استاذ الا فاضل ، عارف کامل حضرت مولانا فتح محمد ابن سجاول خاں ابن تبر یز خاں بمقام موضع حبیب کے ، بہاول نگر ۱۳۰۴ھ؍۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد زاعت پیشہ اور وٹو خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے مولانا سلطان محمود (بیراں بدھی ضلع حصار) ،مولانا سلطان محمود افغانی ، مولانا سلطان محمود مدرس مدرسہ فتح پوری دہلی اور اجمیر شریف مدرسہ معینیہ میں مولانا علماہ مدین الدین اجمیری سے علوم کی تحصیل کی حدیث شریف مدرسہ عبد الرب دہلی میں مولانا عبد العلی محدث پڑھی، ۲۴؍ذوالقعدہ المبارکہ ، (۱۳۳۰ھ؍۱۹۱۲ئ) کو تمام علوم کی تحصیل سے فارغ ہوئے۔
حضرت خواجہ غلام رسول توگیروی کے خلیفۂ مجاز حضرت خواجہ عبد الحلیم (حویلی لکھا ،ضلع ساہیوال ) سے بیعت ہوئے اور سلسلۂ چشتیہ نظامیہ میں خلافت سے شرف ہوئے ۔ایک عرصہ تک صادق گنج بہاول نگر میں درس دیا ، چار سال موضع جموں و چھل ضلع ساہیوال ، پچیس ۲۵ سال گھمنڈ پور ضلع بہاول نگر ، دو سال پیپل خلصانہ ، بہاولنگرمیں پڑھاتے رہے ، غالباً ۱۳۶۰ھ میں مدرسہ مفتاح العلوم ، بہاولنگر کی بنیاد رکھی اور تاحیات علم و عرفان کے دریا بہائے[1]آپ کے مریدن دس ہزار کے قریب بتائے جاتے ہیں ، بے شمار علماء آپ سے فیض یاب ہوئے چند اسماء مشاہیر یہ ہیں :۔
۱۔ فقیہ عصر مولانا ابو الخیر محمدی نور اللہ نعیمی مدظلہ العالی شیخ الحدیث دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور ۔
۲۔ مولانا غلام مہر علی ، مصنف دیوبندی مذہب ، چشتیاں شریف۔
۳۔ مولانا جلال الدین ، جیون شاہ
۴۔ مولانا عبد الحق ، حصار
۵۔ مولانا اسمٰعیل دیوبندی بہاولنگری ۔
۶۔ مولانا سید سردار علی شاہ ، بھلوکا۔
۷۔ مولانا محمد اکبر علی محمود پوری۔
۸۔ مولانا عبد الحمید ، وغیرہم
مولانا پنجابی ، عربی اور فارسی میں شعر کہتے تھے ،آپ کی تصانیف میں سے ’’ادب در و حدت وجود و حدیت شہود‘‘ کا پتہ چلتا ہے یہ کتاب ابھی تک طبع نہیں ہو سکی ، مولانا فرمایا کرتے تھے،یہ کتاب میری زندگی کا ذخیرہ ہے ۔حضرت مولانا الحاج میاں علی محمد خاں رحمہ اللہ تعلایٰ سجادہ نشین بسی شریف سے مولانا مرحوم کے مخلصانہ مراسم تھے اور حضرت میاں صاحب مولانا صاحب کی بے حد عزت و تکریم کرتے تھے۔مولانا ہر سال لسی نو (ضلع ہوشیار پور ) میں حضرت میاں محمد شاہ علیہ الرحمہ کے عرس پر جایا کرتے تھے۔
ماہ رمضان المبارک بروز بدھ ۰ دسمبر(۱۳۸۹ھ؍۱۹۶۹ء) ساڑھے آٹھ بجے صبح آپ کا وصال ہوا ۔ آپ کا مزار مبارک بہا ولنگر سوڈ البستی میں مرجع خلائق ہے[2]
[1] غلام مہر علی ،مولان: الیواقیت ص ۱۰۶
[2] مکتوب جناب حافظ منظور احمد بن حضرت مولانا خواجہ فتح محمد (بہاولنگر) بنام راقم ، محرہ یکم اگست ۱۹۷۲ء
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)