مولانا جمال میاں فرنگی محلی
مولانا جمال میاں فرنگی محلی (تذکرہ / سوانح)
مولانا محمد جمال الدین عبدالوہاب انصاری المعراف جمال میاں بن تحریک خلافت کے مشہور رہنما حضرت مولانا عبدالباری۔ فرنگی محل لکھنو کا ایک محلہ ہے ، اس علاقے کی زرخیز مٹی سے جو علماء پیدا ہوئے وہ فرنگی علماء کے نام سے مشہور ہوئے ۔ اس علاقہ میں ایک فرانسیسی تاجر مقیم تھا جس کی وجہ سے یہ علاقہ فرنگی محل کہلانے لگا۔ اس محلہ میں ملا قطب الدین انصاری نام کے ایک عالم رہتے تھے جن کا بعض امور پر عثمانی خاندان سے جھگڑا تھا ۔ عثمانیوں نے ۱۱۰۳ھ ؍۱۶۹۱ ء کی ایک رات انھیں قتل کر دیا ۔ان کی اولاد میں چار بیٹے تھے جو علمی مقام میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے ۔ ملا قطب الدین کے بیٹوں میں سب سے برگزیدہ ملا نظام ا لدین تھے جن کے نام پر ’’ درس نظامی ‘‘ حاشیہ شمس بازعہ ، حاشیہ شرح عقائد دواتی بہت مشہور ہیں۔ آپ نے اپنے مر شد سید عبدارزاق قادری بانسوی کے ملفوظات بھی مرتب کئے ہیں ۔ آپ کا انتقال ۱۷۴۸ء میں ہوا۔
درس نظامی کے بانی ملا نظام الدین کے کئی بیٹے تھے ۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت مولانا عبدالعلی لکھنوی بحرالعلوم نے پائی ۔ بحرالعلوم کا خطاب انہیں کرناٹک کے رئیس نواب محمد لعی خاں نے دیا تھا۔ آپ کی وفات ۱۲، رجب ۱۲۳۵ھ/۱۸۱۹ء میںمدراس یں ہوئی۔ آپ کی تصانیف میں ارکان اربعہ دراصول فقہ ، شرح مثنوی روم، شرح فقہ اکبر اور رسالہ توحید شامل ہیں۔ مولوی سلیمان ندوی نے انہیں ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ کے پائے کا عالم کہا ہے۔ مولانا عبدالعلی بحر العلوم فرنگی محل لکھنو سے چلے گئے تھے۔ لیکن ان کے بعد ان کے بیٹے مولانا عبدالرب لکھنؤ میں ان کی مسند علم کو رونق افروز کیا۔ اس خاندان میں اولاد علماء پیدا ہوتے گئے جو اپنے اپنے زمانے میں علم کی انتہائی بلندیوںتک پہنچے ۔ یہ پورا خاندان ’’علمائے فرنگی محل‘‘ کے نام سے ہند کی تاریخ میں مشہور ہوا۔ اسی خاندان کے ایک اور عام مولانا عبدالحئی لکھنوی نے بھی کافی شہر ت پائی۔ ان کی ولادت ۱۲۶۴ھ/۱۸۲۸ء میں ہوئی۔ آ پ کو صاحب کثیر الدرس اور کثیر التصانیف کہا جاتا ہے۔ آپ کی فقہ کے علوم پر گہری نظر تھی۔ صاحب تذکرہ علمائے ہند نے آپ کی بلند پایہ ۶۴ تصانیف کا ذکر کیا ہے۔ مولوی عبدالحئی کا انتقال ۱۹ ربیع الاول ۱۳۰۴ھ/۱۸۸۶ء کو ہوا۔
علمائے فرنگی محل کے مفصل احوال کے بیان کیلئے مولوی محمد عنایت اللہ نے ’’تذکرہ علمائے فرنگی محل کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی ہے۔ مولوی رحمان علی نے اپنی کتاب ’’تذکرہ علمائے ہند‘‘ میں فرنگی محل کے ۳۹ علماء کے تفصیلی احوال بیان کئے ہیں۔ اسی طرح آثار الاول من علمائے رنگی محل اور ’’احوال فرنگی محل‘‘ بھی ان علماء کے تذکرہ میں مستقل کتابیں ہیں۔ نزھۃ الخواطر اور حدیقۃ المرام میں علمائے فرنگی محل کا ذکر ہے (انسائیکلوپیڈیا ص۱۲۵۷ مطبوعہ…)
