مولانا مفتی احمد علی قاسمی
مولانا مفتی احمد علی قاسمی (تذکرہ / سوانح)
مولانا مفتی احمد علی بن محمد عرس دایو گوٹھ ٹھوڑی (نزد راہو جاوایا خیر پور ناتھن شاہ ضلع دادو سندھ) میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
بلوچ کے مدرسہ میں داخل ہو کر مروجہ نصاب مکمل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت:
آپ فقیہ الاعظم ، بحر العلوم والفیوض، تاج العارفین حضرت خواجہ محمد اسم مشوری قدس سرہٗ کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہوئے۔
مدرسہ کا قیام:
بعد فراغت اپنے آبائی گوٹھ واپس ہوئے اور مدرسہ قائم فرما کر پوری زندگی بغیر کسی دنیوی فوائد کے فقط توکل پر درس و تدریس کا عمل جاری رکھا۔
آپ صف اول کے مدرس تھے۔ اول تا آخر تمام نصابی کتب خود پڑھایا کرتے تھے۔ فن تدریس میںمانے ہوئے استاد تھے۔ مشکل لا ینحل مسائل کو چٹکیوں میں حل فرماتے تھے۔ دوران تقریر طلباء کو نوٹ لکھواتے تھے تاکہ ان میں لکھنے کی صلاحیت اجاگر ہو۔ اس کے علاوہ خوش نویسی پر بھی خصوصی توجہ فرماتے تھے۔
عادات و خصائل:
مولانا سادگی پسند ، شرعیت پاک کے پابند ، پرہیزگار، اخلاق و اخلاص کی تصویر، عاشق رسول، بے لوث مبلغ اسلام، حق گو خطیب اور بے ریا مقرر تھے۔ جاگیرداروں وڈیروں کے برے کرتوتوں پر دلیری سے تنقید کرنے والے مجاہد، کسانوں مزدوروں کے ہمدرد اور ان کے حقوق کیلئے لڑنے والے شیر، بغیر تنخواہ کے روکھی سوکھی پر قناعت کرنے والے مدرس اور بے مثال متوکل تھے۔ طلباء پر اس قدر شفیق کہ جب وہ چھٹیاں گزارنے اپنے گھروں کو جاتے تو روتے ہوئے انہیں رخصت کرتے اورجب چھٹیاں گزار کر واپس ہوتے تو آپ گوٹھ سے باہر نکل کر اسٹاپ پر شاگردوں کا استقبال کرتے جیسے معزز مہمانوں کا استقبال کیا جاتا ہے۔
شروع میں تقریر سے دلچسپی نہیں تھی لیکن بعد میں عقائد و اعمال کی اصلاح کی غرض سے ہر جمعہ کو مدلل خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔
گورنمنٹ نے جو بعد میں کچھ عرصہ سے علماء کو اسکول میں عربی ٹیچر وغیرہ بھرتی کرنے لگی ہے، آپ اس عمل کو چند وجوہات کی بناء پر پسند نہں کرتے تھے مثلاً:
۱۔ علماء سے توکل ختم ہوجائے گا
۲۔ علماء پر انگریزی ماحول کا اثر ہوگا کہ عمامہ اتار دیں گے۔
۳۔ صبح کا ٹائم درس و تدریس کا ہے لیکن اس وقت اسکول میں ہونے کی بنا پر درس و تدریس کی خدمت نہ ہو سکے گی وغیرہ وغیرہ
تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ہر چیز دیسی پسند کرتے تھے، انگریزی تہذیب کے ساتھ ان کی ہر مصنوعات کو نا پسند کرتے ھتے یہاں تک ہانگریزی علاج (ایلوپیتھک) کو بھی نا پسند کرتے تھے اور زندگی میں کبھی بھی ٹیبلیٹ ، کیپسول اور انجکشن استعمال نہیں کیا۔ آپ کی زندگی تقویٰ اور سادگی سے عبارت تھی، اوڑھنا بچھونا، کھانا پینا سادہ تھا، صفائی سھترائی کو نہایت پسند کرتے تھے۔
آپ کا کتب خانہ بھی نہایت وسیع تھا جس میں آپ کے استاد محترم کا ذخیرہ کتب بھی شامل تھا، آپ نے مطبوعہ اور قلمی کتب کا خزانہ محفوظ کیا ہوا تھا۔ یقینا آپ کی زندگی پر آپ کے مرشد کریم اور استاد محترم کی صحبت کا گہرا اثر تھا۔
مناظرہ:
آپ نے تدریس کے علاوہ فتاویٰ نویسی، تحریر، تقریر اور اعلیٰ عملی کردار کے ذریعے اسلام و سنیت کی خوب تبلیغ کی۔ آپ اپنی تقاریری کے ذریعے عوام الناس کو مذاہب باطلہ شیعہ اور وہابیہ وغیرہ کے گمراہ کن عقائد و نظریات سے آگاہ کرنا اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھا کرتے تھے۔ آپ نے اس خدمت کو بخوبی انجام دیا۔ آپ نے بارہا فرقہ باطلہ کے مناظرین کو میدان عمل میں آنے کی دعوت دی لیکن شیر اہل سنت کے سامنے آنے کی کسی کو ہمت ہیں ہوئی تھی۔
ایک بار بوہابیوں کے مشہور مناظر مولوی محمد علی راہو جو دیوبندی سے سے آپ کے کا حضور اکرم ﷺ کے نور و بشر اور علم غیب کے موضوع پر مناظرہ ہوا۔ دیوبندی مناظر کو وہ رسوائے زمانہ شکست ملی کہ ہوش و ہواس کے طوطے اڑ گئے تھے۔ اس کے بعد کسی اور نے خود دیوبندی مناظر محمد علی نے مناظہر میں آنے کی ہمت نہیں کی۔ اس کے علاوہ آپ نے تحریری مناظرے بھی کئے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے علم دین پر کامل دسترس رکھتے تھے، اعلیٰ ذہانت ، حاضر جوابی، متکلم ، حق گوئی و بے باکی اور عالمانہ دبدبہ سے مخالف پر چھا جاتے تھے۔
تصنیف و تالیف:
آپ تحریر کی اہمیت و ضرورت سے بخوبی واقف تھے اسلئے اس شعبہ میں بھی گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔
٭ فتاویٰ احمدیہ: آپ فتویٰ نویسی کے فن میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ علم میراث میں سند کی حیثیت رکھتے ھتے۔ اسلئے استفتاء کی کثرت کی وجہ سے بے شمار فتاویٰ تحریر فرمائے تھے۔ آج اس کی ترتیب و تدوین کی ضرورت ہے۔
٭ مختلف درسی کتب پر حواشی تحریر فرمائے۔
٭ مولوی محدم علی دیوبندی کے رسالہ ضیاء الھدیٰ کا رد بلیغ تحریر کیا۔
٭ کلہاڑ (سندھی) یہ بھی مولوی محمد علی دیوبندی کے رسالہ کے رد میں ہے۔
تلامذۃ:
آپ نے شاگردوں کی جماعت تیار کرکے کاچھے جیسے پسماندہ علاقہ میں علم کے چراغ روشن کئے ان میں سے بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
٭ مولانا مفتی محمد ہاشم قاسمی صدر مدرس جامعہ عربیہ قاسم العلوم درگاہ عالیہ مشوری شریف
٭ مولانا محمد قاسم قاسمی خطیب و امام جامع مسجدمدینہ سیوہن شریف
٭ مولانا عبدالمجید جلالی گوٹھ دین محمد شاہانی
٭ مولانا عبدالعزیز منگی پیش امام پولیس ہیڈ کوارٹر مسجد دادو
٭ مولانا محمد صالح پھنور خیر پور ناتھن شاہ
٭ مولانا بشیر احمد چانڈیو
٭ مولانا غلام رسول کھوسہ بلوچ
٭ مولان امنظور احمد ابڑو
اولاد:
آپ کو ایک بیٹی اور دو بیٹے
۱۔ حکیم عبدالقادر
۲۔ مولوی پیر بخش دایو تولد ہوئے۔
وصال:
مولانا مفتی احمد علی قاسمی نے ۲۱ رمضان المبارک ۱۳۸۵ھ بمطابق ۱۹۶۶ء کو انتقال کیا۔ آخری آرام گاہ استاد محترم مفتی دین محمد بلوچ علیہ الرحمۃ کے پہلو میں مشہور صوفی بزرگ میاں نصیر محمد کلہوڑو (نزد ککڑ، وایا خیر پور ناتھن شاہ ضلع دادو) کے قبرستان میں واقع ہے۔
(مولانا مختار احمد قاسمی خطیب نورانی مسجد دادو نے مذکورہ مواد بھجوایا جس کیلئے فقیر مشکور ہے۔)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)