علامۂ زمن مولانا فیض الحسن فیضؔ جہلمی
علامۂ زمن مولانا فیض الحسن فیضؔ جہلمی (تذکرہ / سوانح)
ادیب یگانہ، فاضل اجل مولانا فیض الحسن ابن مولانا علامہ محمد حسن فیضی قدس سرہما۲۷؍جمادی الاول ،۶؍اپریل (۱۳۰۰ھ؍۱۸۸۳ئ) کو بمقام بھیں تحصیل چکوال(ضلع جہلم) میں پیدا ہوئے ۔ علوم دینیہ کی تحصیل اپنے والد ماجد فاتح قادیانت مولانا محمد حسن فیضی سے کی،۱۳۲۵ھ؍۱۹۰۷ء میںپنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا ۔ آپ ایک عرصہ تک لاہور کی مشہور دینی درس گاہ جامعہ نعمانیہ میں مدرس رہے،امیر خرب اللہ پیر سید فضل شاہ جلالپوری آپ کے تلامذہ میں سے تھے۔
مولانا فیض الحسن رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے والد گرای کی طرح ادب عربی کی بینظیر فاضل اور قادر الکلام شاعر تھے۔ امام الائمہ مالک الازمہ سراج الائمہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت میں ایک قصیدئہ عربیہ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
کیف اثنیہ جل من اثناء
مل فی وفہ حجی العماء
جل عما نقول فیہ کما جل
با وصافہ عن النظراء
امامنا بل امام کل امام
ورکن قصر الشریعۃ الغراء
حیوٰۃ دین ابو حنیفۃ حیز
المکرمات وسند الاصفیاء
کان واللہ روضۃ الدین فی
الغبراء اغضانہ علی الحضراء
قمر الفلک اٰفل کل یوم
ولذ اک السکون وسط سماء
لاٰبہ افۃ اطحاق وان لا
یبصر الفضل مقلۃ عمیاء
تمم النظم ایھا الفیضؔ الفیض واستغفر
لما قد جنیت من اخطائ[1]
ترجمہ: ’’ میں ان کی کیسے تعریف کروں ، وہ تو تعریفوں سے بلند ہیں، ان کی تعریف میں اہلعلم کی قول عاجز ہیں وہ ہماری تعریف و توصیف سے بلند ہیں ، جیسے صفات میں اپنے معاصرین پر فائق ہیں وہ ہمارے بلکہ ہر امام کے امام ہیں اور قصر شریعت کے ستون ہیں ابو حنیفہ دین کی زندگی ، فضائل کا منبع اور اہل صفا کے لئے مرجع ہیں بخدا آپ دین متین کا ایسا باغ تھے کہ جنگل میںہوتے ہوئے اس کی شاخیںآبادی پر چھائی ہوئی تھیں آسمان کا چاند ہر دن ڈوب جاتا ہے لیکن امت مسلمہ کا چاند آسمان کے وسط میں قائم و دائم رہتا ہے وہ چاند (امام ابو حنیفہ) گرہن کی آفت سے محفوظ ہے اگر چہ اندھی آنکھ اس کی فضیلت کو نہ پاسکے اے فیضؔ اپنی نظم مکمل کر اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت مانگ۔‘‘
مولانا فیض الحسن کواپنے والد ماجد کی طرح شیخ الاسلام والمسلمین حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ سے والہانہ عقیدت تھی چنانچہ انہوں نے ایک عربی قصیدے میںگلہائے عقیدت اس طرح پیش کئے ہیں جیسے ایک مرید صادق اپنے مرشد کامل کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے،فرماتے ہیں:۔
ایا من لک الحسنیٰ وانت مدارھا
الیک المعالی والمکادم متنسب
لعمری انت الفردفی المجدو اوتقیٰ
واحد فی الاقران حبر مدرب
وکم مدع للفقر منغیر حجۃ
ویخدع للجھال مکر اویخطب
ولکن فی الناس حظک وافر
وجدک یعلو کل یوم ویغلب
حبیت منالرحمن رشدا و برکۃ
فکل فعال من فعالک اطیب
ومن جاء یر جو من جنابک ینصرف
با ضعف ما قد کان یرجو ویطلب
وفی یدک الیمنیٰ کؤس ھدایۃ
وطالبھا یسعیٰ الیھا ویشرب
ووجھک میمون وفیہ شھادۃ
بانک خیز النخب طرا وانجب
من السادۃ الاخیار کا نوا عزۃ
یمر ضاتہ کل یجیٔ ویذھب
ورثت من الاٰباء فخر اوسوددا
ورؤیااحلیٰ فی الفو روا عذب
وشمس سمٰوات تروح و تغتدی
وشمس(۱) علی شمسنا لیس تغرب
اموالی ھل نظراتیل الی تکرما
ونفسی فی العصیان تسعی او تدأب
وھل کان لی فی کاسک الخیر شربۃ
افوزام نتی اتخیب
الست من القوم الذین یمینھم
بمزن فیوضات تسیل وتسکب
ولم اتکلف فی مدیحک اننی
ارددت فجبرائیل املیٰ واکتب
