مولانا حنیف القادری رحمۃ اللہ علیہ
مولانا حنیف القادری رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
مولانا حنیف کی ولادت اپنے آبائی وطن بیلا اکڈارا ضلع مہوتری نیپال میں 1925ء میں ہوئی۔ جو نیپال کی مشہور جگہ جلیشورسے چالیس میل جانب مغرب واقع ہے۔ آپ کاخاندار دیہاتی ماحول کے اعتبار سے خوشحال تھا۔ آپ کے والدین صوم صلوٰۃ کے پابند اور مذہبی امور میں خالص دلچسپی رکھتے تھے۔
مولانا حنیف اپنے والد گرامی محمد عبداللہ مرحوم سے دینیات کی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم وتربیت سے فارغ ہوکر رضاء العلوم کنھواں پہنچے جو شمالی بہار کے معروف ضلع سیتا مڑھی کی مرکزی درس گاہ ہے۔ یہاں فارسی کی پہلی سے متوسطات یعنی یوسف زلیخا، دیوان حافظ، سکندر نامہ اور عربی میں میزان الصرف سے کافیہ تک کی تعلیم بحسن وخوبی حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اہل سنت وجماعت کی مرکزی دینی درس گاہ دارالعلوم فیض الغرباء میں داخلہ لیا۔ اور تعلیم وتربیت کی مزلیں طی کیں اور شرح جامی سے بخاری شریف تک باضابطہ تعلیم پاکر 1361ھ مطابق 1940ء میں مدرسہ فیض الغرباء کے زیر اہتمام سالانہ نورانی اجلاس کے پرکیف موقع پر اکابر علمائے اہل سنت ومشائخ طریقت کے مقدس ہاتھوں سے دستار سند فراغت حاصل کی۔ آپ کی فراغت کے موقع پہ محدث اعظم ہند حضرت سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ اور ملک العلماء حضرت علامہ ظفرالدین بہاری علیہ الرحمۃ والرضوان جیسی اکابر شخصیات جلوہ افروز تھی۔
مولانا حنیف کو حضور فاضل بہار حضرت علامہ مفتی عظیم الدین علیہ الرحمہ کے شیخ گل گلزار محبوب سبحانی حضرت علامہ خلیل الرحمٰن قادری لندن پوری (نوخال) بنگلہ دیش رحمۃ اللہ علیہ سے شرف بیعت حاصل ہے۔
1410ھ مطابق 1987ء مدرسہ مظہر العلوم کٹیا ضلع مہوتری نیپال کے زیر اہتمام عظیم الشان ’’رسول اعظم کانفرس‘‘ کے تیسرے اجلاس میں جانشین مفتی اعظم ہند تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی الشاہ محمد اختر رضا قادری ازہری دامت برکاتہم العالیہ اور حضرت قمرالعلماء مولانا شاہ قمر رضا خاں بریلوی نے متفقہ طور سے لاکھوں کے مجمع میں دستار خلافت باندھی اور سند اجازت عطا فرماکر سلسلۂ رضویہ کا شیخ طریقت بنادیا۔ پھر آپ اپنی زندگی کی آخری سانس تک مذہب اور مسلک اعلیٰ حضرت کی بے لوث اور پرخلوص خدمات انجام دیتے رہے جن کا نتیجہ ہے کہ علاقہ کی سنیت مضبوط سے مضبوط تر ہوگئی۔ اور آج بھی علاقہ نیپال میں دین وسنیت کی عظیم بہاریں ہیں وہ آپ کی ہمہ گیر خدمات کا نتیجہ ہے۔
حضور حنیف ملت کی دینی، مذہبی، تدریسی اور تبلیغی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس کے ذکر کے لیے دفتر درکار ہے۔
