علامہ مفتی علی محمد مہیری
علامہ مفتی علی محمد مہیری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا مفتی علی محمد مہیری بجاری شریف ( تحصیل گونی ضلع بدین ) میں ۱۲۹۴ھ ؍ ۱۸۷۷ء میں تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
ابتداء میں حضرت عارف کامل خلیفہ محمود نظامانی قادریؒ کے مرید با فیض حضرت حافظ محمد نوندانی ؒ سے قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی ۔ مولانا مہیری پر حضرت حافظ صاحب کی شخصیت کا زیادہ اثر تھا ۔ اس کے بعد فارسی کی تعلیم مخدوم عبدالروٗف نورنگ زادہ اور حافظ احمد میمن ( تحصیل گونی ، گولا رچی ) سے حاصل کی ۔ دوران تعلیم مخدوم عبدالروٗف کا انتقال ہوگیا ، اس لئے حافظ احمد میمن جو کہ کھورواہ میں مخدوم صاحب کے مدرسہ میں مدرس تھے کھور واہ سے دڑو (ضلع ٹھٹھہ ) کے نزدیک ملوک کے گوٹھ منتقل ہوئے تو مولانا مہیری بھی اپنے استاد کے ساتھ آگئے اور گوٹھ ملوک میں تعلیم مکمل کی۔ عربی علم و ادب کی تعلیم مولانا عبدالرحیم عباسی ، مولانا محمد سلیمان ( بنو ) اور حضرت علامہ مفتی حامد اللہ میمن ( بیلو ) سے حاصل کی اور مفتی حامد اللہ کے پاس حدیث کی کتابیں مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوئے ۔
مولانا مہیری ، مفتی حامد اللہ کی شخصیت سے بہت متاثر تھے ۔ اس لئے بعد فراغت کافی عرصہ استاد محترم کی خدمت میں رہ کر فتویٰ نویسی و دیگر علمی و روحانی معاملات میں استفادہ کرتے رہے ۔
بیعت :
آپ سلسلہ نقشبندیہ مجدد یہ میں حضرت خواجہ عبدالرحمن جان سر ہندی ؒ سے دست بیعت ہوئے ۔
درس و تدریس :
بعد فراغت ساری زندگی درس و تدریس ، فتویٰ نویسی اور حضو ر پر نور ﷺ کی شان اقدس میں نعت گوئی مدح سرائی میں بسر کی ۔ ۱۳۱۰ھ میں بجاری شریف میں مدرسہ مجددیہ اور ۱۳۱۲ھ میں مسجد شریف کے تعمیر کے کام سے فارغ ہوئے ۔
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ میں بعض کے نام درج ذیل ہیں :
مولانا محمد عمر مہیری ۔ مولانا محمد عارف مہیری ۔ مولانا امید علی ۔ مولانا محمد سلیمان جت ۔ مولانا عبدالصمد پرھیاڑ۔ مولانا
غلام محمد سولنگی ۔ مولانا محمد نورنگ زادہ ۔ مولانا حبیب اللہ سموں ۔ مولانا محمد قاسم جت ۔ مولانا محمد سالم ۔ وغیرہ
عادات و خصائل :
آپ عالم با عمل عاشق مصطفی ، شب بیدار عابد ، پرہیز گارمتقی، با اخلاق بامروت اور سادگی پسند تھے ۔ علم فقہ و فرائض میں خصوصی مہارت رکھتے تھے ۔ عظیم مدرس ، صاحب بصیرت مفتی اور صاحب تصانیف بزرگ تھے ۔ سادہ لباس ، سادہ طبیعت ، عوام الناس پر شفیق اور اساتذہ کی زیادہ سے زیادہ عزت کرتے تھے ۔ مذہب حنفیہ کے نہ صرف پیر و کار بلکہ سید نا امام اعظم ابو حنیفہ تابعی ﷺ کے سچے وفادار مقلد تھے اور آپ کے شیدائی تھے ۔ آپ فتویٰ حنفی مذہب پر دیتے تھے اور حنفی مسائل کو بڑی وضاحت دلائل و برہان سے مزین کر کے پیش کرتے تھے ۔
آپ نہایت ذکی و ذہین تھے کتابوں کی عبارات باحوالہ صفحہ تک بتا دیتے تھے ۔
شعر و شاعری :
آپ کا دل گداز تھا ، عشق رسول سے سر شار تھا ۔ نہ صرف سندھی کے شاعر تھے بلکہ عربی میں بھی شاعری کی ہے ۔ آپ کی تمام شاعری حمد و نعت ، قصیدہ و منقبت پر مشتمل ہے۔ آپ کی شاعری سے قوت مشاہدہ ، منظر نگاری اور بلند خیالی کا پتہ لگتا ہے۔
( لاڑکی ادبی و ثقافتی تاریخ ، از: ڈاکٹر غلام علی الانہ خواجہ مطبوعہ ۱۹۷۷ئ)
تصنیف و تالیف :
مولانا علی محمد مہیری صاحب تصانیف بزرگ تھے ۔ان کی درج ذیل کتب کا علم ہو سکا :
