مولانا جابر علی رازا لہ آبادی
مولانا جابر علی رازا لہ آبادی (تذکرہ / سوانح)
شاعر اسلام مولانا جابر علی رضوی راز الٰہ آبادی
مقیم محلہ بھاد گنج ھٹیہ الٰہ آباد
ولادت
بلبل گلشن رضا، شاعر فطر جناب مولانا جابر علی رضوی راز الٰہ آبادی ۱۹۳۰ء کو بہادر گنج ہٹیہ الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ والد گرامی کا نام حاجی عابد علی شاہ تھا۔ والدین کے سایہ میں پرورش ہوئی۔
خاندانی حالات
شاعر اسلام راز الٰہ آبادی علوی النسب ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت حنفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ کا پورا خاندان حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ سے بیعت ہے۔ اور خاندان کے بعض افراد جانشین مفتی اعظم علامہ مفتی الشاہ محمد اختررضا خاں ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ سے بیعت ہیں۔
تعلیم وتربیت
مولانا راز الٰہ آبادی رضوی کی ابتدائی تعلیم فارسی، عربی، گور کھپور کے مدرسہ میں ہوئی، وہاں سےجب راز الٰہ آبادی تشریف لائے تو اسکول میں داخلہ لیا اور ہندی انگریزی کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ عربی فارسی کی تعلیم دیگر اساتذہ سے حاصل کرتے رہے۔ یہاں تک کہ تکمیل کی منزل تک پہنچ گئے۔
بیعت وخلافت
حضرت راز الٰہ آبادی والدین کےساتھ مع اہل وعیال ۱۹۶۸ء میں حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کےدست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ ۱۹۷۸ء کو مفتی اعظم مولانامصطفیٰ رضا نوری بریلوی نے اجازت وخلافت عطا فرمائی۔ مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمٰن رضوی اڑیسوی نے تمام عملیات کی اجازت عطا فرمائی۔
مولانا سید محمد شفاء الصمد نقشبندی کی صحبت
الٰہ آباد کے مشہور عالم زبردست بزرگ، فارسی وعربی کے زبردست عالم، عارف باللہ مولانا سید شفاء الصمد نقشبندی قادری کی خدمت میں راز الٰہ آبادی بچپن ہی سے رہتے تھے اور ان کے خوراق وعادات دیکھتے رہتے ان کے شاگردوں میں پنڈت جواہر لعل نہر، کملا نہرو، سرپنچ بہادر، مولانا سلطان قلی، اور مولانا ولایت حسین قابل ذکر ہیں۔ مولانا راز الٰہ آبادی نے شعر و شاعری انہی بزرگ مولانا سید شفاء الصمد نقشبندی سے دیکھی اور بہت سے علوم و فنون حاصل کیے مولانا نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی سحر آموز دعاؤں کے نتیجہ میں راز صاحب نے شاعری کے جہان میں بلند مقام حاصل کیا۔
قلمی خدمات
مولانا جابر علی راز رضوی الٰہ آبادی کی ساری زندگی شعروشاعری کی دنیا میں بسر ہورہی ہے اجلاس اور مشاعروں میں آپ کی شرکت سے جلسہ میں چار چاند لگ جاتےہیں۔ شاعری کی دنیا میں ایک جماعت تلامذہ کی بھی چھوڑی اور ساتھ ہی ساتھ قلمی خدمات بھی انجام دیں۔ نثر و نظم میں طبع آزمائی کی، مگر نظم میں سبقت لے گئے۔ مندرجہ ذیل کتابیں طبع ہوچکی ہیں۔
۱۔ اشک مذامت
۲۔ دیر وحرم
۳۔ رنگ و نور
۴۔ دھڑکنیں
۵۔ منزلیں
۶۔ کرامات مفتی اعظم ہند
شعروشاعری
حضرت راز الٰہ آبادی بر صغیر کے ان شعراء میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نےتقریباً اپنی عمر کے بیش قیمت چالیس برس کی اردو شاعری کے گیسوئے تابدار کو سنوارنے میں صرف کیا۔ ان کی غزلوں میں تمام کلاسیکل رکھ رکھاؤ کے ساتھ گذشتہ چالیس برسوں کے ہندوستان کے لیل و نہار کے سردوگرم کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ کبھی غیر سنجیدہ رویہ نہیں رکھا۔ بلکہ زندگی اور حالات کے نشیب و فراز کو اپنی غزلوں میں اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ ان کی غزلیں آزادی کے بعد کے ہندوستان کی تاریخ کاشیش محل بن گئی ہیں۔
راز الٰہ آبادی اپنے اسلاف سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔ انہیں عقیدتوں نے راز صاحب سے ایسے ایسے اشعار کی رچنا کرائی ہے۔ مثلاً:۔
میری آنکھوں نےاک ایسا بھی حسیں دیکھا ہے
جسم چادر میں چھپالے تو وہ چادر چمکے
وہ ترا اسم مبارک ہے کہ اسمِ اعظم
لکھ دیا جائے تو کاغذ کا مقدر چمکے
نعتیہ شاعری اور نمونۂ کلام
غزنوں کے ساتھ ساتھ راز الٰہ آبادی نے نعتیہ شاعری میں بھی اپنی عقیدتوں کے بہت ہی خوشوبودار پھول کھلائے ہیں۔ نعتیہ شاعری کے ساتھ انصاف کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس میدان میں شاعر فنکار نہیں بلکہ غلام احمد مجتبیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہوتا ہے۔ راز رضوی الٰہ آبادی نے سرکار مدینہ کی غلامی کو اپنی شخصیت کی معراج سمجھا ہے۔ واقعی آپ نےنعت گوئی کا حق ادا کردیا۔ نعت پاک کے چند شعر ملاحظہ ہوں۔
حشر کے دن کوئی آسرا چاہیے
گوشہ دامنِ مصطفیٰ چاہیے
میرے ٹوٹے ہوئے دل کو کیا چاہیے
جلوہ گاہے حبیب خدا چاہیے
ایک طرف خلد ہے اک طف ان کا دَر
سوچتا ہوں کدھر دیکھنا چاہیے
یوں نہ سمجھو گے تفسیر قرآن کو
پہلے عشقِ حبیب خدا چاہیے
خاک طیبہ اُڑا کے بھی لائے نہ تو
مجھ کو ایسا نہ بادِ صَبا چاہیے
رازؔ تم کو خدا بخش دے گا مگر
ہاتھ میں دامنِ مصطفیٰ چاہیے
میرے کملی والے کی شان ہی نرالی ہے
دور جہاں کے داتا ہیں اور ہاتھ خالی ہے
خلد جس کو کہتے ہیں یعنی دیکھی بھالی ہے
سبز سبز گنبد ہے اور سنہری جالی ہے
چھاؤں مہکی مہکی ہے دھوپ ٹھنڈی ٹھنڈی ہے
شہر مصطفیٰ تیری بات ہی نرالی ہے
قطعہ
بدشان حضور مفتئ اعظم نوری قادری بریلوی قدس سرہٗ العزیز۔
طالب نو مصطفائی ہے
دں میرا کاسۂ گدائی ہے
دیکھ کر شکل مفتی اعظم
غوث اعظم کی یاد آئی ہے
کہاں تک راز لکھو گے کرامت اپنےمرشد کی
زسرتا پاکرامت ہی کرامت مفتئ اعظم