مولانا فصیح الدین رحمتہ اللہ علیہ
مولانا فصیح الدین رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
مولانا فصیح الدین عالم علوم دینی صاحب اسرار یقینی کمال علم و فضل اور ورع و تقویٰ سے آراستہ تھے آپ اکثر یاران اعلی سے ارادت و بیعت میں سابق و اول تھے اور سلطان المشائخ کی علمی مجلس میں اکثر سوالات علمی اور عالم حقیقت کے رموزات کا استکشاف کیا کرتے تھے اور شافی جوابوں کے ساتھ مشرف ہوا کرتے تھے متعلمی کے زمانہ میں مولانا فصیح الدین اور مولانا قاضی محی الدین کا شانی دونوں ایک دوسرے کے بہت ساتھ رہے ہیں اور مولانا شمس الدین قوشچہ کی مجلس میں اعلیٰ طبقہ کے طلبا میں علم اصول فقہ کی تحقیق میں شاغل و مصروف رہ کر علماء کے جرگہ میں وفور علم اور ذکائے طبع میں مشہور و معروف تھے۔ جب فضل ربانی اور جذب رحمانی نے مولانا فصیح الدین کے دل میں ایک فوری جوش پیدا کیا تو آپ نے راہ حقیقت کو طے کرنا شروع کیا اور اس راہ میں نہایت کوشش کے ساتھ گام زن ہوئے اور علم کو عمل کے ساتھ مقرون کرنے کی خواہش دل میں پیدا ہوئی آپ نے فوراً عزلت و گوشہ نشینی اختیار کی اور جو برائے نام تعلق اور کچھ یوں ہی سا دنیا سے لگاؤ اور سلطان غیاث الدین بلبن کے فرزندوں کی تعلیم کا کام تھا سب کو یک لخت ترک کردیا اگرچہ سلطان کے فرزندوں کی تعلیم کا تعلق آپ کے اہل و عیال اور بچوں کے ضروری خرچ اور قوت لا یموت کا سبب تھا مگر آپ نے اس کی بھی کچھ پروانہ کی اور خداوند تعالیٰ کی کرم و بخشش پر نظر کرکے ترک کردیا اس پر مولانا کے فرزند مزاحم ہوئے اور کہا کہ جب آپ نے سلطان کے فرزندوں کی تعلیم کا تعلق ترک کردیا تو اب ہماری قوت کا سامان کہاں سے میسر ہوگا کیا آپ کے مصلے کے نیچے سے کچھ پیدا ہوا کرے گا۔ غرضکہ مولانا نے چند روز اسی حالت میں بسر کئے آپ کا ایک دوست تھا جب اسے آپ کے اس ترک و تجرید کی خبر ہوئی تو چند تنکہ لایا اور مولانا کے مصلے کے نیچے رکھ کر چلا گیا۔ مولانا نے اپنی حرم محترم کو بلا کر فرمایا کہ مصلے کے نیچے جو چیز رکھی ہے اسے اٹھالو اور بچوں کے ضروری مصارف کا سامان مہیا کرو۔ جب آپ کا یہ حال قاضی محی الدین کاشانی کو معلوم ہوا تو وہ آپ کی ملاقات کو تشریف لائے اور آپ کی ترک و تجرید اور مشغول بحق ہونے کی کیفیت معلوم کر کے واپس تشریف لے گئے اس کے چند روز بعد مولانا فصیح الدین قاضی محی الدین کاشانی کی زیارت کو تشریف لے گئے ملاقات اور معمولی مزاج پرسی کے بعد قاضی محی الدین نے فرمایا کہ میں سلوک مشائخ میں ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا اس میں میں نے پڑھا کہ جس روز قیامت برپا ہوگی جس کے آنے میں ذرا شک نہیں اور جس کے وقوع پر ہمارا ایمان ہے اور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ خلائق میں سے ہر شخص بزرگان دین میں سے ایک ایسے بزرگ کے جھنڈے کے تلے ہوگا جس کے ساتھ دنیا میں اس نے پیوند کیا ہوگا فوراً میرے دل میں گزرا کہ میں بھی بزرگان دین میں سےکسی بزرگ کا ہاتھ پکڑوں اور اپنی اخروی سعادت کو اس کی حمایت میں ڈالوں اب ہم کو واجب ہے کہ بزرگانِ دین میں سے کسی بزرگ کی طلب و تلاش میں نکلیں اور اس کی خدمت میں بیعت کریں۔ اس زمانہ میں سو بزرگوں سے زیادہ صاحب دعوت اور ذی ارشاد موجود تھے جو وفور علم اور فضل و کرامات کے ساتھ مشہور و معروف تھے۔ یہ دونوں بزرگ اس اندیشہ اور کوشش میں ہوئے کہ کس بزرگ کا مرید ہونا چاہیے اسی اثناء میں ان کے دلوں میں یہ خطرہ گزرا کہ یہاں ایک سید موجود ہیں نہایت بزرگ اور مشائخ کی صحبت پائے ہیں دونوں بزرگوں نے کہا کہ سید کے پاس چلنا اور ان سے دریافت کرنا چاہیے پھر جس کی نسبت وہ اشارہ کریں اس سے بیعت کریں چنانچہ وہ دونوں بزرگوار سید کی خدمت میں پہنچے اور اپنی کیفیت ان کی جناب میں عرض کی انہوں نے فرمایا کہ یہاں شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے خلیفہ سلطان المشائخ نظام الحق والدین قدس اللہ سرہم العزیز موجود ہیں جو وفور علم اور کمال عمل اور عشق و عقل اور ذوق شوق سے آراستہ ہیں ان کی خدمت ہیں بیعت کرنی چاہیے اس زمانہ میں سلطان المشائخ نے غیاث پور میں آکر سکونت اختیار کی تھی یہ دونوں بزرگ غیاث پور میں آئے جب سلطان المشائخ کی سعادت قدم بوسی اور شرف مکالمہ سے مشرف ہوئے تو آپ کی خدمت میں بیعت کی درخواست کی سلطان المشائخ نے اسی وقت قاضی محی الدین کاشانی کے ہاتھ میں دست بیعت دیا اور مولانا فصیح الدین سے فرمایا کہ تمہارے باب میں شیخ شیوخ العالم سے دریافت کروں گا۔ مولانا فصیح الدین کہتے ہیں کہ بمجرد اس بات کے سننے کے میں دریائے تحیر میں مستغرق ہوگیا کہ شیخ شیوخ العالم رحمت حق سے مل چکے ہیں۔ سلطان المشائخ ان سے کیونکر دریافت کریں گے یہ خطرہ میرے دل میں گزرا اور زبان سے کچھ ظاہر نہیں کیا۔ الغرض یہ دونوں بزرگ سلطان المشائخ کی زمین بوسی کے بعد واپس چلے آئے جب دوسری دفعہ آپ کے حضور میں حاضر ہوئے تو سلطان المشائخ نے مولانا فصیح الدین کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ میں نے تمہاری کیفیت شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں عرض کی اور اس نے درجۂ قبولیت پایا سو اب تم بیعت کرو۔ جب مولانا دولتِ بیعت سے مشرف ہوگئے تو سلطان المشائخ سے دریافت کیا کہ مخدوم عرصہ ہوا کہ شیخ شیوخ العالم دار فانی سے انتقال کر کے دالبقاء میں تشریف لے گئے مخدوم نے میری نسبت کس سے دریافت کیا۔ فرمایا جس کام میں مجھے تردد پیش آتا ہے میں شیخ شیوخ العالم سے اس کی بابت دریافت کر لیتا ہوں اور حضور کے ارشاد کے مطابق عملدر آمد کرتا ہوں الغرض مولانا فصیح الدین بے شمار فضائل اور عبادت و زہادت اور بہت سے لطائف کے ساتھ آراستہ تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ سلطان المشائخ کی حیات ہی میں مجاز ہوگئے تھے یعنی آپ کی اجازت سے لوگوں سے بیعت لیتے تھے اور آپ کی حیات میں انتقال کر گئے۔ رحمۃاللہ علیہ۔