آپ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلی قدس سرہ کے خلیفہ خاص تھے۔ مولانا معین الدین عمرانی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اور حضرت قاضی شہاب الدین کے استاد مکرم تھے۔ صاحب اخبار الاخیار فرماتے ہیں۔ جن دنوں حضرت مولانا خواجگی دہلی میں زیر تعلیم تھے۔ اور حضرت مولانا معین الدین کے سامنے زانوائے ادب طے کیے ہوئے تھے ساتھ ساتھ ہی شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے باطنی رموز سیکھا کرتے تھے۔ مولانا معین الدین کو شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کے پاس ان کا جانا اور تصوّف کے رموز حاصل کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ آپ انہیں وہاں جانے سے منع بھی کیا کرتے تھے۔ مگر مولانا خواجگی کو دونوں سے عقیدت و محبت تھی وہ ان دونوں بزرگوں کی قلبی پرکاش کی وجہ سے ایک گونہ عذاب میں تھے ایک دفعہ مولانا معین الدین کو ضیق النفس اور قے کا شدید حملہ ہوا۔ اطباء نے جواب دے دیا مولانا بھی اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے۔ مولانا خواجگی نے اپنے استاد مکرم کی خدمت میں نہایت درد سے عرض کی حضور اب اطباء آپ کے علاج سے عاجز ہوگئے ہیں۔ اور عزیز و اقارب بھی آپ کی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اس نا امیدی کے عالم میں اگر آپ اجازت دیں تو اللہ سے التجا کی جائے اور کسی مرد خدا سے استدعا کی جائے۔ ان دنوں دہلی شہر میں حضرت شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلی مستجاب الدعوات ہیں اگر آپ ایک بار ان کے پاس تشریف لے جائیں اور استدعا فر مائیں ہوسکتا ہے کہ آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ صحت عطا فرمائے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ ان کی نگاہ کیمیا اثر سے کامل شفا مل جائے گی یہ بات سن کر اگرچہ مولانا کا دل تو نہیں چاہتا تھا۔ مگر مرض کی شدت اور لاعلاج ہونے کی وجہ سے راضی ہوگئے اور حضرت شیخ نصیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے تیار ہوگئے حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی کو مولانا کی بیماری کے علم میں آنے کی اطلاع ملی۔ تو گھر سے اٹھے اور آپ کے استقبال کے لیے آگے بڑھے اپنی خانقاہ میں لے جاکر بڑے اعزاز سے بٹھایا۔ ہر قسم کے کھانے دسترخوان پر سجادیے اور سادہ چاولوں کا ایک طشت سامنے لا رکھا۔ پھر دہی کا ایک پیالہ جو بظاہراً دمہ کی مرض والوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ پیش کیا اور فرمایا حضرت مولانا بسم اللہ کیجیے اور کھائیے مولانا نے طوعًا و کرہا چند لقمے اٹھائے اور منہ میں ڈالے۔ دسترخوان سمیٹا گیا تو مولانا کا دمہ اور کھانسی زوروں پر ہوگئی حتٰی کہ آپ نے وہاں قے کردی۔ اسی وقت طشت لاکر رکھا گیا۔ اور مولانا کے سینے سے بلغم اور صفر اتمام و کمال باہر نکل آیا اسی وقت آپ کا سینہ ہلکا ہوگیا اور آپ کو صحت کاملہ ہوگئی آپ صحیح البدن گھر گئے اور دوسرے دن سے صحت مند ہوگئے اس دن سے مولانا معین الدین حضرت شیخ نصیرالدین محمود قدس سرہ کے معتقد اور عقیدت مند ہوگئے۔
مولانا خواجگی نے نور باطن سے امیر تیمور کے دہلی پر حملہ کی خبر پالی۔ تو آپ کالپی میں تشریف لے گئے کچھ عرصہ وہاں ہی قیام فرما ہوئے۔ آخر کار ۸۱۹ھ میں فوت ہوئے آپ کا مزار کالپی میں زیارت گاہ خلق ہے۔
خواجگی چوں رفت زیں دار فنا
سال وصل آں ولی متقی
خواجہ صدیق دل فرمود نیز
۸۱۹ھ
خواجگی نامی ولی ایزدی
۸۱۹ھ