مولانا حافظ عبد اللہ ابن مولانا سید چراغ شاہ ۱۲۷۴ھ/۱۵۷ء میںکشمیری محلہ ، سیالکوٹ شہر میںپید ہوئے،قرآن مجید اور کچھ درسی کتب مولانا علم الدین سیالکوٹی سے پڑھیں ۔منبق ،فلسفہ اور ریاضی کی منتہی کتب حضرت خواجہ عبد العلیم ملتانی ایسے فاضل سے پڑھیں ۔آپ کو کتب علمیہ سے بیت حد لگائو تھا چنانچہ آپ نے اس دور کی متعدد و غیر مطبوعہ کتب کی نقل کی تھی ، ان مخطو طات سے آپ کے قابل قدر علمی ذوق کا نشان ملتا ہے ۔ یہ مخطوطات آپ کے خلف رشید مولانا سید نور محمد قادری مد ظہ کے پاس محفوظ ہیں۔ آپ نے سرہٗ آل عمران کی چند آیات کی تفسیر فارسی میں لکھی تھی جو بڑے سائز کے دو سو صفھات پر مشتمل ہے۔
آپ نو جوانی میں ۱۳۰۰ھ/۱۸۸۲ء میں حضرت مولانا قاضی سلطان محمود (آونی) قدس سرہ کے دست اقدس پر سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت ہو گئے تھے ۔ حضرت قاضی صاحب آپ پر بڑی شفقت فرمایا کرتے تھے ۔ جب بھی حضرت قاضی صاحب مزارات عالیہ کی زیارت کے لئے سیاکوٹ تشریف لاتے تو آ پ کے گھر محلہ کشمیری میںضرور رونق افروز ہوا کرتے تھے،حضرت قاضی صاحب نیآپ کو ایک خط میں ’’مشفقم چراغ دو دمان اصطفیٰ‘‘ اور حضرت قاضی صاحب کے برادر اصغرقاضی محمد مسعود رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’اکرم الناس‘‘ اور اشرف العباد ایسے القاب سے نوازا۔ ۱۹۱۴ء میں جب آپ کے بڑے صاحبزادے سید شاہولایت مرحوم ایک مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے تو حضرت قاضی صاحب نے ازراہ نایت مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے نام تعارفی خط لکھ کر دیا تھا جو ’’مقامات محمود ‘‘ مرتبہ نواب معشوق یار جنگ ص ۸۔ ۳۴۷ میں مندرج ہے۔
علامہ محمد حسن فیضی ،مولانا محمود گنجوی مصنف طریق السالکین (تصور شیخ کے موضوع پر جامع کتاب ) مولانا کرم الدین جہلمی اور مولانا قادر بخش ملتانی وغیرھم معاصر علماء کے ساتھ آپ کے بڑے گہرے تعلقات تھے،آخر الذکر دو حضرات تو اکثر آپ کے پاس تشریف لایا کرتے تھے ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ مولوی نور الدین بھیر وی نور الدین بھیر وی (قادیانی) ایک مسئلہ ی تحقیق کے لئے آپ کے پاس آئے تھے۔
آپ کے پاس دینی کتب کا بہت بڑا ذتی ذخیرہ موجود تھا جس کا بڑا حصہ دیمک کی نذر ہو چکا ہے البتہ کچھ حصہ اب بھی محفوظ ہے جس میں بعض نادر مخطوطات بھی موجود ہیں مثلاً تتمہ فتاویٰ مجموعہ خانی قلمی مولانا محمد اکرم، قول صواب فی رو خضاب (فارسی ) مولانا عبد الرحمن سیاکوٹی ۔
آخر عمر میں تمام تعلقات او مصروفیات ترک کر کے گوشہ نشینہو گئے تھے۔ قرآن پاک کی تلاوت کرتے یا پھر اپنے سلسلہ کے منتہی وظیفہ انت الھادی انت الھق لیس الھادی الاھو کا ور فرمایا کرتے تھے۔
۴دسمبر ۱۹۴۱ئ/۱۳۳۳ھ کو ۸۴ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا اور چک ۱۵ شمالی ضلع گجرات میں آ پ کا مزار بنا ۔ آپ کے خلف چشید مکرمی مولانا سید نور محمد قادری مؤلف نقوش محبت ، و اعلیٰ حضرت بریلوی کی سیاسی بصیرت ، صاحب علم و فضل اور علم دوست شخصیت ہیں جو دور افتادہ دیہی ماحول ( چک ۱۵ ، گجرات ) میں رہ کر علم کا چراغ روشن کئے ہوئے ہیں [1]
[1] یہ تمام کو الف مکرمی سیدن نو ر محمد قادری مد ظلہ نے فراہم کئے۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)