مولانا حافظ غلام حبیب صدیقی
مولانا حافظ غلام حبیب صدیقی (تذکرہ / سوانح)
الحاج مولانا حافظ غلام حبیب صدیقی بن مولانا رعا الدین صفر المظفر ۱۹۱۶ء کو ضلع ہزارہ کے قصبہ کوٹ نجیب اللہ ( صوبہ سرحد) میں تولد ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد ایک خود دار عالم دین اور مسجد پھلاہ کے خطیب اور امام تھے۔
آپ کے خاندان کو ایک علمی گھرانہ ہونے کے ساتھ یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ کا سلسلہ نسب کئی واسطوں سے خلیفہ اول امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے چھوٹے صاحبزادے حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے۷ جداعلیٰ مصر سے ہندوستان ہوتے ہوئے وزیر آباد تشریف لائے، نواب نجیب اللہ کے عہد میں کوٹ نجیب اللہ ہزارہ میں قاضی القضاۃ ( چیف جسٹس) کے منصب پر فائز ہو کر یہاں مقیم ہو گئے ۔ اس اعزاز کے ساتھ کافی زمین بھی بطور جاگیر دی گئی تھی۔
تعلیم و تربیت :
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا رعاالدین اور ماموں محمد غوث سے حاصل کی ۔ ساتھ ہی مڈل کا امتحان بھی اپنے گاوٗ ں کے واحد اسکول سے پاس کیا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں درس نظامی سے فارغ ہوئے۔
بیعت :
آپ اپنے خاندانی مرشد گھرانے کی طرف متوجہ ہوئے اور قطب زمان حضرت پیر سید مہر علی شاہ گیلانی قدس سرہ ( آستانہ عالیہ گولڑہ شریف ، اسلام آباد ) سے سلسلہ عالیہ چشتیہ میں دست بیعت ہوئے۔
حفظ قرآن :
بیعت ہونے کے بعد آپ کوئٹہ تشریف لے گئے وہاں کالج میں کچھ عرصہ امامت فرمائی یہیں آپ نے قرآن پاک ۲؍ ۱ برس کے عرصہ میں حفظ کیا۔
امامت و خطابت :
بعد فراغت کچھ عرصہ اپنے خاندانی مسجد پھلاہ میں امامت و خطابت بھی کی لیکن آپ کی کوشش یہی رہی کہ کسب معاش کے لئے کسی اور ذریعہ کو اختیار کیا جائے۔ اس سلسلہ میں اکثر گھر سے باہر رہے اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں امامت کی خدمات انجام دیتے رہے جہاں بھی گئے کسب معاش کا کوئی سلسلہ نہ بنا اور مسجد کی امامت آسانی سے مل جاتی تھیں ۔ ایک طرف کسب معاش کی ضرورت تو دوسری طرف اپنے ذوق کی تسکین اور طلب معرفت کے لئے مجاہدے ۔ آپ نے بہت سے علاقوں کا سفر کیا۔ کاٹھیاوار کے بہت سے قصبات میں قیام ، جام نگر ، دیراول اور بمبئی کی مساجد میں امامت فرمائی ۔
آپ نے امامت و خطابت ہمیشہ اللہ و رسول کے لئے اور کبھی اسے ذریعہ معاش نہیں بنایا، چنانچہ کچھی میمن مسجد ( گاڑی کھاتہ کراچی ) میں جب آپ مقرر ہوئے تو اسی ایک مسجد میں ۳۲ برس نہایت مستقل مزاجی کے ساتھ آپ نے خدمات انجام دیں ۔
کراچی میں آمد:
آپ نے کچھ رقم جمع کی اور بغداد شریف کے ارادے سے کراچی پہنچے یہ ۱۹۳۷ء کے آخر یا ۱۹۳۸ء کے اوائل کی بات ہے ۔ آپ نے کراچی پہنچ کر گلزار ہوٹل صدر میں قیام کیا یہیں کراچی میں قاری غلام رسول قادری سے ملاقات ہوئی جو اس وقت مسجد قصا بان میں امام تھے ۔ ایک دوکان پر آپ کی ملاقات حاجی ابوبکر المعروف ابو بڑا سے ہوئی اور وہ ہی آپ کو کچھی میمن مسجد گاڑی احاطہ لائے۔ اس وقت حافظ محمد سلیمان جو اس مسجد کے امام تھے وہ کسی مرض میں مبتلا تھے۔ ابو بڑا کی درخواست پر آپ نے عارضی طور پر اس مسجد میں امامت شروع کی کچھ عرصہ بعد حافظ صاحب کا انتقال ہو گیا تو ابو بڑا صاحب اور ممبران کچھی میمن مسجد نے اصرار کیا کہ آپ اس مسجد میں مستقل امامت فرمائیں ۔ دوسری طرف بغداد شریف کا زادراہ یہیں خرچ ہو گیا۔ لہذا آپ نے مستقل امامت فرمائی۔
سفر حرمین شریفین :
آپ کو حضور پاک ﷺ سے والہانہ محبت تھی ۔ حضور اکرم ﷺ کا ذکر آتا تو آپ کی آنکھیں اشک باری کرنے لگتیں تھیں ۔ ہر حاجی کو تلقین فرماتے کہ مدینہ منورہ ضرور جانا۔ کسی کے بارے میں علم ہوتا کہ وہ حج کرنے گیا اور سعادت مدینہ سے محروم رہا تو فرماتے ’’ بد بخت ‘‘ ہے ۔ آپ نے ۱۹۴۰ء کو حرمین کا سفر کیا۔ چھ ماہ وہاں قیام فرمایا ، رمضان المبارک کے روزے مدینہ منورہ میں گذارے ، آخری عشرہ مسجد نبوی شریف میں اعتکاف فرمایا۔
اس کے بعد مزید تین بار حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔ آپ فرماتے : ’’ پہلے حج کے بعد میرا قصد صرف مدینہ کار ہا مدینہ منورہ میں مجھے جو سکون ملا کہیں میسر نہ ہوا‘‘۔
مزارات سے اکتساب فیض :
آپ نے اور ادو وظائف کے ورد ، چلہ کشی اور اکتساب فیض حاصل کرنے کیلئے پنجاب ہندوستان اور سندھ کے مختلف اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دی ۔ لاہور ، ملتان ، حیدرآباد دکن ، بمبئی اور کا ٹھیاواڑ کے سبھی درباروں پر حاضری دی ۔ ایک بار مجلس میں ارشاد فرمایا: مجھے پور بندر کی ایک مزار سے حکم ہوا کہ جاعبداللہ شاہ کی مزار پر حاضر ہو وہیں تیرا مسکن ہے ۔ ’’آپ فرماتے ہیں اسی سلسلے میں ایک مزار سے دوسری مزار تک پھرتا رہا لیکن کچھ علم نہ ہو سکا تو میں فیصلہ کیا کہ بغداد شریف جاوٗ ں گا ، غوث پاک ہی اس عقدہ کو حل فرمائیں گے ۔
آپ بتاتے ہیں کہ مجھے مکلی کے مزارات مقدسہ کا ولم کچھی میمن مسجد گاڑی کھاتہ میں ہوا، چنانچہ میں ٹھٹھہ گیا اور حضرت سید عبداللہ شاہ جیلانی ؒ المعروف اصحابی بابا کے مزار سے مجھے معلوم ہوا کہ مجھے اسی مزار کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ لہذا میں نے مسجد میں امامت شروع کر دی ۔ اس کے بعد آپ کا معمول بن گیا کہ آپ مکلی جاتے اور ۲، ۲، ۳، ۳دن قیام کرتے ۔ اصحابی بابا کے علاوہ حضرت شاہ مراد، بارہویں صدی کے مجدد ، امام اہل سنت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی ، حضرت مخدوم آدم نقشبندی ۔ حضرت عیسیٰ جند اللہ کے مزارات مقدسہ پر و قوف کرتے ، علاوہ ازیں حضرت پیر پٹھو اور حضرت جمیل شاہ داتار پر حاضری دیتے ۔ شہباز ولایت حضرت لعل شہباز قلندر ( سیوہن شریف ) سندھ کے عظیم صوفی شاعر و کامل ولی اللہ حضرت سید شاہ عبداللطیف بھٹائی ( بھٹ شاہ ) صاحب علم لدنی حضرت مخدوم نوح سرور سہروردی ( ہالا ) ( جنہوں نے برصغیر میں سب سے اول قرآن حکیم کا فارسی میں ترجمہ کیا) اور جبل میں جئے شاہ نورانی وغیرہ پر حاضر ہوا کرتے تھے ۔
وظائف میں بھی بڑا انہماک تھا دلائل الخیرات ، قصیدہ غوثیہ ، قصیدہ بردہ شریف ، حزب البحر ، درود مستغاث کے علاوہ بہت سے وظائف روزانہ کا معمول تھا۔ صبح قرآن پاک کی تلاوت اور شب تہجد میں ذکر قادریہ پر بہت زور تھا۔
