آپ شیخ حسام الدین مانک پوری کے جدِّ امجد تھے۔ بڑے عالم، عابِد، صابِر متقی بزرگ تھے۔نماز عشاء پڑھنے کے بعد آپ اس وقت تک آرام کیا کرتے جب تک عام طور لوگ جاگتے رہتے ہیں۔ جب لوگ سوجاتے تو آپ کھڑے ہوجاتے اور فجر کی نماز تک عبادت کرتے رہتے۔ روزانہ اِکتالیس مرتبہ آپ سورۂ یٰسین پڑھا کرتے تھے اور نماز چاشت کے بعد لوگوں کو مسائل شرعیہ کا درس دیا کرتے تھے اور آپ کا ذریعہ معاش کِتابت تھی۔ قرآن کریم لکھتے اور دہلی بھیج دیتے جس کا ہدیہ پانچ سو روپے ہوتا اور بلا وضو کبھی آپ قلم کو ہاتھ نہ لگایا کرتے جن دنوں چوروں اور ڈاکوؤں کا شہر میں دَور دورہ ہوتا تو آپ اس خطرے سے گوشت کھانا ترک کردیتے تھے کہ کہیں یہ جانور چوری کا نہ ہو۔ آپ خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ شیخ محمد کے ارادت مند تھے۔ شیخ محمد بادشاہوں جیسے بہترین لباس زیب تن فرمایاکرتے تھے۔ امیر دل کے مثل زندگی بسر کرتے اور بادشاہوں کے پاس آمدورفت رکھتے تھے۔
ایک مرتبہ شیخ محمد مانک پور تشریف لے گئے، شہر کے قاضی اور ان کے صاحبزادے آپ سے ملاقات کرنے کے لیے آئے اور ان لوگوں نے اپنے دل میں یہ منصوبہ بنایا کہ اگر شیخ محمد ہمیں مصری منگوادیں تو ہم انھیں صاحب کشف و کرامت بزرگ تسلیم کریں گے، چنانچہ شیخ محمد نے مولانا جلال الدین سے فرمایا کہ کچھ لوگ ہمارا امتحان لینے کی غرض سے آرہے ہیں کچھ مصری لے آؤ، قاضی صاحب بمع صاحبزادگان جب حاضر ہوئے تو مصری کو موجود پاکر دل ہی دل میں شرمندہ ہوئے۔ اس کے بعد قاضی صاحب نے شیخ محمد کو دعوت دی کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں۔ شیخ محمد نے فرمایا کہ چالیس برس ہوچکے ہیں میں نے کسی قاضی کے گھر کا کھانا نہیں کھایا (اس لیے آپ کی دعوت قبول نہیں) جب یہ محسوس کیا کہ اس سے قاضی صاحب کبیدہ خاطر ہوگئے ہیں تو فوراً پوچھا کہ آپ کے بیٹے کی محکمۂ قضاء کی طرف سے کوئی تنخواہ مقرر ہے؟ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ نہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ لڑکا اگر اپنی ملکیت سے کھانے کا انتظام کرے تو ہم ضرور کھانا کھائیں گے۔
اخبار الاخیار