مولانا فخر الدین زرادی رحمتہ اللہ علیہ
مولانا فخر الدین زرادی رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
عالم ربانی عاشق سبحانی مولانا فخر الملۃ والدین زرّادی قدس اللہ سرہ العزیز کثرتِ علم لطافتِ طبع شدت مجاہدہ ذوق مشاہدہ کے ساتھ مشہور اور انتہا درجہ کی ترک و تجرید اور کثرتِ گریہ میں اعلیٰ درجہ کے عزیزوں میں معروف تھے۔ آپ سلطان المشائخ کے نہایت اولولغرم اور ممتاز خلیفوں کی فہرست میں مندرج تھے۔ سبحان اللہ سبحان اللہ۔ یہ بزرگوار عشق کے مجسم تصویر اور محبت الٰہی کے پورے فوٹو تھے۔ جو شخص آپ کی نصیبہ در پیشانی کو دیکھتا یقیناً معلوم کرلیتا کہ یہ بزرگ و اصلان درگاہ حق تعالیٰ میں سے ہیں۔
مولانا فخر الدین زرادی کے جناب سلطان المشائخ
نظام الحق والدّین کی خدمت میں ارادت لانے کا بیان
شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ سے سنا گیا ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جس زمانہ میں میں شہر میں تعلیم پاتا تھا۔ مولانا فخر الدین ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ سے ہدایہ پڑھتے تھے اور ساری مجلس میں ان دونوں شاگردوں سے زیادہ تر کوئی شخص تیز طبع اور بحث کرنے والا نہ تھا۔ اس مجلس میں جس وقت سلطان المشائخ کا ذکر آتا یہ لوگ آپ کو اس طرح ذکر کرتے جیسے اہل تعصب کسی کو ذکر کرتے ہیں اور مجھے ناگوار دشوار گزرتا میں ان سے کہا کرتا تھا کہ آپ لوگ یہ باتیں اسی وقت تک کہتے ہو جب تک سلطان المشائخ کو نہیں دیکھتے۔ الغرض ایک دن میں نے انہیں اُبھار اُکسا کر سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہونے پر آمادہ کردیا۔ اور وہ اس پر راضی ہوگئے۔ جب میں اور میرے ساتھ وہ دونوں سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں سعادت قدم بوسی حاصل کرنے کے بعد بیٹھ گیا۔ سلطان المشائخ نے ان دونوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ تم کہاں رہتے ہو جواب میں عرض کیا۔ شہر میں۔ بعدہ آپ نے فرمایا پڑھتے کہاں ہو۔ عرض کیا فخر الدین ہانسوی سے۔ پھر پوچھا کیا پڑھتے ہو۔ کہا۔ ہدایہ۔ فرمایا تمہارا سبق کہاں تک پہنچا ہے۔ مولانا فخر الدین جو میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے آگے بڑھ کر بیٹھ گئے اور مقام سبق کی تقریر اور اس شبہہ کی توضیح کی جو سبق میں حل ہونے سے رہ گیا تھا شبہہ کی تقریر بیان کر کے سلطان المشائخ سے اس کا جواب طلب کیا۔ آپ نے کمال تبحر سے دانشمندانہ جواب میں سلسلہ گفتگو شروع کیا۔ سلطان المشائخ تقریر کرتے جاتے تھے اور مولانا فخر الدین آپ کی لطافتِ تقریر سے حیرت میں پڑ کر پیچھے ہٹتے جاتے تھے یہاں تک کہ میرے پاس پہنچ گئے اور جھک کر میرے کان میں کہا کہ میں اس وقت کلاہ ارادت لینا چاہتا ہوں۔ سلطان المشائخ نے فرمایا مولانا کیا کہتے ہو۔ شیخ نصیر الدین محمود فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ حضور! کلاہِ ارادت کی استدعا کرتے ہیں۔ سلطان المشائخ نے مسکرا کر فرمایا۔ اس وقت نہیں بلکہ دوسری مجلس میں دے دی جائے گی۔ مگر مولانا فخر الدین نے باصرار مجھ سے کہا کہ اگر سلطان المشائخ اس مجلس میں کلاہ ارادت نہیں دیتے تو اپنے تئیں ہلاک کر ڈالتا ہوں۔ جب میں نے سلطان المشائخ کی خدمت میں یہ بات عرض کی تو آپ نے فرمایا بہت اچھی بات ہے۔ اس وقت مولانا فخر الدین زرّادی اور امیران بورکش دونوں کو کلاہ ارادت پہنا کر سر فراز فرمایا۔ مولانا فخر الدین فوراً محلوق ہوئے اور دانشمندوں کے زمرہ اور ان کی قیل و قال سے نکل کر درویشوں کے حلقے میں بصد آرز و داخل ہوئے اپنی تمام کتابیں اور مسودات یاروں کو بخش دئیے اور دانشمندی کا غرور جاہ منزلت کی طلب یک لخت سر سے دور کردی۔
امیر خسرو کیا خوب فرماتے ہیں۔
بود زعقل پیش ازین باد غرور برسرم
پیش در تو خاک شد آن ہمہ کج کلاہیم
(اس سے پیشتر عقل کے سبب سے غرور کی ہوا میرے سر میں بھری ہوئی تھی۔ لیکن تیرے دروازہ کے آگے میری وہ ساری کج کلاہی خاک میں مل گئی۔)
اور اس روز سے یہ بزرگوار سلطان المشائخ کے غلاموں کے سلسلہ میں منسلک ہوئے۔ غیاث پور ہی میں سکونت اختیار کی اور پنج وقت نماز جماعت خانہ میں سلطان المشائخ کے ساتھ ادا کرتے رہے۔ کسی خوش اور صالح وقت میں سلطان المشائخ کی خدمت میں جاتے اور اس روحانی مجلس سے ان کی روح پاک پرورش پاتی تھی اور اس مجلس کے ذوق سے مست ہوکر پھر بار بار آمد و رفت کرتے تھے۔ انجام کار آپ نے سلطان المشائخ کے مکان کے آگے گھر بنالیا اور وہیں رہنے لگے تاکہ وقت بے وقت اس سعادت کو حاصل کرتے رہیں۔ شیخ سعدی نے کیا خوب کہا ہے۔
خوش آن سرے کہ شود خاک آستانۂ تو
