے تو سفر آخرت قبول کیا اور وہیں مدفون ہوئے۔ آج آپ کا روضۂ مبارک ان شہروں کی خلق کا قبلۂ حاجات ہے۔
مولانا وجیہہ الدین یوسف رحمۃ اللہ علیہ
صورتِ صفا، سیرت وفا، سابقین کی شمع، صادقوں کی صبح صاحب یقین، مقتدائے دین، مولانا وجیہہ الملۃ والدین یوسف کلا کہری عرف چندیری سلطان المشائخ کے سابقین خلفاء میں ایک نہایت بلند مرتبہ خلیفہ اور اپنے زمانہ کے عابد و زاہد اور کمال درجہ عاشق تھے۔ آپ میں درد و ذوق بہت تھا اور سلطان المشائخ کی خدمت میں بیحد اعتقاد و محبت رکھتے تھے اور ایک پیر عزیز تھے۔ مکارم اخلاق میں بے نظیر ایک مقتدر بادشاہ تھے سلوک و لایت میں عدیم المثال۔ آپ کے مناقب و کرامات اس کثرت سے ہیں کہ قلم انہیں ضبط تحریر میں لانے سے محض عاجز و قاصر ہے۔ مولانا برہان الدین غریب رحمۃ اللہ علیہ مولانا یوسف ہی کے ذریعہ سے سلطان المشائخ کی خدمت میں پہنچے ہیں جس طرح مولانا یوسف مولانا عمر کلا کہری کے وسیلہ سے خدمت اقدس میں پہنچے۔ کاتب حروف کرتا ہے کہ چونکہ مولانا یوسف ارادت و اجازت کی رو سے تمام اعلی درجہ کے یاروں میں سابق و مقدم ہیں۔ اس لیے مناسب یوں تھا کہ آپ کا ذکر ان سے پہلے ہوتا لیکن جبکہ سابق الذکر حضرات کے حقوق صحبت و تربیت کاتب حروف پر بکثرت تھے۔ اس لحاظ و رعایت سے ان کا ذکر مقدم کیا گیا۔
جناب سلطان المشائخ کے ساتھ مولانا وجیہہ الدین یوسف
کی محبت و عشق اور کمال اعتقاد
منقول ہے کہ ایک دفعہ مولانا وجیہہ الدین یوسف سلطان المشائخ کی آرزوئے قدمبوسی میں باہر نکلے اس زمانہ میں آپ سرائے دہاری میں سکونت پذیر تھے یہاں سے غیاث پور چھ یا سات میل کے فاصلہ پر واقع تھا۔ مولانا یوسف نے سرائے سے نکل کر چند قدم باہر رکھے تھے کہ آپ کے دل مبارک میں خطرہ گذرا کہ اے یوسف تو سلطان المشائخ کی خدمت میں پاؤں کے بل چلتا ہے۔ شیخ کی راہ میں سر کے بل چلنا چاہیے۔ مصرع
ما قدم از سرکنیم در طلب دوستان
یعنی ہمیں دوستوں کی طلب میں پاؤں کو سر بنانا چاہیے۔ جونہی آپ کے دل میں یہ خطرہ گذرا وہیں سلطان المشائخ کی در دولت کی جانب سر کے بل چلنا شروع کیا تین چارقدم چلے تھے کہ آپ نے اپنے تئیں سلطان المشائخ کی خانقاہ کے نیچے دیکھا۔ یہ بھی منقول ہےکہ ایک دفعہ مولانا یوسف موضع کلاکہری سے سلطان المشائخ کی پائبوسی کے اشتیاق میں روانہ ہوئے اثنائے راہ میں آپ کے دل مبارک میں آیا کہ کیا اچھا ہوتا کہ میں یہاں سے اڑ کر سلطان المشائخ کی قدمبوسی میں پہنچتا۔ ہنوز آپ کے دل مبارک میں یہ خطرہ گذرا ہی تھا کہ حق تعالیٰ نے آپ کے اعتقاد صاد اور اشتیاق غالب کی برکت سے اڑنے کی قوت عنایت فرمائی اور آپ فوراً سلطان المشائخ کے در دولت کی جانب روانہ ہوئے۔ شیخ سعدی کیا خوب فرماتے ہیں۔
گر سر فدائے نمے کنم از پیش اہل دل
سر بر نمے کنم کی مقام خجالت است
(اگر میں اہل دل کے سامنے سر فدا نہ کروں تو میں سر اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا کہ مقام خجالت ہے۔)
