مولانا غلام محمد بن حضرت مفتی محمد عبداللہ نعیمی ۱۹، ستمبر ۱۹۵۷ء کو داوٗ د گوٹھ ملیر سٹی میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
مکتب سے قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی اور ۱۹۷۰ء میں غازی بروہی پرائمری اسکول داوٗ د گوٹھ سے پانچویں جماعت پاس کی ۔ اس کے بعد درس نظامی کی تعلیم اپنے والد ماجد مفتی محمد عبداللہ نعیمی سے شروع کی، تفسیر جلالین مشکوۃ شریف اور شرح جامی تک کتب بالمشافہ اپنے والد صاحب سے ہی پڑھیں ۔ ابھی تعلیم جاری تھی کہ ۱۹۸۲ء میں مفتی صاحب کا ایک حادثہ میں انتقال ہو گیا، بقیہ کتب حضرت مفتی محمد نعیمی صاحب سے پڑھ کر ۱۹۸۶ء میں سند الفراغ حاصل کی۔ ۱۹۸۷ء میں ایم اے سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا۔
سفر حج :
۱۹۸۶ء میں اپنے استاد محترم مفتی محمد احمد نعیمی کی رفاقت میں حج اور زیارت حرمین شریفین کی سعادت حاصل کی۔ پہلے مسقط و عمان تبلیغ کے لئے گئے وہیں سے سفر حج پرروانہ ہو گئے ۔
تصنیف و تالیف :
زمانہ طالب علمی میں آپ نے عربی ادب سے حکایات کا انتخاب کیا اور اس کا اردو ترجمہ کر کے ’’عمدۃ المقالات ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔
خدمات:
اپنے والد ماجد کے بعد مولانا غلام محمد نعیمی دارالعلوم مجددیہ نعیمیہ ملیر کے مہتمم مقرر ہوئے آپ نے سب سے پہلے مدرسہ کے انتظام نظم و ضبط پر توجہ دی ، طلباء سے شفقت سے پیش آتے ان کے دکھ سکھ کو سمجھتے ان کی اخلاقی قدروں پر خاص توجہ مرکوز فرماتے ۔ دارالعلوم کی تعمیر و توسیع کے عظیم الشان کام کا بیڑا اٹھایا اور محنت و مشقت سے ایک پر شکوہ عمارت تعمیر کرائی، مسلک حقہ اہل سنت کی تبلیغ و اشاعت کے لئے دارالعلوم میں ’’مکتبہ مجددیہ نعیمیہ ‘‘قائم فرمایا جہاں سے اشاعت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ آپ نے ۱۹۸۴ء میں دارالعلوم میں ’’دورہ علم میراث ‘‘ کا اہتمام کیا جس کے تدریس کے فرائض انجام دینے کے لئے دادو سندھ سے مولانا مفتی احمد میاں جی صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں ۔
۱۹۸۶ء میں دارالعلوم میں دورہ تفسیر قرآن کا اہتمام و انصرام کیا۔ تدریس کے لئے ملک کے سایہ ناز عالم دین شیخ القرآن حضرت علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی مدظلہ العالی ( بہاولپور ) کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ چالیس ایا م میں مکمل دورہ تفسیر قرآن کرایا۔ اس میں تقریبا تین سو علماء ائمہ و خطباء و حفاظ حضرات شریک ہو کر مستفیض ہوئے اور بعد میں اسناد بھی تقسیم کی گئیں ۔
اس کے علاوہ مولانا غلام محمد نعیمی خطاب بھی پر مغز فرماتے تھے، دین کی تبلیغ کے لئے دور دراز علاقوں ، گوٹھوں میں وعظ کیلئے جاتے تھے، پیغام حق و صداقت گھر گھر پہنچانے کا عزم مصمم رکھتے تھے، اہل سنت وجماعت کے نڈر سپاہی تھے، اہل سنت و جماعت کی ترقی و ترویج کیلئے ہر وقت کوشش فرماتے رہتے تھے۔
وصال:
مولانا غلام محمد سے زندگی نے وفا نہ کی جوانی میں ۴ ، دسمبر ۱۹۸۷ء بروز جمعہ تیس سال کی عمر میں ظالموں کی گولیوں کا نشانہ بنے ، زخمی حالت میں جناح ہسپتال پہنچایا گیا جہاں زخموں کی تاب نہ لا کر انتقال کیا۔ بعد نماز عصر محفوظ اسٹیڈیم ( برف خانہ ) ملیر میں مفتی محمد جان نعیمی نے نماز جنازہ کے فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد دعا مغفرت علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے فرمائی ۔ مولانا غلام محمد کو دارالعلوم مجددیہ نعیمیہ صاحبداد گوٹھ ملیر کراچی میں اپنے والد ماجد کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
(ماخوذ: مفتی غلام محمد نعیمی پولیس کے ہاتھوں قتل کیوں ؟مطبوعہ دارالعلوم مجددیہ نعیمیہ ملیر ۱۹۸۷ء )
(انوارِ علماءِ اہلسنت )