مولانا حافظ خیر محمد سندھی مدنی
مولانا حافظ خیر محمد سندھی مدنی (تذکرہ / سوانح)
بیعت و خلافت:
آپ سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں شیخ طریقت حضرت حافظ محمد عبداللہ قادری سجادہ نشین دوئم درگاہ بھر چونڈی شریف (ضلع گھوٹکی) سے دست بیعت اور خلفاء میں سے تھے۔ (بروایت حکیم محمد موسیٰ امرتسری چشتی)
شادی و اولاد:
بابا جی (حافظ جی کو کہتے تھے) نے قیام مدینہ طیبہ کے دوران ایک عرب مجذوب حضرت سیدی کامل علیہ الرحمۃ کی صحبت ختیار کی، اور ان سے آپ کو بے پناہ عقیدت و محبت ہوگئی جس کی بنا پر آپ نے ان سے ہر حال میں اپنی نسبت قائم رکھی۔ یہاں تک کہ ان پر حالت جذب طاری ہوگئی۔ باجود سا کے آپ نے ہمیشہ ان کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بابا جی کی اہلیہ محترمہ نے اس مجذوب سے نفرت و بیزاری کا اظہار کیا۔ اس پر بابا جی اپنی اہلیہ سے بہت خفا ہوئے اور ان سے علیحدگی اختیار کرلی اور ان سے فرمایا : آج سے ہمارا تمہارا تعلق ختم ہے لیکن میں اپنی اولاد کی مکمل کفالت کروں گا تم اس کی فکر نہ کرنا ۔ بابا جی کے ایک صاحبزادے عبدالہادی تھے جو محکمہ صحت سعودی عرب میں ملازمت کرتے تھے ۔ آج وہ بھی جنت البقیع میں محو خواب ابدی ہیں۔ بابا جی کی نشست گاہ پر اب ان کے پوتے بیٹھتے ہیں اور زائرین مدینہ کیلئے پر تکلف ضیافت کا اہتمام کرتے ہیں ۔ قطر کے ایک رئیس نے اس نشست گاہ کی جدید طرز پر آرائش و زیبائش کروائی تھی لیکن اب یہ جگہ توسیع حرم شریف کے منصوبہ میں شامل ہوچکی ہے۔
عادات و خصائل:
مولانا حافظ خیر محمد سندھ سے نقل مکانی کرکے مدینہ منورہ میں سرکار مدینہ ﷺ کے روضہ اقدس کے قرب و جوار میں رہائش اختیار کی۔
بابا جی حافظ قرآن، عام با عمل، صوفی با صفائ، بے باک نڈر ، حق گو، سچے اور کھرے انسان تھے۔ سخاوت، مہمان نوازی، نفاست پسندی اور منکسر مزاجی آپ کی خصوصیات میں شامل تھیں۔ ان اوصاف کے باجود آپ کی طبیعت اور چہرے پر جلال نمایاں تھا۔ آپ نے اتباع نبوی کے جذبہ سے مدینہ منورہ میں بکریاں پالی ہوئی تھیں۔ جن کے دودھ کی بنی ہوئی چائے سے زائرین مدینہ شریف کی تواضع فرماتے ۔ حجاز مقدس اور دیگر بلاد اسلامیہ کے حجاج کرام مدینہ طیبہ کی حاضری کے دوران آپ سے شرف ملاقات کی سعادت حاصل کرتے ۔ ان میں اکثر حضرات آپ کے بڑے معتقد ہوگئے۔ ان معتقدین میں سے بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں۔
٭ حضرت حکیم محمد موسیٰ امرتسری (متوفی ۱۹۹۹ئ) بانی مجلس رضا لاہور۔
٭ مولانا پیر غلام قادر قادر اشرفی ( متوفی ۱۹۷۹ئ) مدفون لالہ موسی ضلع گجرات
٭ حضرت پیر سید محمد حسن شاہ گیلانی نوری لاہور
٭ میاں باغ علی نسیم (متوفی ۲۰۰۰ئ) مالک مکتبہ نبویہ لاہور
٭ جناب حکیم عبدالواحد چشتی (متوفی ۱۹۷۹ئ) مدفون قبرستان حضرت میاں میر لاہور
٭ ڈاکٹر جمال الدین لاہوری
’’پاکستان کے علماء و مشائخ اور مشاہیر جب سندھی بابا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے تو آپ انہیں مومنانہ فراست کے ذریعے آنے والے ملکی مسائل اور خطرات سے آگاہ کیا کرتے تھے۔ ‘‘ (بروایت حکیم محمد موسیٰ امرتسری مرحوم)
