مولانا حافظ مبین الہدی
مولانا حافظ مبین الہدی (تذکرہ / سوانح)
بانی دارالعلوم امام حسین جواہر نگر جمشید پور
ولادت اور نسب
ہمدرد سنیت حضرت مولانا حافظ قاری محمد مبین الہدیٰ رضوی نورانی بن مولانا سراج الہدیٰ قادری مولانا شاہنور الہدیٰ قادری ۲؍محرم الحرام ۱۳۶۵ھ؍ ۷؍دسمبر ۱۹۴۵ء بروز جمعہ کو اپنے آبائی وطن موضع محمد پور ضلع گیا(بہار) میں پیدا ہوئے جو گوراروریلوےاسٹیشن سے اُترکی جانب واقع ہے۔
تعلیم وتربیت
مولانا حافظ مبین الہدیٰ نورانی کی ابتدائی تعلیم اردو اور ناظرہ کے اُستاذ مولانا باقر علی خاں، حافظ ہدایت حسین مرحوم،مولوی گل محمد اور مفتی محمد شریف الحق رضوی امجدی ہیں۔
مولانا نورانی کے والد ماجد نے ایک دن بڑی ہی حسرت کے ساتھ یہ فرمایا کہ ‘‘میرے خاندان میں کوئی حافظ قرآن نہیں ہے اس لیے میری یہ آرزو ہےکہ میری اولاد حافظ قرآن بنے’’۔ لہٰذا والد ماجد نے حفظ قرآن کےلیے آپ کو اُستاد کے حوالے کردیا۔ ۲؍جمادی الآخر ۱۳۷۴ھ کو حفظ قرآن کا پارہ آغاز کیا۔ تسمیہ خوانی مولانا عبدالشکور اعظمی نے کرائی۔ مولانا نورانی نے حافظ خلیل الرحمٰن سے ایک پارہ حافظ نصیر الدین سے چھبیس ۲۶ پارے تک حفظ کیا۔ کسی وجہ سے تعلیم میں خلل واقع ہوا۔ یہاں تک کہ حافظ ملت مولانا عبدالعزیز رضوی مراد آبادی نے اپنے ایک مکتوب بنام شاہ نور الہدیٰ قاری میں لکھا۔
برخوردار مبین الہدیٰ سلمہٗ کی تعلیم کا آپ نے کیا انتظام کیا ہے میرے خیال سے آپ ان کو مبارکپور بھیج دیں، امسال عزیزی مولوی قاری رحمت اللہ اوری والےدرجۂ حفظ وقرأت میں تدریس کی خدمت انجام دےرہےہیں۔ اس لیے مجھے اطمینان ہے کہ بہتر سے بہتر تعلیم ہوگی۔ خط کے ساتھ قرأت کی بھی تکمیل ہوجائیگی۔
حافظ ملت کے حکم کے مطابق والد ماجد نے جامعہ اشرفیہ مبارک پور بھیج دیا، وہاں پر قاری رحمت اللہ سے تکمیل حفظ کیا۔ اور وقتاً فوقتاً حافظ ملت کو بھی قرآن مجید سنانے کا موقع میسر آیا۔ ۱۰؍شعبان المعظم ۱۳۸۰ھ کو جامعہ اشرفیہ کے سالانہ اجلاس میں محدث اعظم ہند مولانا سید محمد کچھوچھوی کے دست مبارک سے آپ کی دستار حفظ ہوئی۔
دارالعلوم اشرقیہ مبارکپور میں تکمیل حفظ قرآن کے بعد فارسی کتابیں مولانا شمس اللہ قرأت و تجوید کی کتابیں قاری عبدالحکیم بلرام پوری سے پڑھیں اور درس نظامیہ کی کتابیں حافظ ملت قدس سرہٗ مولانا سید حامد اشرف رضوی کچھوچھوی، مولانا حافظ عبدالرؤف بلیاوی سے پڑھیں۔ ۱۰؍شعبان ۱۳۸۹ھ ۲۳؍اکتوبر ۱۹۶۹ء بروز جمعرات بعد نماز عشاء دارالعلوم اشرفیہ سے مولانا نورانی کی دستار قرأت اور دستار فضیلت حاصل ہوئی۔
بیعت وخلافت
مولانا مبین الہدیٰ نورانی سلسلہ قادریہ میں والد ماجد مولانا شاہ سراج الہدیٰ قادری سے بیعت ہیں۔ اور ۱۱؍ربیع الاول ۱۳۹۶ھ؍۲؍اپریل ۱۹۷۲ء بروز چہار شنبہ بعد نماز مغرب اپنے والد ماجد کی خانقاہ بیت الانوار گیا، میں مفتی اعظم قدس سرہٗ سے طلب فیض کے لیے سلسلۂ رضویہ میں داخل ہوئے۔