(وہ سر بہت اچھا ہے جو تیرے دروازے کی خاک بن جائے۔)
یہاں تک کے کہ جس روز تک کہ سلطان المشائخ زندہ رہے مولانا فخر الدین نے کبھی سر آستانہ سے دور نہیں کیا۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔
عشق آراں مسلم است اے جان
کو نہد سربر آستانۂ دوست
(عشق اسی کا کامل ہے جو دوست کے دوازے کی چوکھٹ پر اپنا سر رکھے۔)
امیر حسن کہتے ہیں۔
اگر رقیب تو پر سد حسن چہ ماند برین در
تو آبروئے دہ اور ابگو کہ خاک درست این
(حسن اگر تیرا رقیب تجھ سے دریافت کرے کہ یہ کیا ہے تو اس کو جواب دینا چاہیے کہ دوست کے دروازے کی خاک پا ہے۔)
جب سلطان المشائخ صدر جنت میں خراماں خراماں پہنچے اور مقعد صدق میں قرار پکڑا تو مولانا فخر الدین کو ایک آن آرام و قرار نہ رہا۔ چند روز تک دریائے جون کے کنارے اور اس مقام پر سکونت اختیار کی جہاں سلطان السلاطین فیروز شاہ نے اپنے محل کی عمارت کی ہے اور شہر فیروز آباد بسایا ہے۔ زہے اثر قدم مبارک کہ آج اس بزرگ دین کے قدم کی برکت سے وہاں بادشاہ کا محل تیار ہوا اور ایک عظیم الشان شہر آباد ہوا پھر چند روز تک آپ نے مقام لونی میں قیام فرمایا اور ایک عرصہ تک حوض علائی کے کنارہ پر قیام پذیر رہے۔ اس کے بعد آپ اکثر اوقات سفر میں رہنے لگے اور شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری قدس اللہ سرہ العزیز کی زیارت کے لیے اجمیر تشریف لے گئے۔ بعدہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی زیارت کے لیے اجودھن تشریف لے گئے۔ الغرض آپ صحراؤں۔ پہاڑوں۔ غاروں میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے اور اس سے آپ کی غرض یہ تھی کہ کوئی شخص آپ کے احوال پر مطلع نہ ہو۔ خلاصہ یہ کہ آپ نے تمام عمر عزیز پیر کی محبت و عشق میں بسر کی اور خلوت و تنہائی اور یاد الٰہی میں گزار دی۔ شیخ سعدی کیا خوب فرماتے ہیں۔
بکنج غارے عزلت گزینم ازھمہ خلق
کزان لطیف جھان یار غار من باشد
(ایک غار کے کونے میں تمام خلق سے تنہا اس لیے بیٹھا ہوں کہ اس کے لطف و مہربانی سے جہان میرا یار غار ہوجائے۔)
خلاصہ یہ کہ اس بزرگوار نے سلطان المشائخ کی نظر کی برکت سے عالم میں قبولیت عظیم حاصل کی تھی۔ جس شخص کی نظر آپ کے چہرۂ مبارک پر پڑتی سر زمین پر رکھتا اور مولانا کی محبت کا اسیر ہوجاتا۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
مولانا فخر الدین زرادی رحمۃ اللہ علیہ کا مجاہدہ اور مشغولی باطن
کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ سلطان المشائخ کے انتقال کے بعد مولانا فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ بسنالہ میں چلے گئے۔ جو پہاڑ کے بیچ میں واقع ہے یہاں بند کے سِرے پر ایک مختصر سی قدیم مسجد بنی ہوئی ہے جس میں آپ مشغول ہوئے چونکہ یہ مقام نہایت غیر آباد اور اجاڑ تھا اس لیے کوئی متنفس سکونت نہ کر سکتا تھا۔ علاوہ ازیں درندوں اور وحشی جانوروں کا مسکن تھا۔ شیر۔ بھیڑیے کا ہر وقت خوف لگا رہتا تھا۔ دو تین عزیز جو مولانا کے ساتھ تھے اس خطر ناک مقام سے کانپ کانپ اٹھتے تھے اور چونکہ متصل تین روز تک انہیں کھانے کی بھی کوئی چیز میسر نہ ہوئی تھی لہذا سب وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ور مولانا کو ایسےپر ہول اور خطر ناک مقام میں تنہا چھوڑ کر واپس چلے آئے خواجہ حکیم سنائی کہتے ہیں۔
بے بلا نازنین شمر داورا
چون بلا دید در سپرد اورا
(جب تک بلاد مصیبت نہ تھی اسے نازنین شمار کیا۔ اور جب مصیبت و بلاد دیکھی تو اسے اس کے سپرد کردیا۔)
جب کاتب حروف کے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کچھ کھانا پکا کر تیار کیا اور کچھ کھانے کا اسباب ساتھ لیا اور چندان عزیزوں کے ساتھ روانہ ہوئے جو مولانا کی خدمت میں شاگردی اور اخلاص کا حق رکھتے تھے جیسے مولانا استاد رکن الملۃ والدین اندر پتی اور مولانا سراج الدین عثمان (ان دونوں حضرات کا ذکر سلطان المشائخ کے خلفا میں آگے آئے گا) اور مولانا صدر الدین، مولانا رکن الدین کے بھائی، اور عبد اللہ کوئی سلطان المشائخ کے رکابدار، کاتب حروف جو ان تمام عزیزوں میں سب سے کم عمر اور بچہ تھا۔ غرضکہ یہ سب لوگ بسنالہ میں مولانا فخر الدین کی خدمت میں گئے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ بادشاہِ فقر و مجاہدہ بسنالہ کے بند میں جو شیروں اور اژدہوں کا مقام ہے اور جا بجا سانپوں کی کچلیاں پڑی لٹک رہی ہیں نہایت استقلال و بے التفاتی کے ساتھ قبلہ رخ مشغول بحق بیٹھے ہیں اس وقت آٹھ روز گزر گئے تھے کہ مولانا نے افطار کے وقت کچھ نہیں کھایا تھا۔ لیکن یہ تعجب اور تعجب کے ساتھ حیرت سے دیکھا گیا کہ آپ کی ذات مبارک میں کسی طرح کا ضعف و ملال ظاہر نہیں ہوا۔ حقیقت میں آپ روح مجرد ہوگئے تھے اور بیابان و پہاڑوں کو اپنے جمال سے روشن و منور کر دیا تھا اور خواجہ سنائی کی اس مثنوی پر جو سلطان المشائخ کی زبان مبارک پر گزری ہے عمل در آمد کیا تھا۔