اسی اثناء میں خدا وندی عنایت سے آپ کے دل مبارک میں گزرا کہ سلطان المشائخ کی بارگاہ میں سر کے بل چلنا چاہیے کیونکہ ایسے عظیم الشان بارگاہ میں پاؤں کے بل چلنا ہر گز سزاوار نہیں۔ جب اس خطرہ نے نہایت استحکامی کے ساتھ آپ کے دل پر نقش کر دیے تو مولانا یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے سر کے بل چلنا شروع کیا اور اس وقت آپ پر وہ حالت طاری ہوئی کہ بالکل بے خود ہوگئے اور اپنے آپ تک کی خبر نہ رہی۔ جب ہوش میں آئے تو سر مبارک گرد آلو دیکھا اور پگڑی سر سے جدا ہوکر گردن میں لپٹی ہوئی پائی پھر جو آنکھ اٹھا کر دیکھا تو اپنے تئیں آب ستارے کے کنارے پایا اس وقت آپ نے وہاں وضو کیا اور سر پر پگڑی باندھی اور سلطان المشائخ کی خدمت میں آپ کے خطیرہ میں داخل ہوئے اور سعادت قدمبوسی سے مشرف ہوئے۔ چونکہ سلطان المشائخ مکاشف عالم تھے اور آپ پر تمام راز سربستہ عیاں تھے لہذا آپ کو اس عشق کا حال سر تا پا معلوم تھا۔ چنانچہ آپ نے مولانا یوسف کے سامنے ذیل کی حکایت بیان کرنا شروع کردی کہ قنوج میں ایک راجا تھا جس کے لیے پینے کا پانی حوض بدہ کیار سے جو موضع کیتھل میں ہے روز مرہ تازہ لایا جاتا تھا اس کے ہاں ایک اونٹنی تھی جسے سانڈنی کہتے ہیں اور جو تیز رفتاری میں ہوا سے سبقت لے جاتی تھی لوگ اس پر پانی کی پکہال لاد دیا کرتے تھے ان ہی دنوں کا ذکر ہے کہ کیتھل میں ایک شخص تھا جو قنوج کی ایک عورت سے کمال تعشق رکھتا تھا اور اس کی آتش فراق میں شب و روز جلتا تھا۔ اسے کوئی ایسا شخص دستیاب نہ ہوتا تھا کہ اپنا پیام اس عورت تک پہنچا سکتا۔ یہاں تک کہ اس غریب عاشق نے ایک دن اس شخص سے اپنے عشق کی واضح طور پر تشریح کی جو بدہ کیار سے راجہ کےلیے پانی لے جاتا تھا اور اپنا درد فراق بیان کرتا ہوا اس کے ساتھ ساتھ روانہ ہوا۔ یہ شخص اپنے عشق اور جگر سوز رنج و غم کی داستان بیان کرنے میں اس درجہ مشغول تھا کہ بیخودانہ حالت میں بالکل معلوم نہ ہوا کہ سانڈنی سوار کے ساتھ کس طرح رستہ طے کر رہا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب وہ اپنے درد عشق کی داستان بیان کرتے کرتے قنوج کے قلعہ کے نزدیک پہنچ گیا تو اب وہاں سے لوٹنے کا ارادہ کیا۔ جو شخص راجہ کےلیے پانی لا رہا تھا جب اس نے اسے لوٹتے دیکھا تو کہا اے شخص اب تو قنوج میں پہنچ گیا ہے دیکھ وہ سامنے قنوج کا قلعہ نظر آتا ہے۔ اب کہاں جاتا ہے خود ہی اپنی معشوقہ کو پیام دیدے۔ غریب عاشق جو ابھی داستانِ عشق کے اظہار میں محو تھا ہوش میں آیا اور ایک آہ سر کھینچ کر کہا کہ افسوس تو نے مجھے مار ڈالا یہ کہہ کر سر سے پاؤں تک تھر تھر کانپنے لگا اور فوراً زمین پر گر پڑا۔ قریب ہی ایک بت خانہ تھا اس نے بہزار حیلہ اپنے تئیں بت خانہ کے دروازے پر لا ڈالا۔ دیکھتا ہے کہ بت خانہ کے دروازہ پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا کہ اگر کوئی شخص اس قدر دور دراز مسافت قطع کرے کہ بشری طاقت سے خارج ہوا اور اسے تلف ہونے کا خوف ہو تو کیا کرے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے تلوؤں کو تیل سے چرب کر کے آگ سے تاپے بعدہ کسی دیوار کے سہارے سے پاؤں اونچے کرکے لیٹ جائے رستہ کی تھکان دور اور زحمت جاتی رہے گی۔ جونہی یہ علاج اس کی نظر پڑا فوراً تیل کی تلاش میں مشغول ہوا دیکھتا کیا ہے کہ ایک بت کے پاس چراغ تیل سے بھرا ہوا روشن ہے اس نے جھٹ اس تیل سے اپنے تلوے چرب کیے اور چراغ کی لو سے تلوؤں کو خوب سینکا پھر ایک دیوار پر پاؤں رکھ کر لیٹ گیا اسی اثناء میں اسے نیند آگئی تھوڑی دیر گذری تھی کہ ساری تھکان جاتی رہی اور اب نہایت چاق و توانا ہوگیا۔ غرضیکہ عشق کے نتائج بے شمار اور فوائد انن گنت ہیں عاشق کو چاہیے کہ عشق میں صادق ہوتا کہ اس کا پھل میسر ہو۔
