شیخ الحدیث مولانا خادم رسول رضوی بہاری
شیخ الحدیث مولانا خادم رسول رضوی بہاری (تذکرہ / سوانح)
جامعہ ا
شرفیہ مسعود العلوم چھوٹی تکیہ بہرائچ
قصبہ مہراج گنج (ضلع اورنگ آباد صوبہ بہار) یہ قصبہ شہر اورنگ آباد سے تقریباً ۲۵کلو میٹر جانب جنوب رائچی روڈ پر آباد ہے، اور بہت پرانا قصبہ ہے۔ انگریزوں کے دورِ حکومت میں بھی غیر معمولی شہرت یافتہ قصبہ تھا۔
ولادت
اسی سرزمین مہراج گنج ضلع اورنگ آباد بہار میں حضرت مولانا خادم رسول رضوی ۱۱؍مئی ۱۹۲۵ء کو پیدا ہوئے، اور والدین کریمین نے تعلیم وتربیت کا خاص اہتمام رکھا، اور پرورش بھی والدین کی آغوش میں ہوئی۔ مولانا خادم رسول اپنے حسب ونسب کے متعلق خود تحریر فرماتے ہیں:
کئی پشتوں سے ہمارے آباء واجداد اپنے کو انصاری کہلاتے تھے، آیا نسباً کیا تھے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے، میں بھی اپنے آپ کو انصاری کہتا ہوں۔
والد ماجد
حضرت مولانا خادم رسول کے والد ماجد مڈل اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے، اور انگریزوں کے دورِ حکومت میں اسی عہدے پر رہ کر ریٹائر ہوگئے۔ اور مولانا خادم رسول کے دادا محترم کپڑے کی تجارت کرتے تھے اور اپنے علاقے میں معزز رئیس سمجھے جاتے تھے، علم طب سے کچھ واقفیت تھی جس سے قوم کی بلا معاوضہ علاج معالجہ سے خدمت کیا کرتے تھے۔
بسم اللہ خوانی
مولانا خادم رسول کی بسم اللہ خوانی قصبہ کے ایک بزرگ حافظ عبدالسبحان نے کرائی جو قصبہ اور مضافات کے قاضی اور جامع مسجد کے امام تھے۔ مولانا خادم رسول کے دو بھائی اور ہیں، ایک بڑے جو حافظِ قرآن ہیں اور ایک چھوٹے جو حافظ، قاری کے ساتھ عالم بھی ہیں۔
تعلیم وتربیت
حضرت مولانا خادم رسول کی تعلیم کا آغاز پانچ چھ برس کی عمر میں اپنے قصبہ میں ہوا۔ ناظرہ قران مجید ختم کر کے اور کچھ اردو کی تعلیم حاسل کر کے درجۂ پنجم تک ہندی کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اردو سے مڈل پاس کرنے کا اتفاق ہوا، درسِ نظامیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مبارک پور ضلع اعظم گڑھ کی طرف رُخ کیا اور دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لیا۔ تقسیم ہند سے قبل جس وقت مولانا خادم رسول دارالعلوم اشرفیہ میں تحصیل علم میں مشغول تھے اس وقت اشرفیہ مبارک پور کے اساتذہ میں حافظِ ملت مولانا عبدالعزیز رضوی مراد آبادی وغیرہ تھے۔ زمانۂ تعلیم اشرفیہ میں مولانا خادم رسول نے ہایہ آخریں، مسلم الثبوت کا امتحان صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی رضوی اعطمی علیہ الرحمۃ کو دیا۔ دوسرے سال دورۂ حدیث میں شرکت کر کے محدث اعظم ہند مولانا سید محمد کچھوچھوی رضوی علیہ الرحمۃ کو دورۂ حدیث شریف کا امتحان دیا۔ تحصیل علم کی غرض سے کچھ دنوں کے لیے جامعہ عربیہ ناگورپ میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔
فراغت
مولانا خادم رسول نے ۱۹۵۰ء میں دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور سے فراغتِ علمِ حدیث کی سند حاصل فرمائی۔
اساتذۂ کرام
۱۔ حافظِ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز رضوی مراد آبادی ابانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور
۲۔ حضرت شاہ مولان فیض الہدیٰ رحمۃ اللہ علیہ شاگرد صدر الشریعہ قدس سرہٗ
۳۔ حضرت مولانا سراج الہدیٰ سجادہ نشین آستانہ بیت الانوار گیوال بیگہ گیابہار
۴۔ حضرت مولانا شمس الحق سابق صدر المدرسین دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور
۵۔حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ رضوی ازہری رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث دارالعلوم امجدیہ کراچی پاکستان
۶۔ حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ مصنف کتب کثیرہ
