مولانا حامد اللہ نقشبندی
مولانا حامد اللہ نقشبندی (تذکرہ / سوانح)
درویش صفت انسان مولانا میاں حامد اللہ بن محمد مصری بن فقیر کریم ڈنہ قوم ساند ، گوٹھ بہ شریف تحصیل نگر پار کر ضلع تھرپار کر (مٹھی ) تو لد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
اپنے ہی گوٹھ میں تعلیم قرآن حافظ خدا ڈنہ پلی کے پاس حاصل کی ۔ اس کے بعد گوٹھ پسار ٹیو تحصیل نگر پارکر میں مولانا محمد اسماعیل دل کے مدرسہ میں داخلہ لے کروہیں فارسی کی تکمیل کے بعدگوٹھ و نجھنیاری تحصیل مٹھی میں مولانا حافظ عبداللطیف کے پاس تعلیم حاصل کی ۔ آخر میں گوٹھ ٹالہی (ضلع عمر کوٹ ) کے مدرسہ میں داخلہ لیا جہاں مولانا محمد ابراہیم کی خدمت میں رہ کر شرح جامی تک تعلیم حاصل کی ۔
اس کے بعد طبیعت میں تبدیلی رونما ہوئی غالبا مولانا عبداللطیف کے مدرسہ میں فقیر نور محمد بلالانی درویش کی صحبت کا اثر تھا کہ قلب میں علم باطن کے حصول کی تحریک پیداہوئی ۔
حضرت خواجہ عبدالرحمن سر ہندی علیہ الرحمہ کے ہاتھ پر سلسلہ عالیہ نقشبندی یہ سر ہند یہ میں دست بیعت ہوئے ۔ اس کی علاوہ بھی درویشوں ، اللہ والے فقیروں کی صحبت میں بہت کچھ پالیا ۔ حضرت حاجی پیر سید علی اکبر شاہ لونی شریف اورحضرت پیر عبدالرحیم درگاہ ملا کا تیار شریف (ضلع حیدر آباد ) کی صحبت سے بھی فیض یاب ہوئے۔
درس و تدریس :
آپ نے نارے کے علاقہ میں گوٹھ سونپور سے درس و تدریس کا آغاز کیا ۔ اس کے بعد گوٹھ ولیداد پلی میں فقیر محمد ہاشم کے مدرسہ میں تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔ اس کے بعد اپنے آبائی گوٹھ واپس آئے پوری توجہ کے ساتھ مدرسہ قائم کیا اور تاحیات درس و تدریس کے سلسلہ وابستہ رہے ۔
بہ شریف تھر کا ایک چھوٹا سا گوٹھ ہے ، وہ تھر جہاں آج اکیسویں صدی میں بھی زندگی فقروفاقہ کی شکار ہے ۔ تمام آسانیاں اور سہولیات دے یکسر علاقہ خالی ہے ۔ جہاں نہ بجلی ہے نہ نہر، نہ واٹر سپلائی کا صاف پانی ، اور نہ ہی پکے راستے ہیں ۔ بس ہر طرف ریت ہی ریت ہے۔ ایسے گھٹن کے ماحول میں آپ نے تقریبا ایک سو چالیس سال قبل آنکھ کھولی ، یہیں تعلیم و تربیت حاصل کی اور اس کے بعد عملی زندگی بھی یہیں ایک مثالی نمانہ بن بسر فرمائی ۔ آپ کے اعلی اخلاق ، محبت اور سحبت عام سے لوگ مستفیض ہوئے اور وہ کر دار کے غازی بنے ۔ آپ نے جہالت کی تاریکی میں علم کی روشنی عام کی ، لاگاں کو شریعت مطہرہ کا پابند بنایا اور دلوں میں حب مصطفی ﷺکی شمع کو جلایا۔
حکمران ، تھر کے سیاہ کوئلے کی صفائی کا کارخانہ تھر میں لگاتے ، اس میں تھر کے مقامی لوگ ملازم بھرتی کئے جاتے، تھر میں بارش کے پانی کو اسٹور کرنے کے لئے ڈیم بنایا جاتا، پکے راستے تعمیر کئے جاتے اور تھر کے لئے دریائے سندھ ایک نہر نکالی جاتی تو سمندر میں صاف پانی گرنے ضایع ہو نے کے بجائے تھر میں صرف ہوتا، آج تھر کی تصویر بھوک و پیاس سے عبارت نہ ہو تی ۔ جنرل ایوب خان کے عہد میں ضلع دادو میں ایک ایسا بلند پہاڑ دستیاب ہوا جو کہ کوہ مری کی طرح ٹھنڈا ہے لیکن تقریبا چالیس سال کے بعد بھی اس پر کام نہیںہوا۔ کئی با احتجاج ہوئے ، کئی قلمکاروں نے مضامین لکھے ، اور صحافیوںنے کالم تحریر کئے لیکم گورنمنٹ پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ اور آج تک کوئی کام نہیں ہوا ۔ نہ معلوم اس کی کیا وجوہات ہیں ؟؟