علامہ ابو الحسنات عبدالحئی فرنگی محلی اسی خاندان کی علمی شخصیت تھے، جنہوں نے چھوتی سی عمر یعنی ۳۹ سال پائی مجموعۃ الفتاویٰ (۳ جلدیں۹ آپ کی یادگار ہے۔ اسی خدانان کے چشم و چراغ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی (متوفی ۱۹۹۰ئ) نے ’’بانی درس نظامی‘‘ نامی کتاب لکھ کر انڈیا سے شائع کی تھی۔ دوسری علمی شخصیت علامہ الحاج ابو القاسم محمد انصاری فرنگی محلی جامعہ بحرالعلوم (فرنگی محل لکھنؤ) سے فارغ التحصیل تھے۔ شعبہ علوم اسلامی کراچی یونیورسٹی کے چیئر مین کے عہدے سے ریٹائرڈ ہو کر دارالعلوم قادریہ المرکز القادری گلشن اقبال کراچی میں صد رمدرس و پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ امام غزالی کی تصنیف تھافۃ الفلاسفہ‘‘ کا اردو ترجمہ کیا۔ لیکن تلاش و بسیار کے باوجود فقیر کو آپ کے حالات دستیاب نہیں ہوسکے۔
تعلیم و تربیت:
مولانا جمال میاں اپنے ہم درس مولانا فاخر میاں کی کتاب پر تقریظ میں اپنی تعلیم کے متعلق اشارہ دیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے مدرسہ نظامیہ فرنگی محل لکھنؤ (انڈیا) سے اپنے والد محترم حضرت مولانا عبدالباری اور دیگر اساتذہ سے تکمیل نصاب کیا ہوگا۔ (تذکرہ اولیائ)
بیعت:
سلسلہ عالیہ قادریہ رزاقیہ میں غالباً اپنے والد ماجد مولانا عبدالباری سے دست بیعت و خلیفہ تھے۔ مولانا عبدالباری فرنگی محلی سلسلہ قادریہ رزاقیہ کے فرنگی محل میں آخری بڑے شیخ تھے۔
سفر حرمین شریفین:
۱۹۶۴ء کو فرنگی محل سے ایک قافلہ حج پر گیا تھا جس میں مفتی عبدالقادر ، مولانا قطب الدین اور مولانا حکیم محمد متین انصاری فرنگی محلی کے علاوہ دیگر صاحبان سلسلہ بھی شامل تھے۔ پاکستان سے مولانا جمال میاں فرنگی محلی نے بھی حاضری دی تھی۔
(مفتی رضا انصاری فرنگی محلی شخصیت اور خدمات ص ۴۶)
تحریک پاکستان:
مولانا عبدالباری انصاری کے صاحبزادے مولانا جمال میاں فرنگی محلی کے متعلق مسلم لیگ کے رنہما نواب زادہ محمود علی خان ’’قائد اعظم کے ساتھی: ممبر ورکنگ کمیٹی آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس اکتوبر ۱۹۳۷ء کو لکھنؤ (انڈیا) مٰں ہوا۔ جس میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کی گئی۔ نئے دسور کے مطابق جون ۱۹۳۸ء کو قائد اعظم محمد لعی جناح نے مندرجہ ذیل ممبران ورکنگ کمیٹی نامزد فرمائے اور ان کا پہلا اجلاس ۴ جون، ۱۹۳۸ء کو بمبئی میں ہوا۔
۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۷ء تک قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر اور نواب زادہ لیاقت علی خان سیکریٹری رہے اور اسی عرصہ مٰں مختلف اوقات میں مندرجہ ذیل حضرات جوائنٹ سیکریٹری رہے:
۱۔ خان بہادر عبدالمومن (بنگالی)
۲۔ محبو احمد قریشی (پنجاب)
۳۔ مولانا جمال میاں فرنگی محلی (یوپی)
۴۔ حسین ملک (دہلی)
۵۔ یوسف ہارون (کراچی) (عظیم قائد ص:۸۷)
