مولانا محمود[1]بن محمد فاروقی جونپوری: ہند کے علمائے کبار اور فقہائے نامدار میں سے فاضل اجل،عالمِ اکمل،ادیب اریب اور جونپوری میں رہتے تھے۔جمہ علوم عقلیہ ونقلیہ اپنے جد امجد شاہ محمد اور استاذ الملک شیخ محمد فاضل[2] جونپوری سے حاصل کر کے سترہ سال کی عمر میں تحصیل سے فراغت پائی اور مسند تدریس وافادہ پر متمکن ہوئے۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہےکہ گیارہویں صدی کی ابتداء میں ہندوستا میں دو ہی مجدد ہوئے،ایک شیخ احمد سرہندی اور دوسرے آپ۔کہتےہیں کہ آپ سے تمام عمر یں ایسا کوئی قول صادر نہیں ہوا جس سے آپ نے رجوع کیا ہو۔آپ کی عادت تھی کہ جب کوئی آپ سے کچھ پوچھتا اگر آپ کی طبیعت حاضر ہوتی تو اس کو جواب دے دیتے ورنہ کہہ دیتے کہ کہ میر طبیعت اس وقت حاضر نہیں ہے۔
کتاب شمس بازغہ آپ کی اشہر تصانیف سے ہے۔یہ وہی کتاب ہے کہ جس پر جماہیر علماء وفضلاء کا اس امر میں اتفا ق ہے کہ اس کے برابر آج تک علم حکمت میں کوئی کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔یہ کتاب ہے جس کے پڑھنے سے طالب علم کے سر پر فضیلت کی دستار باندھی جاتی ہے۔مصنف نے پہلے خود ہی ایک متن لکھا ہے اور پھر اس کی خود ہی شرح تصنیف کی ہے،اور اس کتاب پر بڑے بڑے فضلاء مثل ملا نظام الملۃ والدین و ملا محمد حسن و مولانا محمد یوسف ومولانا محمد عبد الحلیم وغیرہم نے حواشی لکھے ہیں،علاوہ اس کے کتاب الفرائد شرح الفوائد اور ایک رسالہ فارسی اقسام نسواں میں بھی آپ کی تصنیفات سے مشہور ہے۔وفات آپ کی ۱۰۶۲ھ میں ہوئی اور آپ کی رحلت سے آپ کے استاذ شیخ محمد فاضل اس قدر غمگین ہوئے کہ چالیس روز تک انہوں نے تبسم نہ کیا اور ان سے ملحق ہوگئے۔’’فخر آفاق‘‘ تاریخ وفا ہے۔
[1] ۔ ملا محمود بن شیخ محمد بن شاہ محمد فاروقی کی ولادت ۹۹۳ھ میں ہوئی۔
[2] ۔ محمد فضل جونپوری۔’’نزہت الخواطر‘‘(مرتب)
(حدائق الحنفیہ)