مولانا مفتی فتح علی جتوئی اکبر
مولانا مفتی فتح علی جتوئی اکبر (تذکرہ / سوانح)
حضرت علامہ مفتی فتھ علی بن میاں خیر محمد جتوئی ۱۲۸۵ھ میں ( تحصیل شاہ بندر ضلع ٹھٹھہ ) لاڈیوں کے قریب جتوئی قوم کے گوٹھ میں تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
ابتداء تعلیم اپنے نانا جان حضرت مولانا حاجی عبداللہ جتوئی سے حاصل کی۔ اس کے بعد حضرت مولانا عبدالرحیم ٹھٹوی کے مدرسہ میں داخلہ لیا اور وہیں نصاب کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے ۔
بیعت :
آپ ، قاطع نجدیت حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی قدس سرہ سے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں مرید و خلیفہ خاص تھے۔ ( بروایت مولانا عبدالحئی جتوئی ، جاتی )
درس و تدریس :
بعد فراغت اپنے نانا جان کے مدرسہ سے درس و تدریس کا آغاز کیا۔ پوری زندگی درس و تدریس سے منسلک رہے۔ ذکاوت ، ذہانت ، قوت فیصلہ اور علوم شریعت میں مہارت تامہ کے سبب پورے لاڑ سے استفتاء آنے لگے جس کے آپ مدلل جواب تحریر فرماتے تھے۔
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ کثیرہ میں سے بعض نام معلوم ہو سکے جو کہ درج ذیل ہیں :
٭ مولانا حاجی عبدالرحمن جتوئی
٭ مولانا عبدالرحمن جمالی
تصنیف و تالیف :
آپ نے بعض درسی کتابوں پر حواشی اور شرحیں بھی تحریر فرمائی تھیں ۔ فتاویٰ کا مجموعہ بھی تھا جس کی ترتیب و تدوین نہ ہو سکی ۔ اس کے علاوہ علمی تحقیقات پر مشتمل ایک قلمی بیاض آپ کی یاد گار ہے ۔ جو کہ ’’بیاض مفتی فتح علی جتوئی ‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور دارالعلوم مجددیہ نعیمیہ ملیر کراچی کی لائبریری میں محفوظ ہے۔
ڈیپلو( تھر ) کے نامور گستاخ رسول مولوی عبدالرحیم پچھی اہلحدیث سے آپ نے تحریری مناظرہ کیا ۔ اس تحریری مناظرہ میں علامہ جتوئی نے اپنے موقف میں قرآن و احادیث سے دلائلو برہان تحریر فرما کر عبدالرحیم پچھی کو شکست فاش سے دو چار کیا۔ اور مناظرہ کی روئیداد ’’ القول السلیم فی جواب عبدالرحیم ‘‘ ۱۳۳۵ھ ؍ ۱۹۱۶ء میں شائع فرمائی ۔
آپ ایک مقام پر رقمطراز ہیں : ’’مذکوہ بالا تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ انبیاء کرام و اولیائے کرام سے مدد لینا ، وسیلہ پکڑ نا ان کی حیات ظاہری میں اور ان کے وصال کے بعد ثابت ہے، جائز ہے ‘‘۔ ( بیاض قلمی ص ۲۶)
مزید لکھتے ہیں : ’’انبیاء و اولیاء کو سبب اور وسیلہ سمجھتے ہیں جیسا کہ ’’ صلح الاخوان ‘‘ میں ہے کہ جو امور مقدور بشر سے خارج ہیں وہ بھی انبیاء و اولیاء سے مانگنا جائز ہیں ، وہ حضرات محض سبب اور وسیلہ ہیں ۔ قاد ر حقیقی اللہ تعالیٰ ہے ۔ انبیاء و اولیا ء کی طرف نسبت مجازی ہے ۔ نسبت مجازی کا ذکر قرآن شریف میں ہے اور ’’اصول اربعہ ‘‘ ( موٗ لف خواجہ حسن جان سر ہند ی ) میں ہے کہ اولاد دینے والا اللہ تعالیٰ ہے اور مجاز حضرت جبریل علیہ السلام ہیں ، سیدہ مریم کو فرمایا’’ میں تمہیں ایک صاف ستھرا بیٹا دیتا ہوں ‘‘۔ اب کوئی کہے میں تمہیں بیٹا دیتا ہوں یا سائل کہے مجھے بیٹا دے تو آپ ( وہابی ، دیوبندی ، نجدی ، غیر مقلد ، تبلیغی مودو دی و غیرہ ) سائل کو جلدی میں کفر کے فتویٰ سے نوازدیں گے ، پھر تو شاید ملک ( فرشتہ ) جبریل کو بھی کفر کا حکم دیں گے ۔ اللہ اکبر !( بیاض قلمی ص ۲۳وہابی، علماء سندھ کی نظر میں ص ۶)
اس کے علاوہ دیوبندی کانگریسی مولوی صادق ( کھڈہ مارکیٹ لیاری کراچی ) کا بھی علامہ جتوئی نے ردشدید فرمایا تھا۔ ( وہابیت جاانوکھا انداز ص ۲۳)
عادات و خصائل :
علامہ جتوئی اہل سنت کے نامور عالم ، فقیہ ، قاضی ، خوف خدا سے سرشار ، عاشق رسول ، پرہیز گار ، شب بیدار ، بااخلاق ، مہمان نواز ، شریعت مطہرہ کے پابند ، بدعت کے خلاف ننگی تلوار تھے۔ جب آپ اسلامی عدالت لاڑ کے قاضی مقرر ہوئے تو ۵۱۔ ۱۹۵۰ء میں شیعہ فرقے کو تحصیل شاہ بندر سے شہر بدر کا حکم جاری فرمایا۔ آپ شیعہ کے ماتم ، سینہ کوبی ، عزاداری ، تعزیہ ، علم ، تابوت اور تبرا بازی سے سخت متنفر تھے۔ آپ صاحب کرامت بزرگ تھے، آپ کی کرامات عوام الناس میں مشہور ہیں ۔
اولاد :
آپ کو تین بیٹے تولد ہوئے ۔
۱۔ میاں خیر محمد
۲۔ مولانا حاجی عبدالرحمن جتوئی
۳۔ میاں حبیب اللہ جتوئی
آپ کی اولاد چوہڑ جمالی میں سکونت پزیر ہے۔
وصال :
حضرت علامہ مفتی فتح علی جتوئی ۱۲، ربیع الآخر ۱۳۵۸ھ ؍ ۱۹۳۹ء کو ۷۳سال کی عمر میں انتقال کیا۔ آپ کی مزار شریف جتوئی قوم کے گوٹھ میں ’’مولانا فتح علی قبرستان ‘‘ میں مرجع عوام ہے۔
یہ گوٹھ درگاہ حضرت شاہ یقیق ؒ اور لاڈیوں کے قرب و جوار میں ہے۔ آپ کے وصال پر حضرت علامہ مفتی علی محمد مہیری ؒ نے سندھی میں منقبت کہی ۔ ( ٹھٹھہ صدین کان )
(انوارِ علماءِ اہلسنت )