عارف کامل حضرت مولانا غلام مرتضی
عارف کامل حضرت مولانا غلام مرتضی (تذکرہ / سوانح)
عارف کامل حضرت مولانا غلام مرتضیٰ قدس سرہ (بیربل شریف)
قدوۃ السالکین ، امام المتقین حضرت مولانا غلامرتضیٰ قدس سرہ ۱۲۵۱ھ؍ ۱۸۳۵ء میں بیر بل شریف( ضلع سرگودھا ) میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا خانوادہ کئی پشتوں سے علم و عرفان کا شر چشمہ چلا آرہا تھا۔آپ کی ولادت سے پہلے ہی ایک مرد کامل نے آپ کے والد ماجد کو بلند مرتبہ فرزند پیدا ہونے کی بشارت دی تھی۔ ابھی آپ کی عمر تیرہ برس ہی تھی کہ والد ماجد کا سایۂ عاطفت سر سے اٹھا گیا اس عرصے میں آپ قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد درسی ابتدائی کتب پڑھ چکے تھے ۔والد گرامی کے وصال کے بعد علم دین کا شوق کئی جگہ لے گیالیکن کہیں بھی سکون قلب و نظر کا سامان مہیا نہ ہو سکا با لآخر مولانا غلام نی للہی (للہ شرف ضلع جہلم ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پویر دلجمعی سے تھوڑے ہی عرصہ میں تمام کتب متد والہ کی تحصیل و تکمیل کرلی اور ۱۸ سال کی عمر میںدستار فضیلت حاصل کرکے آباء واجداد کی مسند تدریس پر جلوہ گر ہوئے اور مشا قان علوم کو سیراب کرنا شروع کیا ۔
دور طالب علمی میںحضرت مولانا شاہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری قدس سرہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور خلافت واجازت سے مشرف ہوئے۔
جب آپ نے مسند تدریس کو رونق بخشی تو جلد ہی تشنگان علوم کی بہت بری تعداد آپ کے گرو جمع ہو گئی ، کثرت طلباء کے با وجود آپ کبھی ملال نہ فرماتے ۔ علمی نوادارت فراہم کرنے کا اس قدر اشتیاق تھا کہ جہاںکہیں کسی نایاب کتاب کی اطلاع ملتی تو اسے حاصل کرنے کی ہرممکن کوشش فرماتے کبھی کسی سے بطور امتحان کوئی سوال کرتے کہ وہ خاموش ہو جاتا اور آپ کے تجر علمی کا اعتراف کرتا ۔ با وجود جلالت علمی اور علو مرتبت کے تواضع اور انکسار کا یہ عالم تھا کہ اپنے لئے کبھی جمع کا صیغہ استعمال نہ فرماتے ،توکل اور قناعت میں اپنی مثال آپ تھے طلباء اور خدام پر خاص مہربانی فرماتے ، جو کچھ آتا غرباء اور مساکین میں تقسیم فرمادیتے ، روزانہ سینکڑوں حاجت مند حاضر ہوتے مگر کسی کو خالی ہاتھ نہ لوٹا تے،اگر کسی وقت کچھ پاس نہ ہوتا تو دوسرے وقت آنے کی ہدایت فرماتے ، رات کو بہت کم سوتے تھے،اکثر فرش پر بستر بچھا کر آرام فرماتے ، نماز تہجد کے لئے خاص اہتمام فرماتے اور اگر کادم موجود نہ ہوتا تو خود پانی نکال کر وضو اور غسل کرتے۔
آپ نے رشد و ہدایت اور تبلیغ دینکا مشن پوری قوت و ہمت سے جاری رکھا، بدعات اور غیر شرعی رسوم کے انسداد کے لئے بھر پور جہاد کیا اور بے شمار خلق خدا کو راہ راست دکھائی ، کسی شخص نے پوچھا کہ بد مذہب مثلاً وہابی ، نیچری اور رافضی کی صحبت بیٹھنا چاہئے یا نہیں؟فرمایا:۔
’’ہر گز نہ بیٹھنا چاہئے ‘‘ پھر یہ شعر پڑھا ؎
صحبت بدراہ تبہ می کند دیگ سیہ جامعہ سید می کند
