نامور نعتیہ شاعر و عالم مولانا غلام عمر بن محمد عثمان آریجا گوٹھ خیر محمد آریجہ ( ضلع لاڑکانہ ) میں ۲۶، اپریل ۱۸۴۹ء کو تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
تین سال کی عمر میں والد انتقال کر گئے ۔ اس طرح آپ نے یتیم کی زندگی بسر کی اور والدہ ماجدہ کی سر پرستی میں تصی منازل طے کیں ۔ مولانا اللہ بخش ( والد مولانا ثناء اللہ ثنائی ) کے پاس عربی کے ساتھ طب کی بھی تعلیم حاصل کی۔ پھر وہاں سے پلٹ کر پہلے استاد مولانا اللہ بخش کے پاس واپس آئے اور وہیں نصاب مکمل کیا۔
درس و تدریس :
گوٹھ فاضل کلہوڑو میں مدرسہ قائم کر کے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور ساتھ میں گذراوقات کیلئے مطب کھولا۔ آٹھ ؍دس سال وہیں درس دیا ۔ رئیس اللہ بخش بگھیو کے اصرار کے پیش نظر انہی کے گوٹھ میں درس کا سلسلہ پانچ ؍ سات تک جاری رکھا۔ اس کے بعد اپنے گوٹھ واپس آئے مدرسہ اور شفا خانہ قائم کیا ، بقیہ زندگی وہیں بسر کی اور دونوں کام برابر جاری رکھے۔
حکمت :
حکمت میں بڑا نام کمایہ ، اللہ تعالیٰ نے ہاتھ میں شفا رکھتی تھی ، لوگ دور دراز علاقوں سے آکر شفایاب ہوتے تھے۔
شاعری :
نعتیہ شاعری مولانا کی شہرت کا سبب بنی ۔ فارسی ، سندھی ، سرائیکی اور اردو میں شاعری کی تخلص میں ’’غلام عمر ‘‘ نام ہی کو اپنایا تھا۔
شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا سچے عاشق رسول تھے۔ انہوں نے نعتیہ شاعری میں ’’حب رسول ’’ﷺ ‘‘ کا درس دیا ہے اور تعریف و توصیف ، خصائص و فضائل مصطفی ﷺ سے اپنی شاعری کو بلندی پر پہنچایا ہے۔ کہتے ہیں ، دل سے جو نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے یہی سبب ہے کہ عرصہ دراز گذرنے کے باوجود آج بھی مسجد کے محراب اور جلسہ گاہ کی اسٹیج آپ کی نعت سے گونجتے رہتے ہیں ۔ آپ نے حمد، نعت ، مولود، منقبت ، قصیدہ ، غزل وغیرہ اصناف میں طبع آزمائی کی ۔ شان صحابہ ، فضائل اہل بیت، شہداء کر بلا اور عظمت غوث اعظم موضوعات کے علاوہ فارسی و سندھی میں قومی شاعری بھی کی جس سے امت مسلمہ کو بیدار اور جذبہ دین اجاگر کرنے کی سعی بلیغ کی گئی ۔
تصنیف و تالیف :
مولانا کا کتب خانہ نہایت وسیع و وقیع تھا، جس میں نادر و نایاب کتب کا خزانہ جمع کیا ہوا تھا۔ آپ نے دینی طبی اور شاعری کے متعلق کتب و رسائل تحریر فرمائے، لیکن ان تمام کے نام معلوم نہ ہو سکے ۔ ان میں سے ایک کتاب کا نامدرج ذیل ہے۔
۱۔ کریما مخمس
وصال:
آپ نے ساری زندگی حب رسول کا درس دینے ، ویران دلوں میں حب حبیب ﷺ کی شمع روشن کرنے میں بسر کی اور ۱۱، جولائی ۱۹۳۳ء ؍ ۱۳۵۲ھ کو انتقال کیا۔
(ماخوذ: لاڑکانہ ماضی اور حال ، از : ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی مرحوم )
(انوارِ علماءِ اہلسنت )
(انوارِ علماءِ اہلسنت )