۲ دسمبر کو قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کے نام ایک اپیل کی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ ۲۲ دسمبر ۱۹۳۹ کو کانرگیس کی حکومتوں کے خاتمہ کی خوشی میں ’’یوم نجاب‘‘ منائیں۔ قائد اعظم کی اس اپیل پر مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ پارسی، عیسائی اور اچھوتوں نے بھی یوم نجاب مانایا۔ چھوٹے دیہات سے لے کر بڑے شہروں تک پر مان جلسے ہوئے اور قراردادیں منظور ہوئیں۔ یوم نجات کے سلسلہ میں سب سے بڑا اجتماع بمبئی میں ہوا۔ جہاں قائد اعظم ان دنوں موجود تھے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس جلسہ میں جو مانڈوی پوسٹ آفس محمد علی روڈ کے میدان میں ہوا تھا ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی ۔ ایک بڑا بینر جو جلسہ گاہ کے باہر ارو جلوس کے آگے لگایا گیا تھا اس پر یہ شعر تحریر تھا :
شکر ہے تیرا کدائے پاک ذات
مل گئی ظالم حکومت سے نجات
جلسہ کی صدارت محمد علی خان دہلوی نے کی جب کہ جلسہ سے خطاب کرنے والوں میں مقامی رہنمائوں کے علاوہ راجہ صاحب محمود آباد، مولانا جمال میاں فرنگی محل، جناب آئی آئی چندریگر اور قائد اعظم محمد علی جناح شامل تھے۔ (قائد اعظم کے ۷۲ سال)
تحریک پاکستان کے کارکن مرحوم ابو سعید انور نے اپنی یادداشتوں میں ان حضرات کا ذکر کیا ہے جن کی خطابت سے تحریک پاکستان کو بے حد فائدہ پہنچا اور انہوں نے مسلم لیگ کے پیغام کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ موصوف لکھتے ہیں:
’’یوپی تو اس میدان میںسب سے آگے تھا بڑے بڑے شعلہ بیان مقرر تھے سید اشرف، سید ذاکر علی، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا جمال میاں، مولانا عبدالقیوم کانپوری، عبدالوحید خاں‘‘ (تحریک پاکستان منزل بہ منزل بحوالہ مولانا بدایونی کی ملی و سیاسی خدمات ص۱۷)
۱۹۳۷ء کو مسلم لیگ کا تنظیم جدید کے بعد عظیم الشان اجلاس ہو اتو مسلمان اکابر نے قائد اعظم سے عرض کیا کہ کانگریس کے تنخوانہ دار علماء جب لمبی لمبی داڑھیوں اور جبہ و عصا کے ساتھ اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں تو وہ کیسی ہی اسلامی تعلیمات کے خلاف اور گاندی و نہرو کی حمایت مین باتیں کریں لوگ ان کی ظاہری شکل و صورت سے متاثر ہو جاتے ہیں ہمیں بھی چاہئے کہ ان میں کچھ علماء خرید لیں تاکہ وہ مسلم لیگ کیلئے کام کریں۔
قائد اعظم نے جواباً فرمایا:
’’ہمارے پاس مسلم لیگی علماء موجود ہیں اور اسی وقت عبدالحامد بدایونی اور مولانا جمال میاں فرنگی محلی سے فرمایا کہ آپ لوگ پورے بر اعظم میں پھیل جائیں۔ مسلم لیگی علماء کی کمیٹیاں قائم کریں اور بر اعظم کے کونے کونے میں مسلم لیگ کا پیغام پہنچا دیں۔‘‘
(مرزا علی اظہر کا مضمون پاکستان ٹائمز لاہور۔ ایضاً ص۴۴)
چنانچہ لکھنؤ کانفرنس کے بعد سے لے کر تشکیل پاکستان تک اندرون ملک اور بیرون ملک مولانا بدایونی اور مولانا جمال میاں کا ہر لمحہ مسلم لیگ کی تحریک کی تبلیغ اور اسے عوام الناس کے ذہن نشین کرانے کیلئے وقف رہا۔
