مولانا حافظ شبیر احمد دہلوی
مولانا حافظ شبیر احمد دہلوی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا حافظ شبیر احمد بن مولانا بشیر احمد دہلوی، دہلی کی شاہی سنہری مسجد کے سابق نائب امام ، خواجہ حسن نظامی دہلوی کے درینہ فریق اور تحریک پاکستان کے خاموش مگر سرگرم کارکن تھے۔ ۱۹۲۲ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی ذی علم شخصیت تھے جب کہ والدہ محترمہ ایک نیک اور پارسا خاتون تھیں اور وقت کے جلیل القدر عالم دین حضرت مولانا عبدالغفور عارف دہلوی کی صاحبزادی تھیں۔ آپ کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد ہی وصال فرماگئیں اسی لیے آپ کی پرورش آپ کی پھوپھی نے کی جو بڑی متقی پرہیز گار خاتون تھیں۔ اور حضرت علامہ مفتی حبیب احمد دہلوی صدر مدرس مدرسہ عالیہ فتحپوری دہلی کی صاحبزادی اور حضرت ابو مخدوم سید محمد طاہر اشرف اشرفی جیلانی قدس سرہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ اس علمی اور روحانی ماحول نے آپ کی شخصیت پر گہرا اثر کیا اور آپ بچپن ہی سے حصول علم میں لگ گئے۔
تعلیم و تربیت:
والد محترم نے آپ کو مدرسہ عالیہ فتحپوری میں داخل کردیا جہاں آپ نے جید علماء کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کی اور کم مدت میں قرآن مجید حفظ کرلیا۔ حفظ قرآن کے بعد درسی نصاب کا آغاز کیا مگر ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد والد گرامی کے خم سے اپنے چھوٹے بھائی مولانا حافظ مشیر احمد دہلوی (خطیب جامع سجد بلال لیاقت آؓباد کراچی) کے ہمراہ لاہور روانہ ہو گئے اور وہاں حضرت علامہ مفتی ابو البرکات سید احمد قادری شیخ الحدیث دارالعلوم حزب الاحناف لاہور کے مدرسہ میں داخلہ لیا اور جید علماء سے درس نظامی کی بعض کتب پڑھیں۔ لیکن دوران تعلیم آپ سخت بیمار ہوگئے جس کی بناء پر والد محترم نے آپ کو واپس بلا لیا اور آپ دہلی واپس تشریف لے گئے۔ عرصہ دراز تک علیل رہے ۔ اس کے بعد جب روبصحت ہوئے تو دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ اور دورہ حدیث شریف کی تکمیل کیلئے ملتان شریف تشریف لے گئے جہاں رازی زماں علامۃ الدوران فخر اہل سنّت حضرت مولانا سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی (نور اللہ مرقدہ) شیخ الحدیث جامعہ انوار العلوم (ملتان) سے دورہ حدیث مکمل کیا اور سند حدیث حاصل کرنے کا شرف حاصل کیا۔
بیعت و خلافت:
آپ نے روحان یتربیت پھوپھا سلسلہ اشرفیہ کے عظیم بزرگ حضرت ابو مخدوم شاہ سید محمد طاہر اشرف اشرفی جیلانی قدس سرہ سے حاصل کی۔ اور پھر انہی کے حکم سے محدث اعظم ہند حضرت علامہ سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی قدس سرہ کے دست بیعت ہوئے۔ خانقاہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف کے سجادہ نشین حضرت ابو مسعود سید محمد مختار اشرف اشری جیلانی قدس سرہ نے آپ کو سلسلہ اشرفیہ میں اجازت و خلافت عطا فرمائی۔
تحریک پاکستان:
تحریک پاکستنا مین آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مختلف مقامات پر جا کر لوگوں کو اپنی تقریر کے ذریعے تحریک پاکستان اور مسلم لیگ میں شمولیت پر آمادہ کیا۔