۱۹۰۵ئ/۱۳۲۳ھ کو فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمۃ حج کے بعد زیارت کیلئے مدینہ منورہ پہنچے تو سید سردار احمد قادری علیہ الرحمۃ (گڑھی اختیار خان ضلع رحیم یار خان) کی ان کے ساتھ بہت پر لطف علمی محفلیں رہیں۔ آپ نے اپنے ایک بدوی عقیدت مند شیخ احمد جعفر کے ہاں فاضل بریولی کی دعوت بھی کی جس کا سارا انتظام آپ کے پیر بھائی اور ارادت مند حافظ خیر محمد سندھی علیہ الرحمۃ نے کیا۔ حافظ خیر محمد سندھی علیہ الرحمۃ بھی اس دور میں مستقل ہجرت کے ارادے سے مدینہ منورہ پہنچے اور آپ نے ساری عمر مدینہ طیبہ میں ہی گزاری۔ راقم السطور نے عرب و عجم کے بڑے بڑے علماء اور مشائخ کو حافظ صاحب کی جاروب کشی کرتے دیکھا ۔ (تحفہ مرسلہ ص۱۱۰ ابتدائیہ، مولانا سید فاروق الفاروقی صاحب ۔ ایم ۔اے)
محترم سید محمد حسن شاہ نوری صاحب بابا جی سے اپنی ایک ملاقات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک مولوی جو نجدی وہابی معلوم ہوتے تھے ، جدہ سے آئے ہوئے تھے اور بابا جی سے عقائد و مسائل کے بارے میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے۔ دونوں حضرات کافی دیر تک عربی میں گفتگو کرتے رہے ۔ میں زیادہ تو نہ سمجھ سکا البتہ مجھے اتنا ضرور معلوم ہوگیا کہ وہ شخص غیر مقلد وہابی نجدی ہے ۔ بابا جی نے اسے نقلی و عقلی دلائل سے لاجواب کردیا۔
تبلیغی جماعت:
بابا جی نے فرمایا ’’روسی لٹریچر (کمیونزم و سوشلزم) بھارت کے تبلیغیوں کے بستروں میں پیک ہو کر سالہا سال تک حجاز مقدس پہنچتا رہا۔
وصال:
حکیم محمد موسی صاحب مرحوم ـ ’’تبلیغی جماعت کی حقیقت‘‘ (از: ابو الحسن زید فاروقی مرحوم) کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں: ’’ حضرت علامہ حافظ خیر محمد سندھی علیہ الرحمۃ جو مدینہ منورہ میںتقریبا ستر (۷۰) سال مقیم رہ کر غالباً ۱۹۹۱ء میں آسودہ جنت البقیع ہوئے ۔ فقیر کو دو تین مرتبہ چائے کی دعوت سے سرفراز فرمایا اور ان اوقات میں حالات حاضرہ پر طویل گفتگو فرمایا کرتے تھے اور اختتام گفتگو پر یہ تاکید کرتے تھے کہ یہ باتیں میری زندگی میں میرے نام سے قلمبند نہ ہوں اسلئے کہ ’’تیرہ سال سے مدینہ منورہ میں آرزو کے ساتھ بیٹھا ہوں کہ مر کر جنت البقیع میں دفن ہونا نصیب ہو، اگر میرے خیالات ظاہر ہوئے تو یہ لوگ مجھے مدینہ منورہ سے خارج کرادیں گے۔‘‘
(تبلیغی جماعت کی حقیقت، مطبوعہ لاہور)
حکیم صاحب بابا جی کی یادداشت کو قلبند کرنا چاہتے تھے لیکن شاید انہیں مہلت نہیں ملی۔
[فقیر کی تحریک پر محترم میاں زبیر احمد علوی ابن میاں بد الدین قاسمی (لاہور) کی توجہ سے جناب متین کاشمیری (کوٹ ادو۔ لاہور) نے بابا جی کے متعلق مختلف روایات بھجوائیں فقیر دونوں حضرات کا مشکور ہے لیکن مضمون میں تشنگی باقی ہے۔ سندھ میں کس مقام پر اور کب پیدا ہوئے۔ تعلیم کہاں کہاں سے حاصل کی لیکن نہ ہونے سے ہونا بہتر کی مصداق کچھ نہ کچھ لکھ دیا ہے۔ مزید حالات مہیا ہونے کی صورت میں دوسرے ایڈیشن میں اضافے ہوں گے۔]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)