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: مسلم لیگ کے ۱۹۳۷ء کے لکھنؤ میں جب قائد اعظم نے مولانا جمال میاں اور مولانا بدایونی کو علماء کی تنظیمیں قائم کرنے اور تحریک پاکستان کو عوام میں روشناس کرانے کے کیلئے مہم چلانے کیلئے کہا تو یہ دونو (سنی عالم) حضرات ملک کے کونے کونے میں پہنچے ، جگہ جگہ جلسے قائم کئے اور مسلم لیگ کے پیغام کو عوام کے ذہن نشین کرانے کا فریضہ سر انجام دیا۔ اس زمانہ کے اخبارات نے مولانا بدایونی اورجمال میاں کی ان اسلامی خدمات کو نمایاں طور پر شائع کیا۔
(مولانا بدایونی کی ملی و سیاسی خدمات ص۴۶، سید نور محمد قادیر، مطبوعہ ادارہ پاکستان شناسی لاہور، ۲۰۰۲ئ)
روزنامہ جنگ کے چیف رپورٹرحافظ محمد اسلام صاحب اپنے ایک مضمون ’’شعلہ بیان مقرر جن کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’لیاقت علی خان، سردار نشتر، مولانا جمال میاں فرنگی محلی، مولانا عبدالحامد بدایونی اردو مقررین کے اس گروہ میں شمار ہوتے ہیں جو اظہار بیان پر بے پناہ قدرت رکھتے ہیں۔ ان کے جلسوں میں بے پناہ ہجوم ہوتا تھا۔ (روزنامہ جنگ کراچی، ۷ جون، ۱۹۷۴ئ)
مشہور ادیب شاعر اور سیاستدان مولانا کوثر نیازی ’’برصغیر کے نامور خطیب اور واعظ‘‘ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’تحریک پاکستان کے مقررین میں مولانا عبدالحامد بدایونی مولانا جمال میاں فرنگی محلی، علامہ علائو الدین صدیقی اور مولانا محمد بخش مسلم کے نام بھی نظر انداز نہیںکئے جاسکتے۔ قائد اعظم کے پیغام کو عام کرنے کیلئے ان حضرات نے ملک کے طول و عرض میں تقریریں کی ہیں اور قیام پاکستان کے بعد بھی وہ ہمیشہ اتحاد اسلامی کیلئے کوشاں رہے۔‘‘
(روزنامہ جنگ لاہور ۶ مارچ ۱۹۸۳ئ۔ ایضاً)
۲۱ اگست ۱۹۴۵ء کو لارڈ ویل گورنر جنرل ہندوستان نے اعلان کیا کہ آئندہ موسم سرما میں تمام ہندوستان میں عام انتخابات ہونگے۔ مسلم لیگ نے قائد اعظم کی سر براہی میںبرے جوش و ولولہ کے ساتھ انتخابات جیتنے کیلئے مہم شروع کردی۔ مسلم لیگ کیلئے یہ انتخابات زندگی و موت کا مسئلہ تھے، جس کے نتیجہ میں قیام پاکستان کا فیصلہ ہونا تھا۔ سب سے پہلے دسمبر ۱۹۴۵ء کو مرکزی اسمبلی کے انتخابات ہوئے، مسلم نشستوں کی تعداد تیس(۳۰) رہی جو خدا کے فضل سے سب کی سب ہی مسلم لیگ نے جیت لیں۔ بمبئی کے مسلم حلقہ قائد اعظم کے مقابلہ میں شیعہ لیڈر حسین بھائی لال جی کھڑے ہوئے۔ قائد اعظم کو ۳۶۰۲ ووٹ ملے اور مستر لال جی کو صر ف۱۲۷ ووٹ ملے ضمانت بھی ضبط ہوگئی۔ مولانا جمال الدین فرنگی محلی کو مسلم لیگ کی ٹکٹ پر مدراس سے ایک کانگریسی کے مقابلہ میں کھڑا کیا گیا جس میں مولانا کو سو فیصد کامیابی حاصل ہوئی اور مخالف کو شکست فاش نصیب ہوئی اس طرح مولان امرکزی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ (عظیم قائد ص۸۹ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۲ئ)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)