دشت و کھسار گیر ھمچو و حوش |
|
خانمانان رابمان بگر بہ و موش |
(مثل وحشی جانوروں کے جنگل اور پہاڑ میں بسیرا کر۔ گھر بار کو ان کے اہل کے واسطے چھوڑ دے۔ گھر بار کھانا اور دیگر چیزوں کے مہیا کرنے کے واسطے بنانا مکڑی اور چیونٹی وغیرہ کا کام ہے۔ حضرت عیسی آسمان پر ہیں اور وہیں روزی رسان ان کا رزق پہنچاتا ہے۔)
جب عزیزیار اس عاشق صادق کی خدمت میں پہنچے تو مولانا انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان عزیزوں کا آنا نہایت مغتنم سمجھا۔ آپ نے ہر شخص سے اس کے رتبہ کے موافق معذرت کی اور فرمایا تم نے اس قدر کیوں زحمت اٹھائی مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میرے یاروں میں سے تمہیں کسی نے خبر کردی ہے۔ بعدہ فرمایا۔ سبحان اللہ ایک لوگ تو میری موافقت کر نہیں سکے دوسرے بھید ٹٹولنے آئے اور سر کا کشف کرنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ سعادت ملاقات نصیب ہونی تھی حق تعالیٰ نے یہ سبب پیدا کیا۔ الغرض اس بزرگ دین نے مجاہدہ میں انتہا درجہ کی کوشش کی تھی اور اس ابدی سعادت کو اپنے اوپر لازم کر لیا۔ کاتب حروف لڑکپن کے زمانے سے سِن بلوغ تک اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا ہے جب تنہائی اور خلوت میں اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتا قبلہ رخ بیٹھے اور زانوئے مبارک پر سر رکھے ہوئے مشغول حق دیکھتا۔ دس پانچ مرتبہ نہیں بلکہ بہت دفعہ ان جیسی باتیں دیکھنے کا اتفاق پڑا ہے جب سے سلطان المشائخ نے سفر آخرت قبول کیا۔ آپ نے دائمی روزہ اختیار کیا۔ یہاں تک کہ جس زمانہ تک آپ زندہ رہے کبھی روزہ افطار نہیں کیا۔ شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جو ترقی مقامات ہمیں مہینے دو مہینے میں حاصل ہوتی تھیں۔ مولانا فخر الدین زرادی کو ایک ساعت میں میسر ہو جاتی تھی رحمۃ اللہ علیہ۔
مولانا فخر الدین زرادی رحمۃ اللہ علیہ کا علم و تبحر
کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ سلطان المشائخ کے زمانہ زندگی میں ایک دانشمند عالم بغدادی مالکی مذہب غیاث پور میں آیا اور اس سے پیشتر کہ شہر میں داخل ہو۔ ایک خواب دیکھا وہ یہ کہ ایک فرشتہ بہشتی طباق ہاتھ میں لیے ہوئے اور اس پر ایک سبز حلہ ڈالے ہوئے آسمان سے اترا چلا آتا ہے۔ جب وہ زمین پر اتر کر اس دانشمند کے پاس سے ہوکر گزرا تو اس نے دریافت کیا۔ یہ طبق کیسا۔ فرشتہ نے جواب دیا کہ علم لدنی کا طبق ہے مجھے خدا کا حکم ہوا ہے کہ اسے لے جا کر مولانا فخر الدین زرادی کے مصفا سینہ میں ڈالوں۔ دانشمند نے دریافت کیا کہ مولانا فخر الدین زارادی کون بزرگ ہیں۔ فرشتہ بولا ایک دانشمند ہے شیخ نظام الدین کے مریدوں میں تمام تعلقات سے مجرد۔ جب وہ دانشمند خواب سے بیدار ہوا تو شہر میں جانے کا قصد ملتوی کیا۔ اور غیاث پور ہی میں سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوکر خواب کی تقریر اول سے آخر تک عرض کی اور ساتھ ہی التماس کی کہ میں مولانا فخر الدین زرادی کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ وہ جماعت خانہ میں ہوں گے یا سیدوں کے گھر میں۔ ان سیدوں سے مراد کاتب حروف کے والد بزرگوار اور چچا تھے کیونکہ مولانا کو ان لوگوں سے انتہا درجہ کی محبت تھی اور جماعت خانہ سے جب کہیں تشریف لے جاتے تھے تو ان بزرگواروں کے مکان میں رونق افروز ہوتے تھے۔ غرضکہ اس دانشمند نے جماعت خانہ میں آکر دریافت کیا کہ یہاں مولانا فخر الدین زرادی کون بزرگ ہیں۔ حاضرین مجلس نے مولانا کی طرف اشارہ کیا دیکھا کہ ایک نوجوان بالا قد سفید پوست خوبصورت انتہا درجہ کی ملاحت و صباحت کے ساتھ بیٹھا ہے شیخ سعدی نے کیا خوب کہا ہے۔
اے صورتت ز گوھر معنی خزینۂ
مارا زدرد عشق تو در دل دفینۂ