عادات و خصائل :
طبیعت و لباس سادہ ، اوڑھنا بچھونا سادہ ، درویش صفت انسان ، نیک سیرت ، اخلاق و اخلاص کا مجسمہ ، مہمان نواز ، غریب و سادہ لوگوں پر نہایت شفیق و مہربان اور مستجاب الدعوات تھے ۔ زندگی بھر درس و تدریس اور صحبت بافیض سے جہالت کے بادلوں کو تار تار کرتے رہے ۔ شریعت مطہرہ کے پابند ، تہجد گذار اور ذکے و اذکا ر کے حلقے قائم کر کے تاریک دلوں کو روشن و منور کر تے رہے ۔
تلامذہ :
آپ سے استفادہ کرنے والوں میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔مولانا حاجی عبدالمجید ساند بانی مدرسہ سارالعلوم صوفیہ حفیہ گوٹھ واگھی جو دیر تحصیل نگر پار کر ضلع مٹھی
۲۔مولانا حاجی محمد عالم جو نیجو بانی مدرسہ گوٹھ مٹھھڑیوں جو نیجو
۳۔ مولانا محمد اسحاق ساند درگاہ بھ شریف
۴۔ مولانا دین محمد ساند
۵۔ مولانا عبدالرشید ساند
۶۔ مولانا محمد برہان سومرو
۷۔ مولانا انور علی ساند مرحوم
۸۔ حافظ محمد بچل درس ، وغیرہ
شادی و اولاد:
میاں صاحب کو پہلی اہلیہ سے ایک بیٹا انور علی پیدا ہوا، والد کے پاس تعلیم و تربیت حاصل کی لیکن افسوس کہ جوانی میں فوت ہو گیا۔ اس غم نے میاں صاحب کو بالکل نڈھال کر دیا ۔ جس کے سبب دنیا سے لا تعلق ہو کر گوشہ نشینی اختیار کی بلکہ دن وات قبرستان میں گزارتے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر بعض احباب (سید حاجی عمر شاہ، سید غلام نبی شاہ ، مولانا حاجی تاج محمد ساند اور چچا زاد بھائی) کی کوشش سے بڑی مشکل سے دوسری شادی کیلئے راضی ہوئے۔
دوسری اہلیہ سے میاںحاکم علی تولد ہوئے۔ میاں مرحوم حاکم علی کو چار بیٹے تولد ہوئے۔
۱۔ حامد اللہ ثانی
۲۔ کریم داد
۳۔ شفیع محمد
۴۔ انور علی
اسی طرح میاں صاحب کا نسبی سلسلہ جاری ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ میاں صاحب کے خاندان کو علم دین کی دولت سے سرفراز فرمائے تاہک بہ شریف مین درس و تدریس کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے۔
فیضیاب فقیر:
میاں صاحب کی صحبت با بیض سے درج ذیل حضرات مستفیض ہوئے:
حاجی سید باقر علی شاہ (رتو کوٹ)، حاجی سید عمر شاہ، فقیر کریم ڈنہ (گوٹھ لانڈھی) فقیر طالب پھنور، فقیر احمد راہمون ، حاجی خمیسو سموں، عبدالغفار جونیجو، حافظ محمد الیاس چوہان وغیرہ۔
وصال:
میں حامد اللہ ساند نے ۱۸، رمضان المبارک ۱۳۶۵ھ بمطابق جولائی ۱۹۴۶ء بروز پیر ۸۵ سال کی عمر میں انتقال کیا۔
آپ کی آخری آرامگاہ بہ شریف ضلع تھر پارکر (سندھ) میں واقع ہے جہاں ہر سال نہایت عقیدت و احترام سے عرس مبارک منایا جاتا ہے۔
(محترم عبدالمالک پلی (وایا سامارو ضلع عمر کوٹ) نے جناب محمد عاقع سند (بہ شریف) سے مواد لکھوا کر فقیر کو ارسال کیا۔ فقیر نے مضمون تیار کیا۔ دونوں حضرات کا ممنون و مشکور ہوں)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)