مولانا غلام رسول جتوئی
مولانا غلام رسول جتوئی (تذکرہ / سوانح)
نامور عالم ، ادیب و شاعر حضرت مولانا غلام رسول جتوئی بن رئیس بہاول خان جتوئی ۱۲۸۷ھ/۱۸۷۰ء کو گوٹھ محراب پور (تحصیل ڈوکری ضلع لاڑکانہ) میں تولد ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد اصل میں بلوچستان کے باسی تھے۔ وہاں سے دو بھائی خیرو خان اور سلطان خان منتقل ہو کر سندھ میں آباد ہوئے۔ سلطان خان کی اولاد میں سے محراب پور کے جتوئی ہیں۔
تعلیم و تربیت:
مولانا غلام رسول نے ابتدائی تعلیم محراب پور میں مولانا عبداللہ کیریو سے حاصل کی۔ اس کے بعد سندھ کی نامور دینی درسگاہ مدرسہ دارالفیض گوٹھ سونہ جتوئی (تحصیل ڈوکری) میں سراج الفقہا استاد الاساتذہ حضرت علامہ مفتی غلام عمر جتوئی قدس سرہٗ سے تعلیم حاصل کی اور حضڑت علامہ مفتی عبدالرحمن وہامراہ کے ہاں بقیہ درسی کتب مکمل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔
اس کے بعد علم طب میں اپنے برادر رئیس دوست محمد جتوئی سے پڑھی اور سیکھی۔ طب آپ کا پیشہ تھا اور اس سے خوب نام کمایا۔
بیعت:
مولانا جتوئی نے سلسہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں شیخ الشیوخ ، عارف کامل حضرت خواجہ سید محمد امام الدین شاہ راشدی قدس سرہ (ٹھلاء شریف نزد باقرانی اسٹیشن ضلع لاڑکانہ) کے دست اقدس پر بیعت ہو کر سلوک کی منازل طے کی اور تصوف کی تعلیم ، مرشد کی صحبت سے نرم خو، گداز دل ، چشم تر، سینہ چاک کی کیفت پائی۔ اس طرح حضرت فقیہ اعظم ، شیخ الحدیث غوث الزمان ، حضرت علامہ مفتی خواجہ محمد قاسم مشور قدس سرہ آپ کے پیر بھائی ، استاد بھائی اور ہمعصر ہوئے۔
درس و تدریس:
بعد فراغت علمی کچھ عرصہ درس و تدریس وعظ و نصیحت سے منسلک رہے لیکن بع دمیں پیشہ ورانہ اور تحریری مصروفیات کی بنا پر درس و تدریس کا سلسلہ موقوف کردیا۔
حکمت:
طب آپ کا پیشہ تھا۔ روزناہ بیمار آپ کے شفاء خانہ میں آتے اور شفایاب ہوکر جاتے آپ بیماروں سے حسن اخلاق سے پیش آتے، مزاج پرسی فرمتے، معاوضہ مختصر لیتے، غریبوں یتیموں کا مفت علاج کرتے، عیادت و نبض شناسی کے ساتھ ساتھ درود شریف پڑھ کر مریضوں پر دم کرتے تھے۔ وہ مہمان نواز، علماء شناس ، اور غریب پرور تھے۔ مولانا مفتی الہ ڈنہ صٓحب جمارانی بتاتے ہیں کہ میں طالب علمی کے زمانے میں مولانا جتوئی صاحب کے پاس علاج معالجہ کیلے جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی‘‘
تصنیف و تالیف:
مولانا غلام رسول، سندھ کی وہ نامور مقبول و محبوب شخصیت ہیں کہ سندھ بھر میں جمعہ کے روز امام صٓحب ممبر پر آپ کے سندھی اشعار پر مشتمل خطبہ پڑھتے ہیں اور پڑھا کریں گے اور آپ کی نعتیں سندھ بھر میں جلسہ، کانفرنس، ریڈیو اور دیگر مذہبی تقریبات میں آج بھی ذوق و شوق سے سنی جاتی ہیں۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے ’’حب رسول‘‘ کے پیغام کو سندھ کے گھر گھر، قریہ قریہ اور بستی بستی پہنچایا۔ مولانا عاشق رسول ﷺ اور انسانیت کی فلاح و کامرانی کے خواہاں تھے۔ انہوں ںے اپنی درد انگیز نظموں میں جہاں مسلمانوں کے قلوب میں عشق مصطفیﷺ جگایا وہاں اصلاح معاشرہ کا درس بھی دیا ہے۔ آپ کی شاعری اسلامی ، روحانی اور فکری ہے۔ درج ذیل تصنیفات کے اسماء درج کئے جارہے ہیں جو کہ آپ کے شاعری کے شاہکار ہیں۔
٭ دیوان جتوئی
٭ امام الاشعار
٭ گلزار جتوئی
٭ اذکار جتوئی
٭ جذبات جتوئی
٭ خطبات جتوئی عرف خطبات رسولی
٭ گلشن جتوئی
حافظ عبدالرزاق سومرو اور مولانا غلام مجتبیٰ سندیلو نے اپنے اپنے مضمون میں لکھا ہے ’’ مولانا جتوئی نے جمعہ کے خطبات (سندھی نظم میں) حضرت شیخ المشائخ علامہ مفتی پیر محمد قاسم سرکار مشوری قدس سرہٗ کی فرمائش و تحریک پر لکھنا شروع کئے تھے‘‘
حضرت قبلہ عالم نے اپنے ہمعصر ، پیر بھائی،ہم وطن اور سندھ کے ممتاز شاعر مولانا جتوئی کو اس اہم کام پر لگایا کہ وہ لوگوں میں جذبہ حب رسول بیدار کرنے کیلئے سندھی نظم یں نعتیہ کلام کہے اورجمعہ کے خطبات سندھی نظم میں تیار کریں تاکہ عوام الناس کی اصلاح عقائد و اعمال ہو۔ جتوئی صاحب نے حضرت قبلہ کی فرمائش پر عمل کیا اللہ تعالیٰ نے مدح رسالت معآب کے صڈقہ میں انہیں سندھ بھر میں مقبولیت سے نوازا۔ درگاہ مشور شریف میں بروز جمعہ حضرت قبلہ عالم کی موجودگی میں جتوئی صاحب کا سندھی نظم میں خطبہ آپ کے صاحبزادہ اکبر حضرت میاں علی محمد مشوری علیہ الرحمہ ترنم سوزو گداز سے پڑھا کرتے تھے۔
مولاناغلام رسول شاعری میں تخلص ’’غلام رسول‘‘ و ’’جتوئی‘‘ کو اپنایا ہے۔ مولانا جتوئی نے اپنے مرش دکریم کے وصال پر سندھی میں منقبت کہی تھی جو کہ آج ناپید ہے۔
اولاد:
مولانا غلام رسول کو دوبیٹے (۱) وہنی بخش (۲) اللہ بخش جتوئی اور ایک بیٹی تولد ہوئی۔ وہنی بخش نے دینی تعلیم درگاہ مشور شریف پر جامعہ عربیہ قاسم العلوم میں حضرت قبلہ عالم سے حاصل یی تھی ۔ اب وہ اس دنیا میں انتقال فرماچکے ہیں۔
وصال:
مولانا جتوئی نے تقریباً (۸۰) سال کی عمر میں ۱۳۷۰ھ/۱۹۵۰ء کو بروز جمعرات انتقال کیا۔ حضرت قبلہ عالم نے نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کی مزار شریف محراب پور (اسٹیشن باقرانی تحصیل ڈوکری) میں لب سڑک واقع ہے (ماہنامہ السند، اسلام آباد)
(انوارِ علماءِ اہلسنت )