خطابت و امامت:
آپ نے دوران تعلیم ہی خطابت شروع کردی تھی۔ ہندو پاک میں خطابت کے ذریعے مسلک حقہ اہل سنت کی خوب ترویج و اشاعت کی۔
تقسیم ہند سے قبل آپ نے دس سال تک دہلی کی شاہی سنہری مسجد چاندنی چوک میں نائب امام کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے اور اس سے قبل مسجد شیخان بارہ ہندو رائو دہلی کیامام خطیب بھی رہے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد آپ پہلے ملتان اور پھر کراچی تشریف لائے تو آپ نے پاکستان کوارٹرز میں رہائش اختیار کی اور یہیں فردوس مسجد کی بنیاد رکھی اور عوام اہل سنت کے تعاون سے اس عظیم جامع مسجد کی تعمیرکی آپ تاحیات اس مسجد کے امام و خطیب رہے اور مسلسل پچاس سال تک یہاں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے۔ آپ ہر سال ماہ مقدس ربیع الاول شریف میںجلسہ عید میلاد النبی ﷺ منعقد کرتے تھے اور ان مین اہل سنت کے جلیل القدر علماء اور نامور خطباء ک ومدعو کرتے تھے۔
مجاہد ملت حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی علیہ الرحمہ سے بھی آپ کا گہرا تعلق تھا۔ آپ ابتداء میں جمعیت علماء پاکستنا کے رکن بھی رہے اور جمعیت کیلئے بڑی سرگرمی سے کام کیا۔
عادات و خصائل:
آپ نام و نمود کو پسند نہیں کرتے تھے، خاموش کارکن کی حیثیت سے مسلک اہل سنت و جماعت کے فروغ میں کردار ادا کرتے رہے۔ مسلسل محنت ، فکرات اور پریشانیوں کی وجہ سے آپ کو شوگر کا مرض لاحق ہوگیا۔ جس کی وجہ سے آپ بہت کمزور ہوگئے۔ لیکن آپ نے کبھی اپنی پریشانی یا بیماری کا اظہار نہیں کیا۔ بلکہ خدا کی رضا پر راضی رہے۔ دوسروں کی طرح اپنی بیماری کا ڈھونڈورا پیٹنے کے سخت مخالف تھے۔ آپ ان زندہ دل انسانوں میں سے تھے جو اپنے دکھوں کو چھپا کر دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے۔ آپ کے پاس بیٹھنے والا اپنے غموں کو بھول جایا کرتا تھا۔
آپ کئی کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں لیکن کسی کتاب کی قیمت نہیں رکھی ہمیشہ مفت تقسیم کیا کرتے۔ روزنامہ جنگ کراچی میں آپ کے مضامین اکثر شائع ہوتے رہتے تھے۔ روزنامہ آغاز کراچی میں تو آپ کا دینی کالم ’’روشن باتیں‘‘ مستقل تھا اورعوام و خواص میں مقبول تھا (السعید ملتان)
مضمون نگار نے آپ کی تصنیف و تالیف کے نام تحریر نہیں کئے ورنہ تعارف ضرور ہوجاتا۔
شادی و اولاد:
اپنے محترم و مرکم چچا اور خسر حضرت علامہ نسیم احمد دہلوی کی بیٹی سے عقد مسنون کیا۔ چار صاحبزادے شیم احمد (۲) وسیم احمد (۳) تسلیم احمد (۴) سلیم احمد اور ایک صاحبزادی تولد ہوئی۔
(ماہنامہ السعید ملتان ، اپریل ۱۹۹۸ئ)
وصال:
مولانا شبیر احمد عرصہ دراز تک علیل رہنے کے بعد ۲۵ شوال المکرم ۱۴۱۸ھ بمطابق ۲۳ فروری ۱۹۹۸ء بروز پیر صبح ساڑھے سات بجے دل کے شدید حملے کے باعث خالق حقیقی سے لے۔ آپ کی نماز جنازہ مولانا مفتی محمد اطہر نعیمی نے پڑھائی اور تدفین خاموش کالونی کے قبرستان میں ہوئی۔ وصال کے تیسرے روز جامع مسجد فردوس پاکستان کوارٹرز میں سوئم ہوا۔
(ماخوذ: ماہنامہ الاشرف کراچی، جون ۱۹۹۸ئ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)