عارف کامل حضرت علامہ مولانا غلام دستگیر قصوری
عارف کامل حضرت علامہ مولانا غلام دستگیر قصوری (تذکرہ / سوانح)
عارف کامل حضرت علامہ مولانا غلام دستگیر قصوری قدس سرہ
مولانا دستگیر ہاشمی قریشی صدیقی ابن مولانا حسن بخش صدیقی محلہ چلہ بیبیاں ادرون موچی دروازہ ،لاہور میں پیدا ہوئے اور حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو کر علوم و معارف کے دریاد امن مراد میںسمیٹے ۔ مولانا غلام دستگیر کو حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری کا شاگرد ،خواہر زادہ ، داما، مرید با صفا اور خلیفہ ہونے کا شرف حاصل تھا۔۱۸۹۰ء میںحج و زیارت سے مشرف ہوئے تبلیغ اسلام اور مخالفین اسلام کی سر کوبی میںآپ کے خدمات نا قابل فراموش ہیں، بر صغیر پاک و ہند میں کوء مناظر آپ کا ہمسر نہ تھا۔ مناظرئہ بہاولپور وہ یادگار مناظرہ ہے جس میںآپ کو مولوی خلیل احمد انبھیٹوی کے مقابلہ میں زبر دست کامیابی ہوئی۔
یہ تاریخی مناظرہ ماہ شوال ۱۳۰۶ھ میں براہین قاطعہ ( مؤلفہ مولوی خلیل احمد انبھیٹوی) کی گستا خانہ عبارات پر ہوا تھا جس کے حکم نوا محمد صادق عباسی ، والی ، بہاول پور کے پیر مرشد شیخ المشائخ حضرت خواجہ غلام فرید قدس سرہٗ چا چڑاں شریف ، تھے۔ حکم مناظرہ نے لکھ دیا کہ دیوبندی علماء کے عقائد ان وہابی علماء سے ملتے ہیں جو برصغیر میں خلفشار کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ اس فیصلے کے بعد نواب صاحب مرحوم نے مولوی خلیل احمد کو ریاست سے نکل جانے کا حکم صادر فرمادیا۔
اس مناظرہ کی ردئیداد تقدیس الوکیل کے نام سے چھپ چکی ہے جس کے آکر میںعلماء حرمین طیبین کی تصدیقات ثبت ہیں ، شیخ الدلائل حضرت مولانا عبد الحق مہاجر مکی اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہما نے بھی حضرت مولانا غلام دستگیر۔قصوری کی تائید فرمائی۔
حضرت مولانا رحمہ اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالیٰ بانی مدرسہ صولتیہ نے بھی تقدیس الوکیل پر شادار تقریظ میںفرمایا:
’’میں جناب مولوی رشید احمد کو رشید سمجھتا تھا ،مگر میرے گمان کے خلاف کچھ اور ہی نکلے[1]۔‘‘
سلسلۂ نقشبندیہ میں ہزارہا افراد آپ کے دست اقدس پربیعت ہوئے ، آپ نے تمام عمر تبلیغ و تلقین میں صرف فرمائی ، فرق باطلہ اور مذاہب فاسدہکی تردید میں متدد محققانہ کتابیں لکھیں اور شائع کر کے مفت تقسیم کیں۔ چند تصانیف کے نام یہ ہیں:
۱۔ مخرج عقائد نوری بجواب نعمۂ طنبوری ، رد عیسائیت میں ۔
۲۔ رجم الشاطین برا غلوطات البراہین۔
۳۔ تحقیقات دستگیر یہ فی رد ہفوات براہنیہ۔
۴۔ فتح الرحمانی بہ دفع کید قادیانی ، مرزائیت کے رد میں۔
۵۔ جواہر مصنیہ ، نیچر یہ کے رد میں۔
۶۔ ہدیۃ الشیعتین ، روافض اور خوارج کے رد میں۔
۸۔ عمدۃ البیان فی اعلان مناقب النعمان۔
۹۔ تحفۂ دستگیر یہ بجواب اثنا عشریہ۔
۱۰۔ عروۃ المقلدین۔
۱۱۔ ظفر المقلدین۔
۱۲۔ نصرۃ الا برار۔
۱۳۔ ابحاث فرید کوٹ۔
۱۴۔ تحقیق صلوٰۃ الجمعہ
۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء میں آپ کا وصال ہوا اور قصور کے مشہور قبرستان میں آپ کی آخری آرام گاہ بنی[2]
حضرت مولانا نبی بخش حلوائی قدس سرہ (مصنف تفسیر نبوی ) نے آپ تاریخ وصال رقم فرمائی ؎
بعد ازثنا رب العلیٰ،صلوات بر خیر الویٰ
بر عز تش اہل صفا از دل بگویم صد دعا
اے قبلہ ام عالی جناب اے مرشد م ال صواب
داری بسا چوں آفتاب حسن وضیاء نزد خدا
منظور حق مقبول بودی تو اے صاحب و قر
نافع خلائق بس شدی گم گشتگاں را رہنما
در خلو و ھلم و علم و عمر اخلاص گشتی بے نظیر
عقل و کاء فہم رسا مید اشتی اے پار سا
دریائے فیضان فقر جاری نمودی چار سو
محمود در خلق خدا بستی تو اے صاحب صفا
حامی شدی دین متیں قامع ضلالت بالیقیں
عامل بستنت شاہ دیں اے معدن جو دو سخا
شبلی زمان خود شدی جنید اندر وقت خود
شام و سحر ظہر و عصر مشغول در ذکر خدا
صلوات بر شاہ عرب از جان و دل درروز شب
خواندی مدام از صد ادب اے صاحب عرفان خدا
اے صاحب نوری نظر اے مرشد عالی قدر
بر طالبان خود نگر از مہر و الطاف و عطا
تاریخ آں پیر ہدیٰ گفتہ سروش خوش نوا
غفرلہ اے مہ لقا نغمہ سراشد ہر کجا
اے ملجأ وماوائے مابنگر بہ حلائیؔ گدا
در ہر قصص ہر ماجرا امدولہٗ اے مقتدا
[1] تقدیس الوکیل ، مطبوعہ بکڈ پو لاہر ، ص ۴۱۵
[2] اقبال احمد فاروقی ، پر زادہ ، تقدیس الوکیل عن توہین الرشید الخلیل (تعارف مصنف) مطبوعہ نوری بکڈ پو لاہور
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)