چہرۂ مبارک غایت صفائی سے آفتاب جیسا روشن و تابان ہے اور اس پر خدا کی تجلّی کا نور جلوہ نما ہے۔ جماعت خانہ کے ایک کونے میں مشغول بحق بیٹھا ہے۔ یہ دانشمند مولانا کی خدمت میں آکر بیٹھا اور خواب کی حکایت تقریر کی۔ مولانا فخر الدین زرادی نے مسکرا کر فرمایا کہ اس عظیم الشان درگاہ کی مِلک میں بہت سے فخر الدین زرادی نام کے غلام منسلک ہیں نہ معلوم وہ کون سے فخر الدین زرادی ہیں جو تجھے خواب میں بتائے گئے ہیں۔ دانشمند مجمع البحرین کا ایک نسخہ جو فقہ میں نہایت عجیب و غریب تصنیف ہے اور نسخہ تصریف مالکی کہ کثرت معانی میں اس سے زیادہ مختصر اور لطیف تر کوئی دوسرا نسخہ اس وقت تک دستیاب نہیں ہوا تھا اور سب سے پیشتر یہی دانشمند یہاں لایا تھا غرضکہ یہ دونوں عجیب و غریب نسخے مولانا فخر الدین کی نظر مبارک میں پیش کر کے تصریف مالکی کا ذکر کرنے لگا کہ مصنف نے تصریف کے قواعد و مقدمات اس طرز سے بیان کیے ہیں جن کا حل اور توضیح نا ممکن نہیں تو قریب قریب دشوار ضرور ہے۔ اور اس وقت تک ان دونوں کتابوں کی کوئی شرح تصنیف نہیں ہوئی ہے۔ اس کی یہ تقریر سن کر مولانا فخر الدین زرادی رحمۃ اللہ علیہ نے تصریف مالکی کا نسخہ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور عشا کی نماز پڑھنے کے بعد اس کا مطالعہ کرنا شروع کیا اثناء مطالعہ میں اس کے تمام قیود اور ضمائر اور مشکلات قلم مبارک سے ہر کلمہ کے نیچے لکھتے چلے گئے اور سارے مشکلات پانی کر دئیے جب دن ہوا تو مولانا نے نسخہ کو درست کر کے اس دانشمند کے ہاتھ میں دیا۔ مجمع البحرین کا نسخہ اس سے پیشتر کہ شہر میں اشاعت پائے مولانا فخر الدین نے اسے مولانا رکن الدین کو پڑھانا شروع کیا۔ دانشمند نے مولانا کا یہ علمی تجر اور خدا داد قابلیت دیکھ کر کہا الحمد اللہ کہ میرے خواب کی تصدیق ہوگئی کیونکہ علم میں اس درجہ قوت اسی شخص کو نصیب ہوتی ہے جس کا سینہ علم لدنی سے آراستہ و معمور ہوتا ہے۔ الغرض مولانا نے ان دونوں عجیب و غریب نسخوں کو بغیر کسی شرح کی مدد کے پڑھنا شروع کیا اور اس کے غرائب و لطافت کا نفس الفاظ سے استنباط کیا اس سے علماء شہر میں یہ دونوں کتابیں بے نظیر مشہور ہوگئیں۔ اسی زمانہ میں کاتب حروف کے والد رحمۃ اللہ علیہ نے سلطان المشائخ کے مکان کے نزدیک ایک نہایت وسیع مکان کرایہ کو لیا تھا اور خود طلبہ کو درس دیتے تھے مستعد اور تیز طبع متعلموں کو جمع کیا اور انہیں تحصیل علوم پر ترغیب دی اور اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ کاتب حروف کو کچھ پڑھنا آجائے مولانا فخر الدین بھی چاشت کی نماز سے فارغ ہوکر اس مجلس میں تشریف لاتے اور مولانا رکن الدین اندر پتی کو ہدایہ پڑھایا کرتے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ عالم ربانی مولانا رکن الدین سامانی جو شہر کے مشاہیر علماء میں گنے جاتے تھے سلطان المشائخ کی زیارت کو آئے اور سلطان المشائخ کی خدمت سے لوٹتے وقت اس انتہا درجہ کے اتحاد و محبت کی وجہ سے جو انہیں مولانا فخر الدین سے تھی اس مجلس میں تشریف لائے اس وقت مولانا فخر الدین ہدایہ کا سبق پڑھا رہے تھے۔ جب آپ نے مولانا کمال الدین کو آتے دیکھا تو ہدایہ کی احادیث کے تمسکات کو چھوڑ کر احادیث صحیحین سے تمسک کرنے لگے۔ مولانا کمال الدین نے فرمایا کہ حضرت! آپ ہدایہ کے احادیث کے تمسکات کو ترک کر کے دوسری حدیثوں سے تمسک کرتے ہیں فرمایا اس میں اگر آپ کو کوئی خدشہ ہو تو اسے بیان کیجیے۔ چونکہ آپ موثر اور دلکشا تقریر میں نہایت مستحکم تمسکات لا رہے تھے اس لیے مولانا کمال الدین کو اعتراض کا کوئی موقع نہیں ملا بلکہ وہ لفظ لفظ کی نہایت انصاف سے داد دیتے اور وسیع و جامع الفاظ میں تعریف و تحسین کرتے جاتے تھے۔ مولانا کمال الدین سامانی سے روایت کی جاتی ہے کہ فرماتے تھے۔ ایک دفعہ سماع کے بارے میں بحث ہوئی اور مشاہیر علماء کے حضور میں سماع کے ایک نکتہ کی بابت تقریر ہوئی۔ مولانا فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ بھی اس مجلس میں موجود تھے آپ نے اثناء بحث میں علماء شہر کی طرف روئے سخن کر کے فرمایا کہ تم دو شقوں میں ایک شق اختیار کر لو گے اگر حرمت کی شق اختیار کرو گے تو میں سماع کی حلت ثابت کروں گا اور اگر حلت کی جانب اختیار کرو گے حرمت ثابت کروں گا۔ مولانا کمال الدین یہ حکایت بیان کرتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے کہ عجب تبحر علمی تھا کہ اس قدر مشاہیر کے سامنے ایسا بڑا دعویٰ کیا جائے اور وہ بجز سکوت و خاموشی کے کچھ جواب نہ دیں۔ ایسے موقع پر اپنا مدعا ہر پہلو پر ثابت کرنا بجز قوتِ علم اور تقوے کے نا ممکن ہے۔ علاوہ ازیں آپ میں یہ عجیب خاصیت تھی کہ کسی بحث میں کبھی مساخت نہ کرتے تھے بلکہ جب تک صاف طور الزام نہ دے لیتے اور قائل نہ کر دیتے خاموش نہ رہتے۔ اگرچہ جانبِ مقابل علامہ عصر اور یگانۂ روزگار ہی کیوں نہ ہوتا۔ چنانچہ ایک دن کا ذکر ہے کہ سلطان المشائخ کے جماعت خانہ میں نماز فجر کے بعد مولانا وجیہہ الدین پائلی جن کا ذکر اعلیٰ یاروں میں اوپر لکھا جا چکا ہے تشریف رکھتے تھے اور مولانا فخر الدین بھی اتفاق وقت سے موجود تھے۔ دونوں بزرگوں میں برودی کے ایک مسئلہ پر بحث چھڑ گئی جو اصول فقہ میں ایک مشکل اور سخت کتاب گِنی جاتی ہے۔ جانبین سے رد و قدح اور سوال و جواب ہونے لگے اور اس مناظرہ نے بہت طول کھینچا۔ مولانا وجیہہ الدین پائلی جن مقدمات کی تقریر کرتے تھے مولانا فخر الدین نہایت اطمینان اور حسن عبارت کے ساتھ ان مقدمات پر اور مقدمات زیادہ کر کے اعتراض کرتے تھے۔ غرضکہ اس مناظرہ مباحثہ کی یہاں تک نوبت پہنچی کہ مولانا وجیہہ الدین غصہ میں بھر گئے اور مناظرہ کا پہلو بدل کر مجادلہ کا دروازہ کھولا۔ طعن تشنیع شروع کی اور برا بھلا کہنے لگے۔ اس وقت مولانا فخر الدین پر گریہ غالب ہوا اور آپ جواب کی طرف مشغول نہ ہوئے۔ جب مولانا وجیہہ الدین طعن تشنیع سے باز آئے تو مولانا فخر الدین نے درویشانہ صفائی کی اور مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ان ہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ شیخ نصیر الدین محمود قدس اللہ سرہ العزیز اس مجلس میں تشریف لے گئے جہاں مولانا فخر الدین طالب العلموں کو درس دیا کرتے تھے۔ مولانا فخر الدین نے شیخ نصیر الدین محمود سے فرمایا کہ یہ (کاتب حروف کی طرف اشارہ کر کے) بچہ تعلیلات میں نہایت ہوشیار ہے کچھ اس سے پوچھو شیخ نصیر الدین نے کمترین سے دریافت کیا کہ یحبب کی اصل کیا تھی اور کیا تعلیل ہوئی۔ جب میں نے اس کلمہ کی اصل بیان کی اور واقعی تعلیل کردی تو شیخ نصیر الدین محمود نے اعتراض کیا کہ جس وجہ اور علت سے یَحْبب میں وادگر پڑا ہے وہ علت اجب نجب میں نہیں پائی جاتی پھر باوجود اس کے یہاں واؤ کیوں گرا دیا گیا۔ میں نے کہا اگرچہ یہاں وہ علت نہیں پائی جاتی مگر موافقت باب کے لیے یہاں بھی واؤ گرا دیا گیا جوں ہی یہ جواب میری زبان سے نکلا مولانا فخر الدین مارے خوشی کے اُچھل پڑے اور انشراح باطن کے لیے دستار اور مسواک جو آپ کے دست مبارک میں تھی کمترین کی طرف پھینک دی۔ اس تقریر سے میرا اتنا ہی مقصود تھا کہ اس فدوی نے ان دو بزرگوں کی سعادت بخش نظر میں خلعت پایا اور تحسین سے مشرف ہوا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب مولانا فخر الدین سبق سے فارغ ہوا کرتے تو قصیدہ سبعیات کی ایک بیت بندہ کو یاد کراتے اور تعلیلین دریافت کرتے اور وصیت فرماتے کہ مادہ اور لفظ میں زیادہ کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اصل یہ ہی ہے یہیں سے تمام علوم کا دروازہ آسانی کے ساتھ کھلے گا۔ حقیقت میں مولانا فخر الدین اجتہاد کا مرتبہ رکھتے آپ نے سماع کی اباحت میں دو مستقل رسالے خاص تقریر سے تصنیف کیئے ہیں اور اس کے اباحت کے مقدمات اصول فقہ کے قواعد پر منطبق کیئے ہیں جن سے آپ کا علمی کمال اور تبحر بخوبی واضح ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے دوسرے فضائل و محامد مثلاً جگر سوز گریہ اندرونی ذوق ظاہر و باطن کی صفائی ان کے اس قدر واقعات ہیں کہ قلم قید کتابت میں لانے سے محض عاجز ہے۔ شیخ سعدی کیا خوب فرماتے ہیں۔
سعدی کہ داد حسن ھمہ نیکون ان بداد
عاجز بما نددر تو زبان فصا حتش
(ای سعدی تمام حسینوں نے اس کے حسن کی داد دی یہی وجہ ہے کہ تیری زبان فصاحت اس کے بیان حسن میں عاجز و گنگ ہے)
اگر کبھی مولانا فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ یاروں کے ساتھ زراعت و باغ اور پہاڑ و جنگل کی سیر کی غرض سے باہر تشریف لے جاتے تو کاتبِ حروف بھی ان بزرگوں کے ساتھ ہوتا تھا خدائے علام الغیوب کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ اگرچہ ان صحبتوں کو تیس برس سے زائد گزر گئے مگر ان مجلسوں کا ذوق اب تک میں اپنے دل میں محسوس پاتا ہوں امیر خسرو فرماتے ہیں۔
مراباز آن طریق ساقی خود یادمے آید
غم دیر ینہ بازم در دل ناشاد مے آید
(مجھے اپنے ساقی کی پھر طرز و روش یاد آتی ہے۔ پُرانا غم پھر میرے دل نا شاد میں آتا ہے۔)
اور یہ نا چیز بندہ سلطان المشائخ کے طفیل سے صرف ان بزرگوں کی یاد میں زندگی بسر کرتا ہے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں۔
جان من زندہ بتا ثیر ھواے دگر ست
ساز داری نکند آب و ھوائے دگرم
(میری جان ایک اور ہی ہوا کی تاثیر سے زندہ ہے۔ اس کے سوا اور آپ و ہوا مجھ سے موافقت نہیں کرتی۔)
مولانا فخر الدین زرادی کے سماع سننے اور اس حالت کا بیان
جو آپ پر سماع کے وقت طاری ہوتی تھی
کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ ایک رات علائی کے حوض خاص کے کنارے سماع کی مجلس گرم ہوئی اور اس مجلس میں مولانا فخر الدین زرادی اور مولانا حسام الدین سلطان المشائخ کے معزز و مقتدر خلفا موجود تھے۔ خوشگوار قوال اور خوش الحان غزال خواں حاضر تھے جب سماع شروع ہوا تو مولانا فخر الدین کو سماع نے فوری اثر کیا آپ پر اس درجہ گریہ غالب ہوا کہ آپ کا دم گھُٹ گیا۔