کما انہ نظمیع عجیب باسرہ
کذاک وربی انت فی الخلق اعجب
وحاجات نفسی والا لہ کثیرۃ
فختام یا مولی فیھا اعذب
ومثلک یرجی فی الومور لحلھا
ونفزع الیہ کلما نتھیب
فھب لی بما ابحی وانک نعلم
وفیضک بین الناس یحویونھب[2]
(ترجمہ) ‘‘ اے ممدوح ! آپ حسنات و برکات کے جامع اور محو ر ہیں،فضائل و کمالات آپ کی طرف ہی منسوب کئے جاتے ہیں مجھے اپنی زندگی کی قسم آپ تقویٰ دبزرگی میں بے مثل اور معاصرین میں بے نظیر بلند پایہ عالم ہیں بہت سے لوگ کسی دلیل کے بغیر فقر کے مدعی ہیں اور جاہلوں کو مکرو فریب سے لوٹتے ہیں لیکن تمام لوگوں میں فقر کے اعتباز سے آپ کو وافسر حصہ ملا ہے اور آپ کی کوشش و ہمت ہر دن بلند سے بلند تر ہے آپ کو اللہ تعالیٰ نے رشد و برکت سے نوازا ہے اس لئے آ پ کا ہر فعل پاکیزہ ہے جو شخص بھی آپ کے دربار میں آرزولے کر آیا وہ امید سے کہیں زیادہ با مراد ہو کر لوٹا آپ کے متربک ہاتھ میں ہدایت کے جام ہیں ، ہدایت کے طالب آتے ہیں اور ان سے سیراب ہوتے ہیں آپ چہرئہ انور میں بمن و برکت اور اس بات کی شہادت ہے کہآپ ہر انتخابات سے بہتر اور صاحب عزت وسادات اخیار سے نجابت میں فائق ہیں اور ہر شخص کی آمد و رفت آپ کی رضا مندی سے ہے آپ کو فخر اور سیادت آباء سے ورثہ میں ملی ہے آپ کی ہمت بلند اور ذات اقدس کریم ہے آپ ک ی زیارت کا قصد بہترین مقصوس بلکہ انتہائے آرزو ہے اور آپ کی زیارت میں دل کے لئے لذت و سرور ہے آسمان کا سورج کبھی طلوع او کبھی غروب ہوتا ہے جبکہ مہر علی ہمارا دہ آتاب ہے جسے غروب نہیں ہے آقا کیا آپ مجھ پر نظر کرم فرمائیں گے میرا نفس گناہوں میں کوشاںاور محوہے کیا آپ کے خیرو برکت والے جام میںمیرا حصہ ہے ،مجھے بھی حصہ ملے گا یا میں محروم ہی رہوں گا؟ کیا میں ان لوگو ں میں سے نہیں ہوں جنہیں آپ کے فیوضات عامہ کے بادل سے نواز جاتا ہے میں نے آپ کی مدح تکلف سے کام نہیں لیا بلکہ میرے ارادہ کرنے پر جبریل امین مجھے لکھاتے جارہے ہیں اور میں لکھتا جارہا ہوں جس طرح میری نظم تمام تر عجیب ہے اس طرح آپ تمام مخلوق سے نہایت عجیب ہیں بخدا میری حاجتیں بکثرت ہیں ، آقا! میں ان کے عذاب بیس کب تک جلتا رہوں گا آپ ایسی شخصیت ہی سے تمام امور کے حل کی توقع کی جا سکتی ہے،کوئی بھی تکلیف ہو ہم آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں میری آرزو پوری کیجئے جسے آپ جانتے ہیں، آپ کا فیض لوگوں میں عام ہے جس سے لوگ مستفید ہونے ہیں۔‘‘
مولانا فیض الحسن نے متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ کیا ، اس وقت جن کتابوں کے نام معلوم ہو سکے ہیں،یہ ہیں:۔
۱۔ عالم الکلام از امام غزلی قدس سرہ
۲۔ تجرید الاحادیث از امام عبد الرؤف مناوی قدس سرہ
۳۔ حدائق الاخبار از محمد صادق فرغانی
۴۔ سیر ت محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم ) از ٹالسٹائی (مفکر روس)
ان کے علاوہ انسائیکلو پیڈیا ، شائع کردہ پیسہ اخبار ، لاہور کی تدوین و ترتیب میں ااپ کا بہت بڑا حصہ تھا۔
جمادی الاولیٰ،نومبر (۱۳۴۷ھ؍۱۹۲۸ئ) میں اس القدر علامہ کا وصال ہوا اور اپنے آبائی گا ئوں بھیں تحصیل چکوال (ضلع جہم) میں محوا ستراحت ابدی ہوئے[3]
[1] انتخاب مناقب سلیمانیہ : ص ۱۹۷۔۱۹۸
[2] چونکہ صاحب ممدوح کا نام مبارک مہر علی شاہ صاحب تھا اور فارسی میں ’’مہر ‘‘ شمس کو کہتے ہیں اس لئے شعر میں ’’شمس علی‘‘ کہا جو لطف سے خالی نہیں ۱۲ فیض انتکاب مناقب سلیمانیہ: ص ۱۹۹
[3] یہ حالات انتخاب مناقب سلیمانیہ کے حوالوں کے علاوہ مکرمی سید نور محمد قادری زید مجدہ نے فراہم کئے۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)