مولانا حنیف نے 1372ھ مطابق 1951ء میں اپنے استاذ گرامی مجذوب الاولیا عاشق اعلیٰ حضرت مفتی عظیم الدین صاحب فاضل بہار علیہ الرحمۃ کے دست مبارک سے مدرسہ مظہر العلوم کی بنیاد رکھوایا۔ جو ہندو نیپال کے سرحد پر اہل سنت کی مرکزی درس گاہ ہے۔ اس ادارے میں مولانا حنیف از سنگ بنیاد تا وفات بحیثیت صدرالمدرسین کا رہائے نمایا انجام دیتے رہے۔ اور اپنی پوری عمر مدرسہ کے داخلی وخارجی معاملات میں صاف شفاف رویہ رکھا۔
دوسری اہم خدمت تین روزہ عظیم الشان ’’رسول اعظم کانفرنس‘‘ کا انعقاد ۔ حنیف ملت علیہ الرحمۃ کی دلی خواہش تھی کہ میری زندگی میں مدرسہ مظہرالعلوم کے زیر اہتمام ایک کانفرنس ہونی چاہیے چنانچہ آپ کا یہ دیرینہ خواب 22۔23 شعبان المعظم 1428ھ مطابق 10/11/اپریل 1988ء کو پایہ تکمیل کو پہنچا جو گلاب پورستو ا کٹیا کے لیے اپنی نوعیت کی ایک تاریخ ساز کانفرنس تھی۔
ایک دن اور دورات میں کل تین نورانی اجلاس منعقد ہوئے تھے۔ جس کا عام مجمع دولاکھ سے زیادہ علمائے کرام اور شعرائے اعظام دوسو سے زائد تھے جن میں، صوبۂ بہار، اتر پردیش، مہار اشٹر، بنگال کے منتخب مقررین کے علاوہ نیپال کے علاقائی علما بھی اچھی خاصی تعداد میں شریک اجلاس رہے۔
مناظر اہل سنت علامہ مفتی عبدالمنان کلیمی اور نقیب اہل سنت جناب حلیم حاذق صاحب کلکتوی مشترکہ طور پر تینوں اجلاس کے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ جب کہ کانفرنس کے نگراں حضرت علامہ مفتی محمد مصلح الدین صاحب قادری گلاب پوری نے بحسن وخوبی انتظام کوسنبھالا۔
براہی ضلع سیتا مڑھی کے عالی وقار محمد حسین صاحب کی دختر نیک اختر زینب خاتون سے آپ کا عقد مسنون ہوا۔
چار لڑکیاں۔ (1) خدیجہ بانو (2) ہاجرہ خاتون (3) کلثوم بانو (4) اورایک بچپن میں ہی انتقال کرگئیں۔
چار صاحبزادے۔ محمد نورالدین، ڈاکٹر محمد مصلح الدین، حضرت مفتی محمد نجم الدین خلیفہ تاج الشریعہ، اورایک لڑکا بچپن ہی میں انتقال کرگیا۔
حضرت علامہ مفتی نجم الدین صاحب قبلہ اہم ترین شخصیت کے مالک ہیں جو اس وقت کا ن پور مدرسہ تعلیم القرآن میں مفتی کے عظیم عہدہ پر فائز ہیں۔
علم وفضل، زہد وتقویٰ کایہ روشن ستارہ 14/ شعبان المعظم 1413ھ مطابق21 فروری 1992ء بروز جمعہ بوقت 6بجے صبح اپنے مالک حقیقی سے جاملا۔
مولانا حنیف کے جنازہ میں تقریباً 5000ہزار سے زیادہ لوگ شریک تھے۔ حضرت علامہ قمر رضا صاحب بریلوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ 32۔ گھنٹہ بعد حضرت مولانا حنیف کا پاکیزہ لاشہ مدرسہ مظہرالعلوم کے صحن میں سپرد خاک کیا گیا۔ ہرسال 16/ شعبان المعظم کو نہایت تزک واحتشام کے ساتھ آپ کا عرس پاک منعقد ہوتا ہے۔ جس میں عام زائرین اورعقیدت مندان حنیف ملت کے لیے لنگر کا بھی انتظام ہوتا ہے۔
ہر رحمت ان کی مرقد پہ گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے