محسن سندھ مولانا اعجاز الحق قُدسی
محسن سندھ مولانا اعجاز الحق قُدسی (تذکرہ / سوانح)
مولانا اعجاز الحق قدوسی جولائی ۱۹۰۵ء کو جالندھر(پنجاب، انڈیا) میں تولد ہوئے۔ آپ کے والد پروفیسر ظہور الحق ایچی سن کالج لاہو رمیں انگریزی کے استاد تھے۔ براعظم پاک و ہند کے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ کیا۔ آپ کے بڑے بھائی اظہار الھق قدوسی نے آزادی ہند فون کے قیام اور تحریک پاکستان میں اہم اور فعال کردار ادا کیا۔(انسائیکلو پیڈیا) آپ قطب عالم حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہ(متوفی ۱۹۴۴ء خانقاہ قدوسیہ گنگوہ ضلع سہارنپور، یوپی، انڈیا) کی اولاد سے ہیں۔ حضرت گنگوہی نے چوراسی ۸۴سال عمر پائی آپ کی عمر کا بڑا حصہ ریاضتوں، مجاہدوں، عبادت الٰہی، رشد و ہدایت اور مریدوں کی اصلاح و تربیت میں گزرا۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم اس زمانے کے رواج کے مطابق اپنے ننھال قصبہ انبیٹھہ ضلع سہارنپور میں مولانا شفیق احمد انبیٹھوی سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ تک مدرسہ مجددیہ سرہند شریف میں تعلیم پاتے رہے اور پھر علوم شرقیہ کی تکمیل ہندوستان کی مشہور دینی درسگاہ مظاہر العلوم سہارنپور سے کی۔ مولانا اس اللہ رامپوری، مولانا عبدالرحمن کیمبل پوری، مولانا ثابت علی، مولانا منظور احمد وغیرہ سے استفادہ حاصل کیا۔
بیت:
آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں حضرت حکیم قمیس احمد کیف قدوسی (متوفی ۱۹۶۱ئ) سجادہ نشین درگاہ شریف شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہ(متوفی سن ۱۹۴۴ئ) سے بیعت ہوئے۔
تصنیف و تالیف:
۱۹۵۱ء کو ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی (لیاقت آباد) میں مستقل سکونت اختیار کی۔ عمر کا بڑا حصہ علمی اداروں مثلاً سندھی ادبی بورڈ ، انجمن ترقی اردو اور اردو ترقی بورڈ کی ملازمت میں گزرا۔ لیکن ملازمت کے ساتھ ساتھ نجی زندگی میں ایسے شاندار علمی و تحقیقی کارنامے انجام دیے جو بڑے بڑے ادارے انجام نہ دے سکے۔ آپ کا اسل فن تاریخ اور تذکرہ نگاری ہے۔ اس حوالے سے بہت کام کیا، لیکن ان سے بعض مقامات پر صریح غلطیاں بھی ہوئی ہیں صحیح العقیدہ اہلسنت ہونے کے باوجود بالاکوٹ کے لٹیروں کی مدح سرائی کی ہے اور اسی طرح دیگر بدمذاہب کی بھی بعض مقامات پر دینی سیاسی ناکامیوں سے صرف نظر کیا ہے ان کی صوفیانہ زندگی اور درویش مزاج کے پیش نظر حسن ظن رکھتا ہوں کہ ادبی دنیا میں ضم ہونے کے سبب اصل حقائق واضح نہ ہونے کی بنا پر یار لوگوں کی روایات کو بغیر تحقیق کے نقل کیا ہوگا آپ کی قلمی کاوش کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔
٭ تذکرہ صوفیائے سندھ:
اردو اکیڈمی سندھ، کراچی طبو اول نومبر ۱۹۵۹ء
٭ تذکرہ صوفیائے پنجاب
٭ تذکرہ صوفیائے سرحد
٭ تذکرہ صوفیائے بنگال
٭ شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور ان کی تعلیمات مطبوعہ آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کراچی ۱۹۶۱ء
٭ توزک جہانگیری کا اردو ترجہ و حواشی ۲ جلدیں)
٭ تاریخ سندھ (۳ جلدیں) اردو سائنس بورڈ لاہور طبع اول ۱۹۸۴ء
٭ اقبال اور علمائے پاک و ہند
٭ تاریخ مغربی پاکستان
٭ سندھ کی تاریخی کہانیاں
جنرل پبلشنگ ہائوس ایم۔ اے جناح روڈ کراچی ۱۹۵۷ء
٭ رسول پاک کی صاحبزادیاں
٭ اقبال کے محبوب صوفیائے کرام
٭ برصغیر پاک و ہند کے علماء حق پرست
٭ میری زندگی کے پچھتر سال : (غیر مطبوعہ) آپ نے اپنی خود نوشت قلم بند کی ہے۔
٭ سیر الاولیاء (مترجم) اردو سائنس بورڈ لاہور
٭ سندھ کے فارسی گو شعرائ
٭ مسلمان بیبیاں مکتبہ جامعہ ملیہ دہلی
(ماخوذ: انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا، تالیف، سید قاسم محمود ، مطبوعہ شاہکار بک فائونڈیشن کراچی، مارچ ۱۹۹۸ئ)