مولانا وجیہہ الدین یوسف کا سلطان المشائخ کے جلیل القدر
دربار سے نیک انفاس اور طرح طرح کی نعمتیں پانا
منقول ہے کہ ایک دن سلطان المشائخ نہایت خوش وقت اور مسرور و شاداں تھے کہ اسی اثناء میں مولانا یوسف آئے اور شرف قدم بوسی حاصل کی سلطان المشائخ نے اقبال خادم سے فرمایا کہ کہ فلاں کا سئہ چوبین میوہ سے بھر کر لے آؤ۔ اقبول نے حضور کے ارشاد کی فوراً تعمیل کی سلطان المشائخ نے اس کاسئہ چوبین کو دست مبارک میں لے کر فرمایا کہ مولانا یوسف تیس سال سے یہ پیالہ میرے پاس ہے۔ آج میں تمہیں ارزانی کرتا ہوں یوسف فوراً دامن پھیلا کر آگے بڑھے۔ سلطان المشائخ رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا کے دامن میں پیالہ الٹ دیا اور فرمایا حق تعالیٰ تمہیں روٹی اور ایمان و امان فرمائے۔ آخر عمر میں مولانا یوسف رحمۃ اللہ علیہ بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ جس روز سے سلطان المشائخ نے مجھے یہ دولت عنایت فرمائی ہے مجھے رزق و نعمت کی کوئی کمی نہیں رہی اور حق تعالیٰ مجھے ہمیشہ اپنی امان و حفاظت میں رکھتا ہے اس کے ساتھ ہی میں خدا سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے دنیا سے امن و امان کے ساتھ اٹھائے گا۔
منقول ہے کہ ایک دفعہ سلطان المشائخ کے زانوئے مبارک میں کوئی مرض حادث ہوا جس کی وجہ سے زانو سوج گیا اور درد پیدا ہوگیا۔ ضعف نے غلبہ کیا اور آپ کو سخت کرب و بے چینی لاحق ہوئی خلق اطراف و جوانب مثلاً بدایون اور اودھ اور دوسرے شہروں سے جوق جوق آتی تھی اور اعلیٰ درجہ کے مرید بھی سب کے سب عیادت کے لیے امڈے چلے آتے تھے۔ مولانا یوسف بھی چندیری سے آئے۔ آپ نے آتے ہی اول سلطان المشائخ کی قدمبوسی حاصل کی بعدہ حضور کی ذات شریف کی صحت کے لیے فاتحہ کی التماس کی جب فاتحہ تمام کرچکے تو سلطان المشائخ کی زانوئے مبارک کی طرف دم کیا۔ دوسرے روز سلطان المشائخ نے فرمایا کہ بہت لوگ آئے اور سب نے دعا کی لیکن کسی کی دعا موثر نہ پڑی مولانا یوسف نے کل التماس فاتحہ کی اور زانو پر دم کیا آج درد زانو بالکل جاتا رہا اور ورم نہایت ہلکا ہوگیا۔ اس کے تیسرے روز سلطان المشائخ نے غسل صحت فرمایا۔ اس پر ہر شخص نےعلی حسب القدر صدقہ بھیجا اور مبارک باددی اورر صدقہ تقسیم کیا۔ منقول ہے کہ ایک دن حضرت سلطان المشائخ کے جماعت خانہ میں مولانا یوسف اور چند دیگر حضرات بیٹھے تھے۔ اسی اثناء میں ایک مرد نے چند درم سامنے ڈال کر کہا ان کی شیرینی تیار کرو مولانا یوسف اور ان کے ساتھ دوسرے یاروں نے چند اور درم اس میں ملائے اور بہت سی شیرینی تیار کی۔ شیرینی سامنے رکھی گئی تو ہر شخص نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن مولانا یوسف نے اپنا ہاتھ مبارک کشیدہ رکھا حاضرین نے کہا کہ آپ یہ شیرینی کیوں نہیں تناول فرماتے مولانا نے فرمایا کہ میں ازرویٔ طریقت کے اپنے تئیں سلطان المشائخ کا غلام جانتا ہوں۔ اس مجلس میں سلطان المشائخ کی ذات شریف موجود ہے تمہیں یہ شیرینی حضور کے سامنے پیش کرنی چاہیے تاکہ ان کے سامنے صرف کی جائے سب یار شیرینی لے کر سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم نے آج مولانا یوسف کلا کہرمی سے ایک ایسا عظیم الشان فائدہ اٹھایا ہے کہ جو سخت ریاضت کے علاوہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ سلطان المشائخ نے دریافت کیا کہ قصد کیا تھا یاروں نے سارے قصہ کی تقریر بجنسہٖ عرض کردی۔ سلطان المشائخ نے اپنی گوہر بار زبان سے فرمایا کہ درویشی کی روش میں کوئی شخص مولانا یوسف کی نظیر نہیں ہے۔ وہ اس راہ میں ثابت قدم سالکوں کی چال چلتا ہے۔ منقول ہے کہ چندیری کی حکومت و ولایت ایک شخص ثمر نامی کے ہاتھ میں تھی اس کے لشکر کے بہت سے لوگ سلطان المشائخ کے مرید تھے جو آپ کے ایما و اشارے سے مولانا یوسف سے بھی محبت و اعتقاد رکھتے تھے اور ان کی تربیت اس بزرگ کی نظر میں تھی۔ ایک مرتبہ ثمر نے ایک شور برپا کیا جس کے سبب تمام مرید اطراف و جوانب میں چل دیے۔ مولانا یوسف کی خاطر مبارک یاروں کی جدائی سے نہایت پریشان ہوئی مولانا یوسف کا ایک دوست جسے آپ سے نہایت اعتقاد و اخلاص تھا آپ کے پاس آکر کہنے لگا کہ اب اس موضع میں رہنے کا کچھ مزا نہیں رہا۔ لکھنوتی کی طرف میری ملک ہے۔ آپ وہاں تشریف لے جائیے۔ بار برداری اور راستہ کا خرچ اور اس کے علاوہ سامان سفر میں مہیا کر دوں گا۔ مولانا یوسف نے فرمایا کہ یہاں میں خود نہیں آیا ہوں بلکہ شیخ کا بھیجا ہوا آیا ہوں میں شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کروں گا دیکھنا چاہیے کہ کیا حکم ہوتا ہے چنانچہ اس کے بعد مولانا یوسف سلطان المشائخ کی قدم بوسی کے لیے دہلی میں آئے اور سعادتِ قدم بوسی حاصل کرنے کے بعد عرض کیا کہ ایک شخص مجھ سے کہتا ہے کہ لکھنوتی کی طرف عزم کر چونکہ میں اس شہر میں حضور کا بھیجا ہوا گیا ہوں اس لیے بغیر اجازت مخدوم کے لکھنوتی نہیں جاسکتی۔ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ مولانا یوسف خواہ تم چندیری میں رہو یا دوسری جگہ چلے جاؤ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی حفظ و امان میں رہو گے۔ مولانا نے سر زمین پر رکھ کر عرض کیا کہ چونکہ حضور کی زبان مبارک پر چندیری کا نام پہلے جاری ہوا لہذا میں چندیری ہی میں رہوں گا۔ سلطان المشائخ نے اس ادب کی رعایت پر مولانا کی بہت تحسین کی۔ اس کے بعد سلطان المشائخ نے مولانا کو رخصت کیا اور آپ چندیری تشریف لے گئے۔
مولانا وجیہہ الدین یوسف کا سلطان المشائخ سے خلافت پانا
منقول ہے کہ عہد علائی میں ایک والی بادشاہ کی طرف سے چندیری کی فتح کے لیے بہت بڑے لشکر کے ساتھ متعین ہوا اور وہ حضرت سلطان المشائخ کے معتقدوں میں سے تھا۔ روانگی کے وقت آپ کی خدمت مبارک میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا کہ مجھے بادشاہ نے فلاں مقام کی فتح کرنے پر نامزد کیا ہے اگر مخدوم سلطان المشائخ کی طرف سے کوئی یار بھی ہمارے ساتھ نامزد ہوجائے تو ہم اس کی پناہ میں چلیں اور اس مقام کی فتح کی امید واثق ہو۔ سلطان المشائخ نے مولانا یوسف کو طلب فرمایا اور جب وہ تشریف لائے تو آپ نے انہیں اپنی اجازت سے مشرف فرما کر ولایت چندیری کی طرف روانہ کیا۔ جب یہ لشکر وہاں پہنچا تھوڑے دنوں میں چندیری فتح ہوگیا اور مولانا وجیہہ الدین یوسف نے اس مقام میں سکونت اختیار کی اس کے بعد سے اس شہر کی جس قدر مخلوق سلطان المشائخ کی ارادت کے لیے حاضر ہوئی آپ ان سے فرماتے کہ تم چندیری میں جا کر مولانا یوسف کی خدمت میں ارادت لاؤ اور میرا تصور کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو فقیر سے گویا وابستہ ہوگے اس کے بعد خلق نے موضع چندیری میں مولانا یوسف کی خدمت میں توجہ کی مولانا یوسف نے اس بے انتہا درجہ کے اعتقاد کی وجہ سے کہ سلطان المشائخ کی نسبت رکھتے تھے ان لوگوں سے فرمایا کہ جب تک سلطان المشائخ صدر حیات میں جلوہ آرا ہیں میں خلق کے ہاتھ میں دست بیعتنہ دوں گا لیکن میں اس جامہ کو آگے رکھ کر جو سلطان المشائخ کے جسم مبارک سے ملاگیا ہے اور حضور سے مجھے عنایت ہوا ہے تمہیں تلقین و بیعت اور ارادت کرتا ہوں تم لوگ اس بات کا تصور کرو کہ گویا سلطان المشائخ کی ذات شریف موجود ہے چنانچہ اسی طریقہ پر سلطان المشائخ کے زمانہ حیات میں مولانا وجیہہ الدین یوسف نے چند آدمیوں کو خلقۂ ارادت میں داخل کیا تھا۔
منقول ہے کہ سلطان المشائخ کی مہربانی و بخشش آخر عمر میں بھی مولانا یوسف پر مکرر ہوئی اور یہ قصہ یوں ہوا کہ جس زمانہ میں سلطان المشائخ اعلیٰ درجہ کے یاروں کو خلافت کے لیے اختیار کرتے تھے اور بعض حضرات اس دولت سے مشرف ہوچکے تھے تو مولانا یوسف علیہ الرحمۃ سلطان المشائخ کی خدمت میں طلب کیے گئے آپ نے حاضر ہوکر سر زمین پر رکھا اس وقت خواجہ اقبال نے عرض کیا کہ مخدوم عالمیوں کی مہربانی و شفقت ان غریب الدیار اور بیچاروں پر حد سے زیادہ ہے جنہوں نے اس آستانہ پر سر رکھا ہے اگر حضور اپنے کرم وافر سے از سر نو اپنے بندہ کو نوازیں اور شفقت بے اندازہ اپنے بیچارے کے حق میں جائز رکھیں تو بعید از بندہ پروری نہ ہوگا سلطان المشائخ کو بھی چونکہ مولانا یوسف پر مزید عنایت و مہربانی مطلوب تھی اس لیے آپ نے فرمایا کہ ہم نے انہیں پہلے ہی اجازت دے دی ہے۔ اور منصب خلافت عطا کر دیا ہے اس وقت خواجہ اقبال ایک کرتہ اور کلاہ جس نے بہت مدت تک سلطان المشائخ کی صحبت پائی تھی لائے اور سلطان المشائخ کی نظر مبارک میں مولانا یوسف کے جسم مبارک کو ان سے آراستہ کیا اور کہا تم بھی سلطان المشائخ کے خلیفہ ہو۔ مولانا یوسف نے اٹھ کر سلطان المشائخ کے دست مبارک کا بوسہ دیا۔ سلطان المشائخ کی طرف سے بتجدید فرمان ہوا کہ مولانا یوسف کو اجازت و ارادت پہلے سے ہی حاصل تھی۔ لیکن یہ سعادت اس سعادت پر زیادہ ہوئی اور وہ نور علی نور کے مورد ہوئے۔ غرضیکہ مولانا یوسف نہایت معظم و مکرم شخص تھے اور آپ پر کشف و کرامات کا دروازہ مفتوح تھا۔ کاتب حروف نے ان بزرگوار سے ملاقات کی ہے اور ان کی مجلس کا ذوق حاصل کیا ہے۔ دیار چندیری کی بہت سی مخلوق آپ کی مرید تھی۔ آپ کا روضہ مبارکہ چندیری میں ہے جس سے اس طرف کے لوگ برکت و یمن حاصل کرتے ہیں۔رحمۃ اللہ علیہ۔
(سِیَر الاولیاء)