مسائل نے پھر پوچھا : ’’کیا صرف پا س بیٹھنے سے بھی اثر ہو جاتا ہے؟‘‘
فرمایا : ’’کیا آگ کے پاس بیٹھنے سے اثر نہیں ہوتا؟[1]‘‘ان گنت خوش نصیب آپ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور کثیر التعداد با کمال حضرات خلافت و اجازت اور شرف تلمذ سے سر فراز ہوئے۔
حضرت مولانا غلام مرتضیٰ قدس سرہ اپن دور کے نامور فاضل حضر ت مولانا غلام محی الدین قصوری دائم الحضور ی رحمہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر خلیفۂ مجاز او ر صاحب کرامت بزرگ تھے ، ایک دفعہ آپ کسی عقیدت مند کے پاس تشریف لے گئے، چند روز قیام فرمایا لیکن نماز فجر سے پہلے جب آپ عبادت و ریاضت میں مشغول ہوتے تو ایک مشرک کے ناقوس بجانے سے سخت تکلیف ہوتی،ایک دن باہر تشریف لیجاتے ہوئے بت کدہ کے پاس سے گزر ہوا ۔ آپ نے ایک مخلص سے پوچھا صبح کے وقت ناقوس کون بجا یا کرتا ہے؟ خادم نے بتکدہ میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔ آپ نے اس پر ایک جلالی نگاہ ڈالی اور فرمایا:
’’انشاء اللہ تعالیٰ پھر ناقوس نہیں بجائیگا‘‘ چنانچہ وہ شخص اسی روز بیمار ہو اور ناقوس بجانے کے وقت سے پہلے ہی چل بسا۔
آپ سال میں دو عرس کرتے تھے اور فرماتے تھے،یہ تمام عرسوں کے سردار ہیں، ایک عرس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ۱۲ ؍ربیع الاول دوسرا معراج شریف کے موقع پر ۲۷؍ رجب المرجب کو ، ان دنوں مواقع پر خلق خدا اکثرت سے جمع ہوتی ، تمام شب وعظ و تقریر کا سلسلہ جاری رہتا اور کوئی غیر شرعی رسم دیکھنے میں نہ آتی ۔ آپ کا معمول یہ تھا کہ نماز فجر کے بعد ختم امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ پڑھتے پھر مراقبہ فرماتے ، حاضرین اور خدام تو جہات اور فیض باطنی سے مستفیض ہوئے۔
آپ نے تالیف و تصنیف کی طرف بھی خاص توجہ فرمائی اور متدد بلند پایہ تصنیف کا ذخیرہ یادگار چھوڑ ا ، چند تصانیف کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ رسالہ مختصر نزہۃ الناظرین مع شرح روض الریا حین۔
۲۔ مصباح الدجٰی اور اس کی شرحشمس الضحیٰ (علم حدیث میں بلند مرتبہ کتاب)
۳۔ تحفۃ العارفین وہدیۃ السالکین ۔
۴۔ تذکرۃ المحصنات ، معراج نامہ (عربی)
۵۔ رسائل در فضائل رمضان وعیدن
ان کے علاوہ متعدد رسائل لکھے اور کئی کتابوں پر حواشی لکھے، آپ کے بے شمار فتاوی یکجا کیا جاتا تو ضخیم فتاویٰ تیار ہو جاتا۔
۱۵؍ رجب، ۸؍اکتوبر (۱۳۲۱ھ؍۱۹۰۳ئ) کو غروب آفتاب سے کچھ قبل آپ کا وصال ہوا ،نماز جنازہ مولانا عبد الرسول رحمہ اللہ تعالیٰ سجادہ نشین للہ شریف نے پڑھائی[2] حضرت مولانا صاحبزادہ محمد عمر (بیر بل شریف ) آپ کے پوتے اور سجادہ نشین اور جید فاضل تھے جن کی وفات ماضٔی قریب میں ہوئی ہے۔
[1] عبد الرسول ، مولانا: انوار مر تضوی ، ص ۶۵
[2] شبیر احمد شاہ ، سید صاحبزادہ : انوار محی الدین ، ص ۲۴۹۔ ۲۵۹
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)