۱۸؍جمادی الاول ۱۳۹۹ھ؍ ۱۶؍اپریل ۱۹۷۹ء کو مسجد بیت الانوار گیا میں والد ماجد شاہ سراج الہدیٰ قادری نے مولانا نورانی کے سر پر اپنی خلافت واجازت کی دستار باندھی۔
۷؍شعبان ۱۴۰۱ھ کو خانقاہ رضویہ بریلی شریف میں بموجودگی مولانا مفتی محمد اعظم نوری ٹانڈوی حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی نے سلسلۂ قادریہ برکاتیہ رضویہ نوریہ کی اجازت عطا فرمائی۔ ۱۶؍ربیع الآخر ۱۴۰۸ھ؍۹؍نومبر۱۹۸۷ء بروز شنبہ جبکہ مولانا مبین الہدیٰ خانقاہ قادریہ دادونگر حاضر ہوئے۔ اس وقت مولانا سید حماد احمد قادری نے سلسلۂ طریقت کی خلافت عطا فرمائی۔ مولانا شاہ غلام آسی پیا حسنی رام پوری نے بزم جہانگیری آسوی، فجر بازار ہٹورہ میں ۱۷؍شعبان ۱۴۰۹ھ؍۲۶؍اپریل ۱۹۸۹ء بروز یکشنبہ کو سلسلۂ ابو العلائیہ کی اجازت سے نوازا۔
مولانا مبین الہدیٰ نورانی کی دعوت پر حضور مفتی اعطم قدس سرہٗ گیا تشریف لائے۔ انہی ایام میں ۲۲؍ذی الحجہ ۱۳۹۳ھ کو تعویذات کی اجازت عطا فرمائی۔
عقد مسنون
حضرت مولانا مبین الہدیٰ نورانی کا رشتہ نکاح ۱۰؍شوال المکرم ۱۳۰۲ھ؍نومبر ۱۹۷۲ء کو غلام منزل ملک ضلع رام پور میں فیض العارفین مولانا غلام آسی رضوی کی صاحبزادی شاہدہ خاتون سے ہوا۔ اور نکاح حضرت حافظ ملت قدس سرہٗ نے پڑھایا۔ بفضلہٖ تعالیٰ اس وقت مولانا نورانی کے چار لڑکے ہیں اور چار وں کا اصلی نام محمد ہے اور عرفی نام یہ ہیں:
۱۔ رضوان الہدیٰ ۲۔ فیضان الہدیٰ ۳۔ برہان الہدیٰ ۴۔ ریحان الہدیٰ
تدریس اور امامت
مولانا نوارنی گیاوی فراغت کے بعد والد ماجد کا قائم کردہ مدرسہ عین العلوم گیا میں تقریباً پونے چار سال تدریسی خدمت انجام دیں، دار العلوم حنفیہ سنیہ اسلام پورہ مالیگاؤں مہار اشٹر میں تقریباً سوا سال بحیثیت صدر مدرس رہے۔ وہاں سے آنے کے بعد پر دوبارہ مدرسہ عین العلوم گیا میں ایک سال بحیثیت صدر مدرس رہے۔ بعدہٗ باری مسجد آزاد ن گر جمشید پور میں خطیب وامام ہوئے۔ مولانا نورانی پونے چھ سال تک خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
تلامذہ
۱۔ مولانا مجاہد حسین دارالعلوم غریب نواز الہ آباد
۲۔ مولانا خالد علی خاں شمس العلوم ارول جہان آباد
۳۔ مولانا زبیر احمد مدرسہ غوثیہ مستان باغ غازی باغ
۴۔ مولانا اشرف حسین کدھوں پلاموں
۵۔ مولانا شوکت حسین ہزاری باغ
۶۔ قاری نور محمد نیپالی، مدرس جامعہ اشرفیہ مبارکپور
۷۔ حافظ سعود انور دارالعلوم غریب نواز بمبئی
۸۔ حافظ سلیم الدین جمشید پور
۹۔ قاری حافظ کمال الدین مدرس تبلیغ الاسلام گڑھو اپلاموں
۱۰۔ حافظ نور العین، شیخ بیگھر ضلع اورنگ آباد
۱۱۔ حافط علی امام مدرس مدرسہ رضائے غوث آسنسول
۱۲۔ حافظ عبدالجبار امام باری مسجد آزاد نگر جمشید پور
۱۳۔ حافظ محمد مبین خاں جام مسجد اورنگ آباد
۱۴۔ حافظ نسیم اختر گریڈیہہ
۱۵۔ حافظ عبدالرشید چھیرہ
۱۶۔ حافظ محمد الیاس پلاموں
۱۷۔ حافظ تسلیم الدین دوبھلی ضلع گیا
۱۸۔ مولانا عبدالرؤف ہزاری باغ [1]
[1] ۔ یہ جملہ کوائف حضرت مولانا مبین الہدیٰ نورانی رضوی کےمکتوب سے ماخوذ ہیں۔ بنام راقم محررہ ۶؍اگست ۱۹۹۰ء؍۱۴۱۰ھ ۱۲،رضوی غفرلہٗ