مرد درویش مولانا مفتی غلام محمد قاسمی
مرد درویش مولانا مفتی غلام محمد قاسمی (تذکرہ / سوانح)
استاد العلماء فنافی الشیخ ، مرد درویش حضرت مولانا مفتی غلام محمد قاسمی بن خمیسو خان بگھیو گوٹھ شاہ حسن ضلع دادو میں غالبا ۱۹۲۵ء کو تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت:
گوٹھ شاہ حسن سے پرائمری کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد دادو اور کراچی کے اسکول و کالج سے دنیوی تعلیم حاصل کی ۔ بعد فراغت گورنمنٹ ہائی اسکول دادو میں انگریزی سبجیکٹ کے استاد مقرر ہوئے۔ وہ دادو میں استاد تھے انہی دنوں کی بات ہے کہ حضور قبلہ عالم ، تاج العارفین ، فقیہ اعظم ، بحر حضرت خواجہ محمد قاسم مشوری قدس سرہ دادو دعوت پر تشریف فرما ہوئے ، حضرت کی نظر کے شکار ہو گئے ۔ ایک نظر میں ’’تم ہمارے ہم تمہارے‘‘ کی مصداق کا معاملہ تھا۔ ایک جھلک دیکھ کر بے قرار دل کو قرار مل گیا ، آنکھوں کو سرور مل گیا۔ زندگی میں ایسا انقلاب آیا کہ ساری حیاتی حضرت کے ہو کر رہے۔
تیرے قدموں میں آنا میرا کام تھا
میری قسمت جگانا تیرا کام ہے
پہلی ملاقات کے بعد جلد ہی درگاہ معلی مشوری شریف حاضر ہو کر بیعت ہوئے۔ ذکر شریف کے ورد اور آپ کی صحبت کیمیا کا کمال ہے کہ غلام محمد شریعت مطہرہ کے قالب میں ڈھل گئے اور حصول علم دین میں مصروف ہو گئے ۔ کامل مرشد کی توجہ اور اپنے شوق و ذوق کے سبب جلد ’’مدرسہ عربیہ قاسم العلوم ‘‘ میں درس نظامی میں تکمیل کی درگاہ مشوری شریف میں سالانہ جلسہ عید میلادالنبی ﷺ کے عظیم الشان اجتماع میں آپ دستار فضیلت سے سر فراز ہوئے۔
بیعت و خلافت:
مفتی غلام محمد قاسمی ، سر کاری مشوری ؒ سے ابتدا میں سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہوئے۔ اس کے بعد فارغ التحصیل ہوئے اس کے بعد باقاعدہ تصوف کی تعلیم حاصل کی ۔ سلوک کی منازل طے کی اور طریقت قادریہ راشدیہ کی نامور کتاب صراط الطالبین ( فارسی ) کا حضور قبلہ عالم سے درس لیا۔ اور ادو وظائف ، حزب البحر اور دلائل الخیرات وغیرہ کے اجازت یافتہ و عامل تھے۔ نوافل تہجد و اشراق کے پابند ، شب بیدار ، اور طبیعت کے انتہائی سادہ تھے۔ صاحب تلقین و ارشاد تھے لیکن کسی کو بیعت کرنا مشہور نہیں ۔ اپنے آپ کو گمنام رکھتے تھے۔
درس و تدریس :
نوکری ، دادو ، اور رشتہ دار سب کو چھوڑ کر درگاہ مشوری شریف میں مستقل سکونت اختیار کی۔ حضور قبلہ نے دو کمروں پر مشتمل گھر عطا کیا جس میں بال بچوں کے ساتھ رہنے لگے ۔ مرشد کامل کی صحبت ، درس و تدریس ، فتاویٰ نویسی اور پریس کی نگرانی میں بقیہ زندگی گذاری ۔ حضور قبلہ عالم کے چہیتے شاگرد تھے، حضور نے مفتی غلام محمد کو مدرسہ عربیہ قاسم العلوم کا مدرس اور نائب مفتی مقرر کیا تھا اور آپ عمر بھر یہ خدمت بخوبی انجام دیتے رہے۔ دارالعلوم کے اکثر طلباء آپ سے شرف تلمذر رکھتے ہیں اور درگاہ شریف پر ’’استاد صاحب ‘‘کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے ۔ حضور قبلہ عالم کے پوتے و نواسے سبھی آپ کے شاگر ہیں ۔
قدموں کو میں نے چوما ہے قدموں میں بیٹھ کر
عرش بریں کو دیکھا ہے قدموں میں بیٹھ کر
توکل و ایثار:
آپ کی شخصیت حمیت اسلام ،اخلاص وللہیت کی دولت سے مالا مال تھی۔ ہمیشہ متوکل اور گوشہ نشین رہے، اپنی دھن میں مست رہے۔ سادگی اور گمنامی میں رہنا پسند کیا۔ مسکین ہونے کے باوجود سادات کو نذرانہ اور غرباء کو خیرات دیا کرتے تھے۔ حضور پر نور ﷺ کے سچے عاشق اور مرشد کامل میں فنا تھے ۔
اشاعتی خدمات :
حضرت قبلہ عالم سرکار مشوری ؒ کے تربیت یافتہ شاگرد ، بافیض خلیفہ اور علمی جانشین تھے ۔ مفتی غلام محمد نے دو فقراء سے مل کر درگاہ شریف پر ’’قاسمیہ پرنٹنگ پریس ‘‘ قائم کی اور مرشد کریم کی تصانیف کو طباعت کے زیور سے آراستہ کیا۔ مرشد کریم کی نگار شات کی اشاعت ان کی زندگی کا اہم مقصد تھا۔ وہ اشاعت کے تمام مراحل کی خود نگرانی کرتے ، پروف ریڈنگ کا مشکل و اہم کام بھی خود بنفس نفیس سر انجام دیتے ۔
مواعظ قاسمیہ :
حضرت قبلہ کی علمی روحانی و انقلاب آفرین خطبات کو سماعت کے وقت کاغذ پرپنسل سے نقل کرتے تھے اور بعض تقاریر کیسٹ سے منتقل کی۔ پھر ان کو ’’الکلمات الطیات ‘‘یعنی ’’مواعظ قاسمیہ ‘‘ کے نام سے ایک تبلیغی سلسلہ شروع کیا اور ان مواعظ کو قسطوں میں چھوٹے رسائل کی صورت میں شائع کیا۔ ایسے ( ۱۷)رسائل چھپوا کر عام کئے ۔
خطبات سائیں بادشاہ :
اس کے علا وہ بھی تقاریر کو نقل کیا جس کی صا ف کاپی لکھنا باقی تھی کہ آپ وصال فرما گئے اس لئے حضرت صاحبزادہ مولانا منیر احمد مشوری مدظلہ العالی نے اس مجموعہ کو ترتیب دیا، عنوانات قائم کئے۔ اس کے بعد کمپوزنگ ہوئی ، صاحبزادہ صاحب نے پروف ریڈنگ کی اور فقیر راقم نے ’’خطبات سائیں بادشاہ ‘‘ کا نام تجویز کیا اور کتاب کے جامع مفتی غلام محمد کی سوانح لکھی اور درگاہ شریف کے شعبہ نشر و اشاعت کی جانب سے دو حصوں میں شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔
صراط الطالبین :
اذکار و افکار پر عظیم تصنیف ہے اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ میں محفوظ تھا اس فارسی نسخہ کا سندھی میں ترجمہ کیا۔
اردو تقریریں :
قبلہ عالم حضرت فقیہ اعظم ؒ نے ملک کے مختلف مقامات پر اردو زبان میں خطاب فرمایا۔ ان خطبات کو آپ نے کیسٹ سے کاغذ پر منتقل کر کے کتابی صورت میں شائع کیا۔ حضرت قبلہ عالم کی تقریبا ۱۶ کتابیں اپنے اہتمام میں پریس سے کمپوز کروائیں ، پروف ریڈنگ کی ، اس کے بعد کاغذ کی خریداری ، ان تمام مراحل سے گذر کر یہ شائع ہوئیں ۔
مفتی غلام محمد بگھیو کا سب سے اہم و عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے حضور فقیہ اعظم قبلہ ؒ کے فتاویٰ شریف جو کہ منتشر تھے ان کی ترتیب تدوین تزئیں او ر تقسیم ابواب کا کام کیا۔ یہ احسان عظیم جماعت اہل سنت عموما اور جماعت قاسمیہ خصوصا نہ بھولے گی۔
الحمد للہ !درگاہ شریف کے شعبہ نشر و اشاعت سے ’’فتاویٰ قاسمیہ‘‘ ۲ جلدوں میں جدید کمپوزنگ و طباعت سے آراستہ ہو کر شائع ہو کر سندھ بھر میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں ۔
مفتی غلام محمد نے درگاہ عالیہ مشوری شریف ( ضلع لاڑکانہ سندھ ) کے شعبہ نشر و اشاعت کا محاذ تقریبا ۱۹۶۰ء میں سنبھالا اور ۱۹۹۸ء تک مسلسل ۳۸ سال بغیر کسی دنیوی لالچ ، تجارت ، نام و شہرت کے ، فقط جذبہ تبلیغ سے مسجد شریف کے ایک کونے میں چٹائی پر بیٹھ کر کام کیا۔
اولاد:
مفتی غلام محمد بگھیو کو تین بیٹے تولد ہوئے جو کہ خود بھی صاحب اولاد ہیں :
۱۔ مولوی محمد المعروف نالے مٹھو بگھیو
۲۔ احمد بگھیو
۳۔ فقیر محمد بگھیو
تلامذہ:
دارالعلوم عربیہ قاسم العلوم مشوری شریف سے اکثر فارغ التحصیل آپ کے بھی شاگرد ہیں :
٭ استاد العلماء مفتی محمد عبدالرحمن قاسمی پھنور لاڑکانہ
٭ مولانا مفتی علی بخش قاسمی دادو
٭ صاحبزادہ مولانا منیر احمد مشوری شریف وغیرہ وغیرہ
وصال :
فنافی الشیخ مفتی غلام محمد قاسمی نے ساری زندگی دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں صرف کی۔ وصال کے دن بعد نماز فجر معمولات و وظائف سے فارغ ہو کر بدستور طلباء کو درس دیا ۔ بعد فراغت وراثت کے متعلق فتویٰ تحریر فرمایا۔ دن خیر و خوبی سے گذر گیا۔ رات کو سحری کے وقت ۷، اکتوبر ۱۹۹۸ء بمطابق ۱۵جمادی الآخر ۱۴۱۹ھ ، بروز بدھ ۷۳ سال کی عمر میں علم و عمل کا چراغ بجھ گیا۔ مرشد کریم کے آستانہ پر عمر گذاری ، وہیں انتقال کیا ، وہیں دفن ہوئے۔ سبحان اللہ !
(انوارِ علماءِ اہلسنت )