۷۔ حضرت مولانا حافظ عبدالرؤف اعظمی علیہ الرحمۃ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور
۸۔ حضرت مولانا مفتی عبدالمنان اعظمی شیخ الحدیث شمس العلوم گھوسی اعظم گڑھ
۹۔ حضرت قاری محمد یحییٰ اعظمی
درسی خدمات
ابتداءً مولانا خادم رسول نے مدرسہ عین العلوم گیا میں تعلیم دی، پھر جامعہ حمیدیہ رضویہ بنارس میں درس دیا، اس کے بعد جامعہ نظامیہ حیدر آباد میں آکر شائقین علم کو درس دیا، پھر فیض العلوم جمشید پور بہاء کے اراکین نے دعوت دی، مولانا خادم رسول نے سوچکا کہ اب میں بہت مدارس اسلامیہ کی تبدیلی کر چکا ہوں، اب دوسرے ملک میں جاکر بھی کچھ تلامذہ کی جماعت چھوڑوں۔ مولانا خادم رسول اپنے استاد علامہ عبدالمصطفیٰ رضوی ازہری اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم کے مطابق دارالعلوم امجدیہ کراچی تشریف لے گئے اور وہاں اپنے علم کا دریا بہایا۔ مولانا خادم رسول کے درس میں کافی طلبہ شرکت کرتے تھے۔ جس جماعت کو پڑھاتے ہوتے اس کے علاوہ بطورِ سماعت دوسری جماعت کے طلبہ شریک رہتے۔
کچھ عرصے کے بعد جامعہ اشرفیہ مسعود العلوم چھوٹی تکیہ بہرائچ شریف کے اراکین نے ج دو جہد کی کہ مولانا خادم رسول ہمارے مدرسہ میں تعلیم دینے کی دعوت قبول فرمائیں۔ اراکین مسعود العلوم بہرائچ کی دعوت قبول ہوئی، اور پاکستان سے ہندوستان تشریف لائے اور مدرسہ مسعود العلوم چھوٹی تکیہ بہرائچ میں درس دینا شروع کیا، اور آپ شیخ الحدیث کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے۔ اس وقت یہیں درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔
عقدِ مسنون
حضرت مولانا خادم رسول کا عقدِ مسنون فراغتِ علم حدیث کے بعد ۱۹۵۱ء میں مولانا فیض الہدیٰ کی نیک سیرت صاحبزادی کے ساتھ ہوا، اور چھ اولادیں یادگار ہیں، (۱)شاہدہ خاتون (۲)ماجدہ خاتون (۳)واجدہ خاتون (۴)مولوی فضل رسول (۵)طاہرہ خاتون (۶) عابدہ خاتون۔
امتحانات بورڈ
جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ بورڈ سے الحاق کے بعد سب سے پہلے سال میں مولانا خادم رسول نے عالم کا امتحان دے کر سیکنڈ ڈویژن سے کامیابی حاصل کی گویا کہ دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور کے بورڈ کے امتحان میں اولیت کے حامل ہیں۔
بیعت وخلافت
سلسلۂ قادریہ میں مولانا خادم رسول حضرت مولانا شاہ سراج الہدیٰ سجادہ نشین خانقاہ بیت الانوار گیا بہار سے بیعت وارادت رکھتے ہیں، اور حضور مفتئ اعظم الشاہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے ۱۳؍شعبان المعظم ۱۳۹۲ھ کو سندِ اجازت وخلافت عطا فرمائی۔
۱۔ مولانا شمس الدین احمد رضوی صدر المدرسین مسعود العلوم بہرائچ
۲۔ مولانا حافظ عبدالشکور مدرس دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ
۳۔ شہزادۂ شمس العلماء مولانا محی الدین احمد ہشام رضوی جون پوری
۴۔ مولانا یامین رضوی مراد آبادی مدرس جامعہ حمیدیہ رضویہ بنارس
۵۔ مولانا غیاث الدین انٹر کالج پانڈو پلاموں بہار
۶۔ مولانا عالم خان مرزا پوری حمیدیہ رضویہ بنارس
۷۔ مولانا صدیق حسن مدرس مدرسہ اسلامیہ بڑھنی ضلع بستی
۸۔ مولانا غلام احمد نواز سیوانی حمیدیہ رضویہ بنارس
۹۔ مولانا محمد علیم الدین مدرس عزیز العلوم پکھری پلاموں بہار
۱۰۔ مولانا غلام یٰسین نیپالی
۱۱۔ مولانا فاروق احمد گجراتی
۱۲۔ مولانامحمد مسلم مدرس حمیدیہ رضوی مدنپورہ
۱۳۔ مولانا محمد حنیف صدر مدرس فیض العلوم جمشید پور بہار
۱۴۔ مولانا ذکاء اللہ پچھڑوابستی
۱۵۔ مولانا محمد زماں بستوی
۱۶۔ مولانا ڈاکٹر محمد سعید بستوی
۱۷۔ مولانا نصیر احمد پچھڑ ا ضلع بستی
۱۸۔ مولانا مطلوب احمد اورنگ آبادی بہار
۱۹۔ مولانا محمد خالد اورنگ آبادی بہار
۲۰۔ مولانا غلام یٰسین اورنگ آبادی بہار
۲۱۔ مولانا نعیم الہدیٰ مہتمم عین العلوم گیا بہار [1]