مولانا غلام محمد خانزئی
مولانا غلام محمد خانزئی (تذکرہ / سوانح)
عالم، ادیب و عارف حضرت مولانا غلام محمد بن خان محمد خانزئی غالباً خان زئی خاندان بلوچوں کے بروہی قبیلہ کی شاخ ہے۔ آپ ایک اندازے کے مطابق ۱۲۵۰ھ میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
غلام محمد بڑے ذہین و ذکی حافظہ کے مالک تھے۔ ابتدائی تعلیم مسجد شریف کے مکتب سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم چوٹیاری کی مشہور دینی درسگاہ (تحصیل سانگھڑ) سے حاصل کی۔ مولاناغلام محمد پر جو سب سے زیادہ استاد مہربان تھے ،وہ اس درسگاہ کے استاد مخدوم عبدالحکیم تھے جو کہ اپنے وقت کے بڑے عالم فاضل اور فقیہ تھے۔ انہوں نے ایک رسالہ ’’نجوم الھدی فی آخر الظہر‘‘ تصنیف فرمایا۔ مولانا غلام محدم اسی درسگاہ سے درسی نصٓب مکمل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت و خلافت:
مولانا غلام محدم کا پورا خاندان ، عارف باللہ، سلطان العارفین، غوث الزمان حضرت خواجہ سید محدم رشید الدین شاہ راشدی المعروف پیر صٓحب بیعت دھنی قدس سرہ الاقدس (رحلت ۱۳۱۷ھ) کے حلقہ ارادت میں تھا۔ مولانا صاحب نے بھی دوران تعلیم حضرت پیر صاحب کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہو کر روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی اور آگے جاکر سلوک طے کر کے روحانیت میں اعلیٰ مقام پایا۔
آپ کو اپنے پیر و مرشد سے نہایت عقیدت و محبت تھی اور اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ آپ نے حضرت پیر صاحب کی شان میں منقبت کہی جو کہ ’’رسالو غلام محمدخان زئی‘‘ میں درج ہے۔
درس و تدریس:
ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ صاحب رقمطراز ہیں: ’’مولانا غلام محمد صاحب چوٹیاری کی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک عالم و استاد کی حٰثیت سے درس و تدریس کا مشغلہ جاری رکھا، افسوس ہے کہ آپ کے تفصیلی حالات دستیاب نہ ہوسکے۔‘‘
شاعری:
تصوف آپ کا پسندیدہ موضوع تھا آپ نے اپنے پیر و مرشد سے تصوف کی اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کی تھی اس لئے تصوف میں گہری دسترس رکھتے تھے۔ تصوف کے باریک مسائل کو تفصیل و تشریح سے آسان بیان کرنا آپ کا خاصہ تھا۔ عارف کامل ، نامور صوفی شاعر حضرت سید شاہ عبداللطیف بھٹائی قادری قدس سرہ الاقدس کے عارفانہ کلام پر مشتمل ’’شاہ جو رسالو‘‘ کاگہری نظر سے نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ اکثر کلام برزبان تھا۔ ان کی عارفانہ شخصیت سے بہت متاثر تھے ، بہترین شارح اور اسی انداز میں اپنا رسالہ ترتیب دیا جو کہ ’’رسالو غلام محمد خان زئی‘‘ کے نام سے ڈاکٹر بلوچ کے مقدمہ کے ساتھ چھپ چکا ہے۔ اس طرح آپ ’’ثانی بھٹائی‘‘ ثابت ہوئے۔ آپ نے سندھی و فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی، سندھی میں شعر کافی اور نظم اور فارسی میں غزل کہے ہیں۔ اپنے شفیق استاد علامہ عبدالحکیم کے امر سے ’’مناصح المومنین‘‘ نامی کتاب منظوم تحریر فرمائی۔
تصنیف و تالیف:
آپ نے انسانیت کی ہادیت اور آخرت کی فلاح و کامرانی کیلئے نثر و نظم میں کافی کتابیں تصنیف فرمائی ، لیکن ناقدری ، غفلت اور اپنوں کی لا پرواہی کے سبب اکثر قلمی کتابیں دستیاب نہ ہوسکیں اور اسی طرح آپ کے تفصیلی حالات بھی نہ مل سکے۔ بعض کتابوں سے متعلق جو معلومات دستیاب ہوئی ہیں وہ یوں ہیں:
٭ رسالو غلام محمد خانزئی: یہ نظم میں ضخیم کتاب ہے جس میں عارفانہ و صوفیانہ کلام ہے اس کے مطالعہ سے آپ کا ’’ثانی بھٹائی‘‘ ہونا درست ثابت ہوتا ہے۔
٭ مناصح المومنین: استاد محترم کی فرمائش پر مثنوی کے قالب میں ایک ضخیم کتاب سندھی نظم میں تیار کی جو کہ ۵۴۴ سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔
٭ منہاج العاشقین: اپنے پیر و مرش د کے حکم سے پہلے فارسی نثر میں تحریر فرمائی۔ مقد مہ میں حضرت پیر صاحب کے حکم کو بیان کیا ہے:
’’بموجب فرمودہ عظامی حضرت بابرکت جناب والا شان قدسی نشان فیاض زمان پیر صاحب ذی العلم اند کہ بیان بموجب مقصورہ فہم خویش بقلم آور دہ شد…‘‘
اور اختتام پر بتاریخ یوں درج کی ہے …’’از دست غلام محمد مصنف ایں رسالہ بتاریخ ۲۱، ماہ محرم ۱۳۰۲ھ‘‘ بعد میں اس کتاب کا خود ہی سندھی میں ترجمہ کیا۔ اس میں ’’شاہ جو رسالو‘‘ اور دیگر صوفیانہ سندھی ادبیات (اشعار) میں جو کردار مذکور ہیں ان کے متعلق تصوف کی روشنی میں تمثیلی معنی واضھ کی اور ان ابیات میں انسان کیلئے جو راز پوشیدہ ہیں ان کو عیاں و واضح کیا۔
پروفیسر بشیر احمد شادؔ نے ’’عرفان لطیف‘‘ میں ’’منہاج العاشقین‘‘ سے کافی مدد لی ہے بلکہ رسالہ کو آسان کرکے عرفان لطیف میں شامل کیا ہے ۔ ایک مقام پر رقمطراز ہیں:
’’ساہڑ سے مراد ’’مطلوب‘‘ سہنی سے مطلب ’’طالب‘‘ ہے دم سے مراد ’’نفس امارہ‘‘ ہے دریا سے مطلب ’’شریعت کی راہ‘‘ اور دو کناروں سے مراد دنیا و آخرت ہے۔
(منہاج العاشقین، بحوالہ عرفان لطیف ص۳۶)
وصال:
حضرت مولانا غلام محدم خان زئی کا ایک اندازے کے مطابق ۱۳۲۰ھ تا ۱۳۳۰ھ (۱۹۰۴ء تا ۱۹۱۴ئ) تک کسی سال میں انتقال ہوا۔ مزید معلومات نہ ہوسکی کہ ولادت و وصال کس گوٹھ میں ہوا مزار کس مقام پر ہے اور وصال کا یقنی سن کونسا ہے؟
(ماخوذ: رسالو غلام محمد خانزئی جو تصحیح و مقدمہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ، مطبوعہ شاہ عبداللطیف ، بھٹ شاہ ثقافتی مرکز بھٹ شاہ ۱۹۸۵ئ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)