٭ سراپائے رسول ﷺ
٭ پاک بیبیاں
٭ سیرت بتول
٭ ہمارے نبی ﷺ کے صحابہ کرام
٭ سیرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
٭ عہد رسالت کے دو بچے
٭ درسگاہ رسول ﷺ کے دو طالب علم
قدوسی مرحوم اپنی شبانہ روز کاوش کے متعلق رقمطراز ہیں: ’’میں نے اپنی بساط کے مطابق اٹھارہ (۱۸) سال تک پاکستان کے مکتلف موضوعات پر کام کیا ہے۔ ان تصانیف میں میرا سب سے بڑا مقصد یہ رہا ہے کہ پاکستان کے ہر خطے کے ہرنے بسنے والوں میں ربط و ہم ااہنگی اور جذبات خیر سگالی کو فروغ ہو اور ان کتابوں کے ذریعے پاکستان کے اتحاد و سالمیت کے جذبے کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے، تاریخ سندھ کی یہ جلد بھی اسی سلسلے اور مقصد کی ایک کڑی ہے۔
(تاریخ سندھ، جلد ۲، مطبوعہ لاہور طبع اول ۱۹۷۴)
لیکن انہوں نے ۱۹۵۲ء سے لے ک رتا وصال تقریباً چالیس سال تصنیفی و تالیفی کام کیا ہے سندھ کے نامور مورخ و دانشور سید حسام الدین راشدی مرحوم قدوسی کے متعلق رقمطراز ہیں:
’’مولانا اعجاز الھق قدوسی ۱۹۵۲ء میں ہمارے ادارے سندھی ادبی بورڈ میں مقرر ہوئے۔ مولوی صاحب چونکہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی علیہ الرحمۃ (متوفی سن ۱۹۴۴ئ) کے جلیل القدر خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے ایک بہت بڑا علمی پس منظر ان کی پشت پر ہے…تصوف چونکہ ان کا خاندانی ورثہ ہے اور ذاتی طور پر خود بھی اسی کی طرف میلان رکھتے ہیں اسلئے اس ذوق کی تسکین کیلئے انہوں نے ’’تذکرہ صوفیائے سندھ‘‘ کو بری کاوش، تحقیق اور تلاش سے مرتب کیا ہے۔‘‘
(تذکرہ صوفیائے سندھ)
جناب سید الطاف علی بریلوی (کراچی) اپنے تاثرات میں رقمطراز ہیں:
’’وہ دیوانہ وار صبح سے شام تک حصول علم میں لگے رہتے ہیں ۔ وہ سچے آدمی ہیں، بات کریں گے تو پھول جھریں گے ، خوش خلقی، وضع داری اور شرافت ان کا چلن ہے۔ وہ پیدائش سے لے کر اب تک صرف طالب علم ہیں اور اسی خصوصیت نے ان کے ذہنی ارتقاء کو کسی منزل پر بھی آگے بڑھنے سے نہیں روکا۔ ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری، جیب خالی ، پیٹ خالی لیکن علم کی لگن میں ایسے مگن کہ کسی بات کا ہوش نہیں، قناعت مزاج اور توکل تکیہ، مجسم علم، جوڑتوڑ سے متنفر ، سیاست کے پیچوں سے دور۔
۱۹۲۸ء میں حیدرآباد دکن چلے گئے اور وہاں ۱۹۵۱ء تک محکمہ امور مذہبی سے وابستہ رہے۔ یہں ۱۹۳۲ء میں انہوں نے اپنی سب سے پہلی کتاب ’’مسلمان بیبیاں‘‘ کے نام سے لکھی جسے مکتبہ جامعہ ملیہ دہلی نے شائع کیا، اس کتاب کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، اس کتاب کی مقبولیت کے بعد انہوں نے اسی طرح کتابیں سراپائے رسول، رسول پاک کی صاحبزادیاں، پاک بیبیاں، سیرت بتول، عہد رسالت کے دو بچے، درس گاہ رسول کے دو طالب علم، ہمارے نبی کے صحابہ، خلفائے راشدین کی صاحبزادیاں، رسول اللہ کے دو محبوب، سیرت امام حسن، جیسی مقبول عام کتابیں لکھیں، یہ سب کتابیں تاریخی اعتبار سے ایک خاص ندرت لئے ہوئے ہیں۔ آج کل مولان اعجاز الحق قدوسی برصغیر ہندوپاک کی تاریخ تصوف کے مختلف گوشوں پر کام کر رہے ہیں۔‘‘ (شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور ان کی تعلیمات ص۱۵)
وصال:
مولانا اعجاز الحق قدوسی نے ۹ جمادی الاخر ۱۴۰۶ھ بمطابق ۱۹ فروری ۱۹۸۶ء بروز بدھ ۸۱ سال کی عمر میں انتقال کیا ۔ لیاقت آباد میں نما زجناہز ادا کی گئی اور پاپوش نگر (ناظم آباد ، کراچی) کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
[محترم شہر یار قدوسی صاحب نے قدوسی مرحوم کی تصنیف شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور ان کی تعلیمات کے مطالعے کا موقع فراہم کیا جس کے باعث مضمون تیار کرنے میں آسانی رہی۔ فقیر راشدی ان کا مشکور ہے۔]
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)