حضرت مولانا مفتی عطا محمد ر توی قدس سرہٗ
حضرت مولانا مفتی عطا محمد ر توی قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
عالم یگانہ ، عارف کامل حضرت مولانا مفتی عطا محمد رتوی ابن حضرت مولانا مفتی امام الدین قدس سرہما ۱۳۰۱ھ/۴۔۱۸۸۳ء میں بمقام رتہ شریف(تحصیل چکوال ) میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد جید عالم دین صاحب حال بزرگ اور حضرت مولانا خواجہ غلا م نبی قدس سرہ ( للہ شریف ) کے خلیفۂ مجاز تھے ۔ مولانا مفتی عطا محمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد والد ماجد سے سکندر نامہ تک فارسی کی کتابیں پڑھیں،بعدازاں کچھ دن موضع یوسف شاہ ( سرگودہا) اور کچھ دن بیربل شریف رہے پھر گوٹہ ضلع ملتان میں صرف وحو کے امام مولانا حافظ جمال اللہ (خلیفۂ مجاز حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی قدس سرہ ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تین سال کے عرسے میں متن متین اور قطبی تک کتابیں پڑ ھ لیں ، ازاں بعد استاذ محترم کی اجازت سے دہلی گئے اور کوچہ بلی ماراں میں قیام کیا ل یکن یہاں اطمینان حاسل نہ ہا اس لئے شہرئہ آفاق فاضل مولانا فضل حق رامپوری قدس سرہ کی خدمت میں رام پور حاضر ہوئے اور مدرسہ عالیہ میں داخل ہو کر سات سال تک درسیات کی کتب متداولہ کی تکمیل کی ۔ مولانا فضل حق رامپوری نے اسی مدرسی میں بحیثیت مدرس کام کرنے کی پیشکش کی لیکن مفتی صاحب نے عرض کیا کہ اس سلسلے میں والد ماجد سے اجازت لینا جروری ہے ، عریضہ ارسال کیا تو والد ماجد نے اجازت نہ دی اور تاکید واپسی کا حکم دیا چنانچہ آپ کو مجبوراً واپس آنا پڑا۔
مفتی صاحب کو والد ماجد نے بچپن ہی میں حضرت خواجہ دوست محمد للّٰہی قدس سرہٗ (م۱۳۱۸ھ /۱۹۰۰ء حلف شید حضرت خواجہ غلام نبی للّٰہی قدس سرہ)کے دست مبارک پر بیعت کرادیا تھا ، رامپور سے واپسی پر پہلے للہ شریف حاضر ہوئے ۔ سٹیشن پر اترے تو حضرت خواجہ محبوب الرسول قدس سرہ (م۱۳۳۰ھ/۱۹۱۱ئ) بہ نفیس نفیس استقبال کے لئے تشریف فرما تھے گھر پہنچنے پر والد ماجد نے تعفید کا کام آپ کے سپرد کر دیا اور موضوع رتہ ( تحصیل چکوال ) ایسا دور افتادہ دیہات آپ کے دم قدم سے گہوارئہ علمی بن گیا ۔ اٹھارہ بیس سال تک اس فریضہ کو باقاعدگی سے ادا کرتے رہے اور ساتھ ساتھ والد ماجد سے روحانی استفادہ کرتے رہے کیونکہ اپ کی رومپور سے واپسی سے پہلے ہی آپ کے مرشد حضرت خواجہ دوست محمد قدس سرہ کا وصال ہو چکا تھا ، بعد ازاں تعلیمی مشاغل سے کنارہ کش ہو کر عبادت و ریاضت اور خلق خدا کی اصلاح و ہدایت میں ہمہ تن مصروف ہو گئے ۔
مفتی صاحب اپنے دور کے بہتین مقرر اور خطیب تھے ۔ جب آپ روح پرور
آواز سے مثنوی شریف کے اشعار پڑھتے تو یو ں محسوس ہوتا تھا کہ پوری فضا جھوم رہی ہے للہ شریف میں معراج شریف کی تقریبات میں آپ کے والد ماجد نے تقریباً تیس سال تک اور مفتی صاحب نے چالیس سال تک شرکت کی اور حاضرین کو اپنے وجد آور بیانات سے مستفید کیا۔آپ کے علمی نکات اور حقائق و حکم سے معمور بیانات نصف شب سے شروع ہو کر صبح تک جاری رہتے ،سامعین کو محویت کے عالم میں رات کے گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا ۔
مفتی صاحب کے مریدین ، تلامذہ اور فیضیافتہ افراد کی بہت زیادہ تعداد ہے ، للہ شریف کے موجودہ سجادہ نشین حضرت صاحبزادہ الحاج محمد مطلوب الرسول مدطلہ العالی سات سال تک آپ سے روحانی استفاضہ کرتے رہے ہیں ،حضرت مفتی صاحب کے وصال کے بعد آپ کے چھوٹے صاحبزادے حضرت مولانا مفتی محمع عبد القدوس ہاشمی مذہبی رہنما گورنمنٹ کالج سر گودھا ، فاضل مرکزی حزب الاحناف لاہور (۱۹۵۴ئ) آپ کے جانشین ہوئے ، مولانا ہاشمی مدظلہ العالی جیدعالم دین اور خوش بان خطیب ہیں ، بری رسموں کو مٹانے اور اصلاح معاشرہ کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔
۱۰رجب ، ۱۰ فروری۱۳۷۶ھ/۱۹۵۷ء کو حضرت مفتی عطا محمد قدس سرہ کا وصال ہوا۔ موضع رتہ(تحصیل چکوال) میں والد ماجد کے پہلو دفن ہوئے ، ہر سا ۱۰ رجب کو مولانا مفتی عبد القدوس ہاشمی مدظلہ کے زیر اہتمام آپ کا عرس منایا جاتا ہے[1]
[1] عبید اللہ نقشبندی قادری ، قاری چکوال: قلمی یادادشت
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)