۱۔ آپ نے قصیدہ برد ہ شریف کا سندھی نظم میں ترجمہ کیا۔ یہ کام ااپ نے ۱۳۱۹ھ؍ ۱۹۰۱ء میں اس وقت کیا جب آپ کی عمر ۲۵ سال تھی ۔ مولانا نے اس کام کے لئے اپنے استاد محترم علامہ حامد اللہ میمن کے ذریعے مدینہ منورہ سے قصیدہ بردہ شریف کی دو عربی شرحیں (۱) حضرت شیخ ابراہیم باجوری(۲) ا س کے حامش پر شیخ خالد ازہری کی شرح منگوائی ۔ یہ منظوم سندھی قصیدہ سب سے پہلے بمبئی سے شائع ہوا ، او ر اس کے قلمی نسخے سندھ کی مختلف لائبریریوں میں محفوظ ہیں ۔ چند سال قبل تازہ سہ ماہی ’’الہدیٰ ‘‘نے عبد میلادالنبی ﷺ نمبر جاری کیا تو اس میں اصل قصیدہ کے ساتھ منظوم سندھی ترجمہ بھی شامل اشاعت کیا ہے۔ (سہ ماہی الہدیٰ شاہ پورچا کر میلاد النبی نمبر ۱۴۱۹ھ)اس طرح علامہ مہیری کا منظوم ترجمہ دوبار زیور طباعت سے آراستہ ہوا ہے ۔
۲۔ الفتح المبین فی صلح خدیبیہ ۔ یہ دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصے میں صلح حدیبیہ کا بیان ہے جو کہ ۳۲؍۳۳ صفحات پر دوسرے حصے میں سورہ الفتح کا منظوم ترجمہ ہے وہ بھی۳۲؍۳۳ صفحات پر مشتمل ہے ۔
۳۔ ناول عبرت عرف شیخ شبلی ۔ مولانا نے دینی مصروفیات کے باوجود سندھی ادب کی طرف بھی توجہ فرمائی سندھی ادب میں جدت لانے کے لئے اسلامی کہانیوں کو ادبی انداز میں منظوم ترجمہ کیا ۔ اس طرح سندھی ادب میں حسین پیرا یہ میں بیان کیا ہے ۔
۴۔ بجلی ناول ۔ یہ سب سے پہلے ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا ، زبردست مقبولیت حاصل کرلی تھی اس لئے ۱۹۵۲ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ۔
۵۔ تحفہ وطن ۔ اس میں مولانا کا اپنا کلام درج ہے جو کہ حمد ، نعت ، غزل ، مولود و مداح و منقبت پر مشتمل ہے ۔ طبع اول ۱۳۷۰؍۱۹۵۰ء میں شائع ہوا ۔
۶۔ قصیدہ الابل ۔ اس میں مولانا کا عربی کلام درج ہے۔
ان کے علاوہ مولانا کے فتاویٰ ، مکتوبات اور دیگر شاعری و نثری موا د قلمی صورت میں ہے جس پر کام کرنے کی اشد ضرور ت ہے ۔
مولانا کی سندھی ادب میں بے مثال خدمات ہیں ، سندھی لعنت میں خاص مہارت رکھتے تھے ۔ سندھی زبان کے سلسلہ میں علاقائی لب و لہجہ ، انداز کلام اور مختلف حروف کی ادائیگی کے حوالہ سے بھی بڑی مہارت رکھتے تھے ۔ آپ نے سندھی لغت لکھنے کا آغاز کیا تھا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی، انتقال کے بعد ورثاء نے وہ قلمی مواد ڈاکٹر بلوچ کو دے دیا تھا جو کہ ان دنوں سندھی لغت پر کام کر رہے تھے انہوں نے مولانا کی لغت سے استفادہ کیا۔ خاندانی روایت کے مطابق مولانا نے قرآن مجید کے منظوم سندھی ترجمہ پر کام کیا تھا ، جس کا ۱۵پارہ تک کام ہو سکا تھا ۔ طریقہ تحریر یوں تھا کہ سب سے پہلے آیت اس کے بعد حدیث وفقہ حنفی کا مسئلہ پھر شاہ بھٹائی کا شعر او ر آخر میں آیت کا منظوم ترجمہ۔
( مولانا علی محمد مہیری کی مطبوعات کا جائزہ ، مضمون نگار محترم حافظ حبیب سندھی)
۷۔ دیوان علی محمد
۸۔ تفسیر سورہ الفتح
۹۔ مجموعہ فتاویٰ
۱۰۔ سوانح شیطان
۱۱۔ حسن الا حتیاج (عربی)
۱۲۔ نسیم الھدیٰ فی سیرۃ المصطفیٰ وغیرہ (سندھ جا اسلامی درسگاہ )
اولاد :
مولانا مہیری کو پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں تولد ہوئیں ۔ ایک بیٹا مولانا محمد عارف مہیری بہترین عالم ، فقیہ اور ادیب تھے ۔ ( ایضا)اور ان کا بھی انتقال ہو چکا ہے ۔
وصال :
حضرت مولانا مفتی علی محمد مہیری نے ۲۱، شعبان المعظم ۱۳۶۷ھ؍۱۹۴۸ء کو ۷۳ سال کی عمر میںانتقال کیا۔ آپ کا مزار شریف تاریخی درگاہ ملا حسن کے شمالی جانب (تحصیل گونی ضلع بدین ) میں مرجع خلائق ہے۔ یہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ (سندھ جا اسلامی درسگاہ )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)