مولانا حافظ حزب اللہ چنہ
مولانا حافظ حزب اللہ چنہ (تذکرہ / سوانح)
مولانا حافظ حزب اللہ بن ملا عبداللہ چنہ ۲۳ ، جولائی ۱۹۱۰ء کو گوٹھ چنہ ماچھی (تحصیل ڈوکری ضلع لارکانہ) میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
ننھال فیرز شاہ (تحصیل میہڑ) میں تھا۔ آپ کی پرورش ننھال مین ہوئی ، ان دنوں فیروز شاہ کی دنی درسگاہ سندھ میں مشہور معروف تھی۔ آپ نے وہاں علامہ عبدلاکریم مگسی سے تعلیم حاصل کی اور جب مولانا مگسی فیروز شاہ سے رخصت ہو کر درگاہ ٹھلاء شریف (اسٹیشن باقرانی) میں درس دینے لگے تو مولانا حزب اللہ بھی استاد کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد پاٹ شریف (ضلع دادو) کا رخ کیا وہاں مولانا خان محمد آگرو سے تعلیم حاصل کی۔ پاٹ شریف کے بزرگ مخدوم نے اپنے صاحبزادے نظام الدین صدیقی کو اعلیٰ تعلیم کیلئے گوٹھ جیئن ابڑو (تحصیل قمبر) میں مولانا اسماعیل میمن کے پاس بھیجا تو صاحبزادے کے ساتھ مولانا حزب اللہ وک بھی حصول علم کیلئے بھیجا ۔ صاحبزادے کے ساتھ آپ بھی وہاں درس نظامی کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔ دستار فضیلت کے موقع پر عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا، جس میں سندھ کے نامور علماء و مشائخ اہل سنت نے شرکت فرمائی۔ جلسہ کے تمام اخراجات پاٹ شریف کے بزرگ صاحب نے خود ادافرمائے۔
بعد فراغ آپ گوٹھ بغیر استاد کے قرآن کرنے کی سعادت حاصل کی اور ہر سال ماہ رمضان المبارک میں تراویح میں مکمل قرآن پاک سناتے تھے۔ بعد ازاں گونمنٹ ہائی اسکول سے فائنل کا امتحال پاس کیا۔ مولانا نہایت ذکی ذہین تھے، حساب (میتھ) میں بھی مہارت رکھتے تھے لہٰذا وراثت کا مسئلہ آسانی سے حل فرماتے تھے۔
درس و تدریس:
اپنے گوٹھ چنہ ماچھی میں درس و تدریس و فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دیتے۔ متصل گوٹھ وکڑو کی جامع مسجد مین امامت خطابت اور تراویح میں قرآن پاک سنانے کی خدمات بھی انجام دیتے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد پرائمری اسکول کے استاد مقرر ہوئے۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد گرلس اسکول بگی (تصحیل ڈوکری) میں استاد مقرر ہوئے۔
مولانا کریم بخژ مگسی کی یادداشت کے مطابق مولانا کو علم فقہ پر دسترس حاصل تھی اور علم یراث کے متعلق بنیادی و اہم کتاب ’’سراجی‘‘ مولانا کو برزبانی یاد تھی اور فتاویٰ بھی جاری فرماتے تھے۔ مولانا خوش اخلاق، سادگی پسند، اور صاف گو طبعیت کے مالک تھے۔ مطالعہ کا ایسا جنون تھا کہ ساری ساری رات مطالعہ میں بسر کرتے ھتے۔ کتب خانہ درمانی طبقے کا تھا۔ لیکن بعد میں سسر مولان ایوسف کے انتقال کے بعد ان کا کتب خانہ بھی آپ کی ملکیت مین آیا تو نہایت وسیع کتب خانہ ہوگیا۔
آپ جب پاٹ شریف میں طالب علم تھے توآپ کے استاد محترم مولانا خیر محمد نے ’’فتاویٰ قاضی خان‘‘ آپ کو تحفہ میں دیا۔ مولانا خیر محمد نہایت متقی پرہیزگار اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تھے، ان کے متعلق مشہور ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا اور آپ کوغسل دیا جارہ اتھا عین اسی وقت مرحوم نے دونوں ہاتھوں سے شلوار کے زار بند کو ـ پکڑ رکھا تھا۔ لہٰذا فیصلہ یہ ہوا کہ آپ کو شلوار کے ساتھ ہی غسل دیا جائے اور ایسا ہی ہوا۔
شادی و اولاد:
مولوی دین محدم ادیب چنہ فیروز شاہی کی ہمیشرہ سے آپ کی پہلی شادی ہوئی۔ رئیس عبدالکریم چنہ (درگاہ صاحب لوڑ ہے والے تحصیل کنڈیارو) کی بیٹی سے آپ کی دوسری شادی ہوئی لیکن دونوں بیویوں سے اولاد نہیں ہوئی۔ مولانا محمد یوسف چنہ جو کہ حضرت خواجہ محمد حسن جان سرہندی کے مردی تھے ان کی بٹی سے آپ نے تیسری شادی کی ، اس سے آپ کو دو بیٹے تولد ہوئے۔
۱۔ صبغ اللہ چنہ ٹیچر گونمنٹ ہائی اسکول آریجہ
۲۔ عصمت اللہ چنہ ملازم پبلک ہیلتھ انجینئرنگ
وصال:
مولانا حافظ حزب اللہ چنہ نے ۷ فروری ۱۹۸۰ء ربیع الآخر ۱۴۰۰ھ کو ۶۹ سال ۶ ماہ چودہ دن کی عمر میں انتقال کیا۔ غلام حسین شاہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آبائی قبرستان گوٹھ وکڑو متصل چنہ ماچھی گوٹھ (تحصیل ڈوکری) میں تدفین ہوئی۔
(فقیر غلام شبیر جیسر نے مولانا مرھوم کے بیٹے صبغت اللہ چنہ سے مواد طلب کیا، انہوں نے جمال الدین چنہ سے حالات زندگی لکھوائے اور مولانا کریم بخش مگسی (میہڑ) سے یاد داشت لکھوائے اور تمام مواد کی نقل غلام شبیر نے حاصل کرکے فقیر راشدی کو بھجوائی۔ فقیر تمام احباب کا مشکور ہے۔)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)