شادی و اولاد :
جب آپ کو ئٹہ میں تھے تو اطلاع آئی کہ والد صاحب علیل ہیں آپ گاوٗ ں واپس چلے گئے ، والد کی آخری بیمار تھی ، چنانچہ والد صاحب کے اصرار پر اپنے عم محترم مولوی احمد دین بن مولوی عبدالرحمن کی بیٹی سے نسبت کی۔ آپ کے برادر حقیقی مولوی حفیظ الرحمن بتاتے تھے کہ آپ کو منگنی کی رسم ادا کرنے کے لئے بھیجا گیا تو ، پیچھے والد صاحب کی طبیعت نا ساز ہوگئی ، چنانچہ فورا بلوا بھیجا۔ آپ آئے ہی تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا ۔
والد کے انتقال کے بعد ۱۹۳۵ء کو عقد مسنون ہوا اور ۱۹۴۰ء کو جب آپ حرمین میں تھے تو پہلی بیوی کا انتقال ہوا ۔ ان سے دوا اولاد یں ایک لڑکی اور ایک لڑکا پیدا ہوئے ۔
پہلی زوجہ کے وصال کے دس برس بعد احباب کے بے اصرار اور محمد سیٹھ ( ویر اول والے ) کی وساطت سے دوسرا نکاح آپ نے مولوی غلام جیلانی بن عبداللہ لودھی کی بیٹی سے ۱۹۵۰ء کو کیا۔ جن سے آپ کو چھ لڑکے اور لڑکیا ں تولد ہوئیں۔ پروفیسر اشفاق احمد صدیقی آپ ہی کے صاحبزادے اور جانشین ہیں کچھی میمن مسجد میں امامت و خطابت اور تعویذات کا شغل جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
کچھی میمن مسجد میں مولانا کی یاد میں ۱۹۷۵ء کو مدرسہ حبیبیہ تعلیم القرآن جاری کیا گیا ہے۔
تصنیف و تالیف :
آپ کی تصنیف و تالیف کے سلسلہ میں ایک پمفلٹ ’’مقبول نماز ‘‘ سامنے آیا ہے جو کہ تیرہ صفحات پر مشتمل ہے جس میں نماز کے روحانی راز واسرار بیان کئے گئے ہیں ۔
وصال :
مولانا غلام حبیب صدیقی انتقال سے ایک روز قبل احباب کے ہمراہ سیوہن شریف تشریف لے گئے ، جہاں شہباز و لایت حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار مقدسہ پر حاضری دے کر واپس ہوئے دوسرے روز فجر کی نماز پڑھائی تلاوت کلام پاک ، حسب معمول دلائل الخیرات پڑھی ، ظہر کی نماز جماعت سے ادا کی ۔
شام میں غسل کیا اجلا لباس زیب تن کیا، جاتے جاتے کچھ وصیتیں فرمائیں ۔ اذان عصر کے بعد مسجد میں تشریف لائے سنتیں پڑھی ۔ عصر با جماعت پڑھائی ۔ دعا کے بعد سندھے گھر آئے کرسی پر بیٹھ کر دلائل الخیرات پڑھنے میں مصروف ہوئے تلاوت ہی کے دوران کچھ پانی پیا، چائے دی گئی ۔ ایک ہاتھ میں کپ تھا اور دوسرے ہاتھ میں دلائل الخیرات کی کتاب کہ فرشتہ اجل نے ہاتھ پڑھایا۔ کرسی سے نیچے آگئے ، کمر پر سیدھا لٹایا گیا تو ازخود ہاتھ زیر ناف باندھ لئے ۔ تلاوت جاری ہی تھی کہ آنکھیں بند ہو گئیں اور جنبش لب پر ہمیشہ کے لئے سکوت طاری ہو گیا۔
یہ واقعہ ۱۷، جمادی الاول ۱۳۹۰ھ ؍ ۲۳ ، جولائی ۱۹۷۰ء نماز مغرب سے بیس منٹ قبل کا ہے یعنی بروز جمعرات ۵۴ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ دوسرے روزبعد نماز جمعہ نماز جنازہ حضرت مولانا سید عبدالکریم گیلانی کی اقتداء میں ادا ہوئی ۔ کچھی میمن قبرستان گھاس منڈی ( رنچھوڑ لائن ) میں تدفین عمل میں آئی ۔ ( ماخوذ : کتابچہ مقبول نماز مع احوال اباجی مطبوعہ کراچی ۱۹۷۹ئ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت )