مولانا فخرالدین مروزی افضل زہاد زینت عباد مولانا فخر الملہ والدین جمال ورع اور کمال تقوی سے آراستہ تھے اور قطع نظر اس کے کلام ربانی کے حافظ تھے آپ سلطان المشائخ کے مصاحبان قدیم اور مریدان سابق میں شمار کیے جاتے تھے آخر عمر میں سلطان المشائخ کی خدمت میں زندگی بسر کی اور غیاث پور تو طن اختیار کیا باوجود مبالغہ تقویٰ اور انتہا درجہ کی طہارت و تزکیہ کے ترک و تجرید میں بہت کوشش کی۔ آپ ہمیشہ کلام مجید کے لکھنے میں مصروف رہتے اور اختلاف خلق سے الگ زندگی بسر کرتے تھے عظمت و کرامت میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے اور مردانِ غیب سے ملاقات حاصل ت ھی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ سلطان المشائخ کی خدمت میں اپنا ایک واقعہ اس طرح بیان کرنے لگے کہ ایک دن مجھ پر پیاس کا غلبہ ہوا اور میرے پاس کوئی ایسا شخص نہ تھا جس سے پانی مانگوں۔ دفعۃً پانی کا بھرا ہوا ایک کوزہ غیب سے پیدا ہوا۔ میں نے اس کوزہ کو فوراً توڑ ڈالا سارا پانی گرگیاازاں بعد میں نے کہا کہ میں یہ پانی نہیں پیتا بلکہ کرامت کا پانی پیوں گا۔ آپ یہاں تک پہنچے تو سلطان المشائخ نے فرمایا کہ آبِ کرامت ہی پینا چاہیے۔ اور چونکہ تم اس قابل ہو اس لیے تمہیں یہی سزاوار ہے الکرامتہ لا یرد۔ ازاں بعد مولانا فخرالدین نے بیان کیا کہ یہ تو بہت دفعہ واقع ہوا ہے کہ میں نے بالوں میں کنگھی کرنی چاہی اور میرے پاس کوئی ایسا شخص نہ ہوا کہ کنگھی لاکر دے فوراً دیوار شق ہوئی اور اس میں سے کنگھی نکلی میں نے اٹھاکر بالوں میں پھیری اور رکھ دی۔ سلطان المشائخ نے اپنے قلم مبارک سے ایک رقعہ ان بزرگوار کی طرف خدا تعالیٰ کی محبت کے ذکر میں لکھا تھا جس کا ذکر عنقریب اسی کتاب میں آئے گا اور محبان درگاہ بے نیازی اس سے تمام و کمال حظ اٹھائیں گے۔ الغرض جب ان بزرگوں کا انتقال ہوا تو سلطان المشائخ کے خطیرہ میں یاروں کے چبوترہ میں دفن ہوئے رحمۃ اللہ علیہ۔