گریہ گرہ شددر گلو رہ بستہ شد آواز را
جب عزیزانِ مجلس رقص میں اٹھے تو میں نے مولانا فخر الدین کی پیشانی کو دیکھا کہ وہ بالکل زرد پڑ گئی تھی اور آنکھوں سے دریا کی طرح پانی بہتا تھا۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں۔
چشم ھا آب روان کرد چہ چارہ است آن را
کہ بحیلہ نتوان آب روان گرد آورد
(آنکھوں نے پانی بہایا تو اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے کیونکہ حیلہ سے بہتا ہوا پانی روک نہیں سکتے۔)
اس حالت میں آپ پاؤں کے انگوٹھوں کے بل رقص میں جست کر رہے تھے۔ علی ہذا القیاس مولانا حسام الدین ملتانی کو میں دیکھ رہا تھا کہ آپ کے مقام صدر سے جہاں کھڑے ہوئے تھے قوالوں کے مقابل میں رقص کے لیچنبش کی اور سیدھے قوالوں کے پاس آئے اور بیت سن کر پھر اسی طرح سیدھے اپنی جگہ لوٹ گئے اور مقام صدر میں جا کھڑے ہوئے۔ غرضکہ ان دونوں بزرگوں کے ذوق سماع نے جملہ حاضرین مجلس میں وہ اثر کیا جو بیان سے باہر ہے اسی طرح ایک رات دولت آباد میں حوض سلطان پر مجلس سماع مرتب تھی مولانا فخر الدین اس مقام پر جلوہ فرما تھے اورچند روز سے یہیں سکونت رکھتے تھے۔ سید خاموش کاتب حروف کے عم بزرگوار اور دوسرے یارو عزیز اس مجلس میں موجود تھے۔ جب مجلس سماع گرم ہوئی تو مسعود سحر خوان نے امیر خسرو کی ایک غزل جس میں رقت اور سوز و گداز پیدا کرنے کے سارے سامان جمع تھے نہایت خوش الحانی اور رقت سے پڑھی اور جب وہ ان دو بیتوں پر پہنچا۔
تو بادشاہ بتانی و خواھشم اینست |
|
کہ شغل روئے بھی بردرت مرا باشد |
(تو ملکِ حسن کا بادشاہ ہے اور میری یہ آرزو ہے کہ تیری چوکھٹ پر سر رکھنا میسر ہو معلوم نہیں کہ اس میرے دل کو کس نے کہا کہ صنم پرستی عاشقی میں روا ہے۔)
تو مولانا فخر الدین میں ان دو بیتوں نے انتہا درجہ کا اثر پیدا کیا۔ آپ پر اس قدر گریہ غالب ہوا کہ ہلاکت کے قریب پہنچ گئے۔ اور بے انتہا رونے کی وجہ سے آنکھوں کے نیچے کی پلکیں سرخ ہوگئیں۔ مولانا نہایت سریع البکا تھے اور اعلیٰ رتبہ کے یاروں میں کسی شخص پر ایسا گریہ غالب نہ ہوتا تھا جیسا کہ آپ پر ہوتا تھا۔ رحمۃ اللہ علیہ واسعۃً۔
مولانا فخر الدین زرادی قدس اللہ سرہ العزیز کا سلطان محمد
بن تغلق انار اللہ برہانہ سے ملاقات کرنا
کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ جس زمانہ میں سلطان محمد بن تغلق نے شہری کی مخلوق کو موضع دیوگیر روانہ کیا اور ان ہی ایام میں ملک ترکستان اور خراستان کو زیرو زبر کرنا اور چنگیز خان کے خاندان کوتہ تیغ کرنا چاہا تو دِلّی اور اس کے اطراف کے تمام صدور و اکابر کو طلب کیا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو بادشاہ نے دربار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ایک عظیم الشان خیمہ نصب کریں اور اس میں ممبر رکھیں تاکہ میں اس پر چڑھ کر خلق کو کفار سے جہاد کرنے کی ترغیب دلاؤں۔ اس روز مولانا فخر الدین اور مولانا شمس الدین یحیی اور شیخ نصیر الدین محمود بلائے گئے۔ شیخ قطب الدین دبیر نے کہ سلطان المشائخ کے مریدوں میں سے ایک پاک اعتقاد مرید اور ولایت پیر کی جمال کے عاشق زار اور مولانا فخر الدین زرادی کے شاگرد خاص تھے چاہا کہ قبل اس کے کہ دوسرے عزیز شاہی دربار میں پہنچیں مولانا فخر الدین کو دربار شاہی میں لے جاؤں اور مولانا کو منظور نہ تھا کہ سلطان سے ملاقات کریں بلکہ آپ بار بار فرماتے تھے کہ میں اس مرد کے گھر کے دروازے پر اپنا سر خاک و خون میں غلطاں دیکھتا ہوں یعنی اگر میں بادشاہ کے پاس جاؤں گا تو کسی قسم کی مساخت و مدارت نہ کروں گا اور جب یہ ہوگا تو وہ مجھے زندہ چھوڑے گا۔ الغرض جب مولانا کی بادشاہ سے ملاقات ہوئی تو شیخ قطب الدین دبیر مولانا کی جوتیاں اٹھا کر خدمت گاروں کی طرح بغل میں مار کر کھڑے ہوگئے۔ بادشاہ یہ بات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا مگر اس موقع پر اس نے خاموشی اختیار کی اور کچھ نہ کہا۔ ازاں بعد مولانا فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ سے گفتگو کرنے میں مشغول ہوا اور کہا میں چنگیز خان کے خاندان کو تباہ کرنا چاہتا ہوں تم اس کام میں میرا ساتھ دو گے مولانا نے فرمایا ان شاء اللہ۔ سلطان بولا یہ شک کا کلمہ ہے۔ مولانا نے فرمایا مستقبل میں بھی یہی آتا ہے یہ جواب مولانا کی زبان مبارک سے سن کر بادشاہ سخت پیچ تاب میں پڑا لیکن غصہ کے آثار دبا کر بولا کہ ہمیں کچھ نصیحت کیجیے تاکہ اس پر عمل کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ غصہ کو نگل جاؤ۔ سلطان نے فرمایا کون سے غصہ کو فرمایا سبھی غضب کو یہ سن کر بادشاہ اس قدر غضبناک ہوا کہ ہزار ضبط کے بعد بھی آثار غضب اس کے بشرہ سے نمایاں ہوگئے لیکن اب بھی اس نے سکوت کیا اور مولانا کی نسبت کوئی گستاخی نہیں کرسکا۔ اس کے بعد حکم ہوا کہ کھانا حاضر کیا جائے۔ کھانا لایا گیا تو سلطان اور مولانا ایک ہی طباق میں کھانا کھانے میں مشغول ہوئے۔ مولانا فخر الدین زرادی علیہ الرحمۃ کھانا کھاتے وقت اس درجہ منغض و مکدر تھے کہ سلطان کو معلوم ہوگیا کہ انہیں میرے ساتھ کھانا کھانا بُرا لگتا ہے۔ اب بادشاہ نے ہڈیوں سے گوشت چھڑا چھڑا کر آپ کے سامنے رکھنا شروع کیا۔ مولانا نے نہایت نا خوشی اور کراہت سے تھوڑا تھوڑا کھا کر ہاتھ دستر خوان سے اٹھالیا۔ جب دستر خوان اٹھ گیا تو مولانا شمس الدین یحیی اور شیخ نصیر الدین کو لوگ بلا کر لائے۔ اس جگہ دو روایتیں منقول ہیں۔ ایک یہ کہ جس وقت یہ بزرگ تشریف لائے تو مولانا فخر الدین نے مولانا شمس الدین یحییٰ کو اپنے سے بالا تر مقام پر جگہ دی اور شیخ نصیر الدین محمود کو اپنی جگہ بٹھا دیا اور خود نیچے بیٹھ گئے۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ ایک طرف تو مولانا شمس الدین یحییٰ اور مولانا نصیر الدین بیٹھے اور ایک طرف مولانا فخر الدین زرادی رحمۃ اللہ علیہم۔ لیکن پہلی روایت صحیح ہے کیونکہ شیخ قطب الدین دبیر جو اس مجلس میں موجود تھے پہلی روایت کے ناقل ہیں۔ الغرض جب رخصت ہونے کا وقت ہوا تو ان بزرگوں کے لیے جدا جدا ایک ایک صوف کا جامہ اور ایک ایک روپے کی تھیلی بادشاہ کی طرف سے نذر کی گئی ہر ایک بزرگ نے خلعت و روپیہ ہاتھ میں لیا اور جس طرح آئے تھے خدمت کر کے لوٹ گئے۔ لیکن جب مولانا فخر الدین کا نمبر آیا تو قبل اس کے کہ آپ کے دستِ مبارک میں خلعت اور روپیوں کی تھیلی دیں جھٹ شیخ قطب الدین دبیر نے خلعت و تھیلی اپنے ہاتھ میں لے لی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مولانا اس خلعت اور تھیلی کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ اور جب ایسا ہوگا تو بادشاہ کو عذر ہاتھ لگ جائے گا اور اس وجہ سے وہ مولانا کی بے حرمتی کے درپے ہوگا۔ جب یہ بزرگ لوٹ گئے تو بادشاہ نے شیخ قطب الدین دبیر کو عتاب آمیز خطاب میں کہا کہ اے مزدّر و شکّال یہ کیسی لغو اور بے جا حرکتیں تھیں جو تجھ سے ظہور میں آئیں۔ اول تو تو نے فخر الدین زرادی کی جوتیاں اپنی بغل میں مار لیں بعدہ اس کا خلعت اور روپیہ کی تھیلی اپنے ہاتھ میں لے لی۔ آج تو نے انہیں میری تیغ جہانسوز سے بچا دیا اور اپنی جان پر بلا و مصیبت توڑی۔ شیخ قطب الدین نے کہا۔ علیجاہا وہ میرے استاد اور مخدوم کے خلیفہ ہیں میرا دینی فرض ہے کہ ان کی جوتیاں تعظیماً سر پر رکھوں چہ جائیکہ بغل میں بھی نہ ماروں اور خلعت و روپے کی تھیلی جو میں نے اپنے ہاتھ میں لی یہ کوئی بات نہ تھی ان کی زحمت رفع کرنے کی غرض سے میں نے ایسا کیا بادشاہ نے نہایت درشت مزاجی سے بہت سی سخت اورکڑوی باتیں شیخ قطب الدین دبیر کو کہیں اور کہا کہ ان کفر آمیز اعتقادوں کو چھوڑ ورنہ ابھی اپنا سر خاک و خون میں غلطاں دیکھے گا۔ اگرچہ بادشاہ کو حسن اعتقاد کی وجہ سے شیخ قطب الدین کی بے ریائی پہلے ہی سے معلوم تھی کہ بہت دفعہ ان کی راسخ اعتقادی اور ثابت قدمی کا امتحان ہوچکا تھا کیونکہ جب بعض شوریدہ بخت بد نصیب جیسے انتسان دبیر اور اس جیسے اور لوگ شیخ قطب الدین دبیر کی ایذا دہی کے لیے سلطان المشائخ کی بابت بے ادبانہ مباحثہ اور گستاخانہ مناظرہ کرتے تو شیخ قطب الدین ان نالائقوں سے بادشاہ کے سامنے بے با کانہ مکابرہ کرتے اور نہایت سخت و کڑوے جواب بے محابا دیتے اور جب وہ قتل و قید کی دھمکی دیتے تو شیخ قطب الدین کہتے زہے سعادت و دولت اگر مجھے حضرت سلطان المشائخ کی محبت میں قتل کر ڈالیں اور میں درجۂ شہادت پاکر جلد تران کی خدمت میں جا حاضر ہوں اور تمہاری اس شک و عار سے رہائی پاؤں۔ خلاصہ یہ کہ آخر عمر تک جب مولانا فخر الدین زرادی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر اس قتال بادشاہ کی مجلس میں ہوتا تو بادشاہ دست حسرت مل کر کہتا۔ افسوس فخر الدین زرادی میری خون آشام تیغ کے نیچے سے جان سلامت لے گئے لیکن واقعۃً بات یہ ہے کہ جس کا دل خدائے بزرگ و برتر کے ساتھ سیدھا ہوتا ہے وہ ہمیشہ حق تعالیٰ کی عصمت و حفاظت میں ہوا کرتا ہے اور اس کے مخالف و دشمن اس پر فتح نہیں پاسکتے۔
مولانا فخر الدین زرادی رحمۃ اللہ کے خانہ کعبہ کی زیارت کو
جانے اور جہاز کے ڈوب جانے اور انتقال فرمانے کا بیان
کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ جب مولانا فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ دیو گیر میں تشریف لے گئے اور سلانی حوض پر فروکش ہوئے تو آپ کو خانہ کعبہ کی زیارت کا شوق دامن گیر ہوا اگرچہ خانہ کعبہ کی زیارت کی نیت اور عزم آپ کے دل مبارک میں بہت پیشتر سے تھا لیکن کوئی موقع نہ ملتا تھا جب آپ دیو گیر پہنچے تو وہ دبا ہوا اشتیاق بھڑک اٹھا۔ ان دنوں میں قاضی کمال الدین صدر جہان جو مولانا فخر الدین ہانسوی کے شاگرد اور بھانجے تھے۔ مولانا فخر الدین زرادی کی خدمت میں بکثرت آمد و رفت رکھتے تھے۔ یہ مولانا فخر الدین ہانسوی مولانا فخر الدین زرادی رحمۃ اللہ علیہ کے بھی استاد تھے اس فرط محبت کے سبب سے جو ان دونوں بزرگوں میں تھی۔ مولانافخر الدین زرادی نے قاضی کمال الدین صدر جہان سے خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے جانے کا مشورہ کیا۔ قاضی کمال الدین نے فرمایا کہ بغیر اجازت بادشاہ کے اتنی دور و دراز سفر کا عزم کرنا خلاف مصلحت ہے کیونکہ اسے اس شہر کی آبادی اس وقت سب سے زیادہ اہم اور مقصود ہے۔ بادشاہ کو منظور ہے کہ یہ شہر علماء مشائخ صدور معارف کے وجود باجود سے اطراف عالم میں مشہور و معروف ہو جائے۔ بہر صورت میں آپ کی اس رائے کہ ساتھ ذرا متفق نہیں ہوں بالخصوص جب کہ بادشاہ آپ کی ایذا دہی کے درپے ہے۔ مولانا فخر الدین زرادی نے یہ جواب سنا تو اپنے مخفی بھید کے ظاہر کرنے سے سخت پشیمان ہوئے۔ اور یہ حکایت کاتب حروف کے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کی والد نے فرمایا کہ مولانا یہ بات اچھی نہیں ہوئی کیونکہ عشق میں مشورہ کی کچھ ضرورت نہیں۔ کوئی بزرگ کہتے ہیں۔
در عشق چہ جائے خانہ داریست
مجنوں شود کوہ گیر و بخروش
(عشق میں خانہ دار کی کوئی جگہ نہیں۔ مجنوں ہونا کوہ و بیاباں قطع کرنا جوش و خروش کرنا چاہیے۔)
مولانا نے فرمایا کہ میں نے قاضی کے اتحاد و محبت پر اعتماد کر کے یہ بھید ظاہر کیا اور اس نے اپنے نزدیک یہ مصلحت دیکھی والد نے فرمایا کہ اگر اس کے بعد قاضی کمال الدین سے ملاقات کا اتفاق ہو تو اس قصد کی بابت کچھ ذکر نہ کرنا اور چند روز کے گذر جانے کے بعد اس کی تدبیر کے انصرام میں مشغول ہو جانا۔ الغرض تھوڑے عرصہ کے بعد مولانا فخر الدین زرادی کے بھتیجے نے جو قصبہ بھیتون میں رہتے تھے۔ مولانا کو اپنے کار خیر کی تقریب میں طلب کیا۔ مولانا بھتیجے کے کار خیر میں شریک ہونے کے بہانے سے قصبہ بھیتون میں تشریف لے گئے اور وہاں جا کر سفر جہاز کا عزم کرلیا اور ادھر روانہ ہونے سے پہلی شب کو عشا کے وقت والد رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لائے۔ والد نے آپ کو دیکھ کر فرمایا شاید آپ کا وہ عزم مصمم ہوگیا ہے فرمایا ہاں یہ فرما کر تھوڑی دیر بیٹھے اور رخصت کے وقت دوتنکہ نقرۂ آپ نے کاتب حروف کے ہاتھ میں دیے اور اس کے دوسرے روز روانہ ہوگئے۔ جب آپ قصبہ بیتہون سے روانہ ہوکر تھانہ پہنچے تو وہاں سے جہاز پر سوار ہونا چاہا۔ جہاز میں سوار ہوتے وقت ایک خط ہارون کی طرف دولت آباد میں روانہ کیا۔ خط کے عنوان میں یہ بیت آپ کے خط مبارک سے لکھی ہوئی تھی۔
ایں نامہ کہ اندوہ و غم سینۂ ماست
اے باد ببر بغمگساران برسان
س
(یہ خط جو ہمارے سینہ کا اندوہ غم ہے اسے اے باد صبا لیجا کر میرے غمگساروں کو پہنچادے۔)
یار آوارگی بسر دارد
رفتن حج بہانہ افتاد ست
(یار کو آوارگی کا خیال ہے حج میں جانے کا صرف بہانہ ہے۔)
غرضیکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ بعافیت و سلامت خانہ کعبہ میں پہنچے اور ارکان حج ادا کیے۔ پھر وہاں سے بغداد کا قصد کیا بزرگان بغداد یعنی علماء و مشائخ چونکہ پہلے ہی سن چکے تھے کہ ایک عدیم المثال اور لا جواب بزرگ تشریف لاتے ہیں۔ سب استقبال کے لیے شہر سے باہر نکلے اور آپ کے خیر مقدم کرنے کو سعادت دارین سمجھا۔ مولانا چند روز تک بغداد میں رہے اور علم حدیث میں خوب خوب بحث ہوئی۔ یہاں تک کہ آپ تمام علماء بغداد سے فائق و افضل ثابت ہوئے۔ وہاں سے لوٹے تو شہر دہلی میں واپس آنے کی غرض سے جہاز پر سوار ہوئے۔ جہاز میں سلطانی اسباب لدا ہوا تھا اور اس کثرت کے ساتھ لدا ہوا جہاز بوجہل ہوکر غرق ہونے لگا۔ جہاز کے افسر مولانا کی خدمت میں آکر عرض کرنے لگے جہاز غرق ہوا چاہتا ہے اگر آپ اجازت دیں تو ہم تھوڑا اسباب نکال کر دریا میں ڈال دیں جہاز ہلکا ہوجائے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ مجھے اور آدمیوں کے اسباب پر کیا تصرف ہے کہ اس کی نسبت کچھ کہہ سکوں یا دریا میں ڈال دینے کا حکم کروں۔ غرضیکہ مصلے بچھائے قبلہ رخ بیٹھے رہے اور جہاز غرق ہوگیا آپ بھی غرق ہوگئے اور مرتبۂ شہادت کو پہنچے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