مولانا مفتی محمد ہالا والے
مولانا مفتی محمد ہالا والے (تذکرہ / سوانح)
مولانا مفتی حاجی محمد بن آخوند محمس اسماعیل بن آخوند دین محمد ۲۷ رمضان المبارک ۱۲۷۶ھ کو ہالا پرانہ ضلع حیدرآباد میں تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت:
صرف و نحو کی تعلیم ہالانواں میں مولانا خلیفہ حاجی عبداللطیف سے حاصل کی، اس کے بعد پاٹ شریف جانا ہوا جہاں علامہ الزمان ، تاج الفقہا مخدوم حسن اللہ صدیقی کے پاس بعض کتب کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں سے حیدرآباد کا رخ کیا اور جامع العلوم استاد العلماء حضرت علامہ مولانا محمد حسن قریشی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں جامع مسجد مائی خیری میں رہ کر بقیہ علوم و فنون میں تحصیل کی۔
سفر حرمین شریفین:
ربیع الاول ۱۳۰۹ھ کو سفر حرمین شریفین اختیار کیا۔ حج بیت اللہ کے بعد روضہ اطہر ، آرامگاہ پاک پیغمبر ﷺ کی حاضری کیلئے مدینہ منورہ کا سفر اختیار کیا۔ تقریباً ایک سال کا عر۴صہ قیام کیا۔ اس دوران حضرت مولانا شیخ عبدالحق محدث الہ آبادی ثم مکی (مصنف : الدر المنظم فی حکم مولد النبی الاعظم) سے اولیات احادیث پڑھ کر حدیث فقہ اور اصول فقہ میں سند حاصل کی۔
درس و تدریس:
بعد فراغت استاد محترم کی نگرانی میں مدرسجہ جامع مسجد مائی خیری میں ۲۔۳ سال درس دیا۔ اس کے بعد ہالا پرانہ میں واپس آئے اور ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ قائم کیا۔ درس و تدریس فتویٰ نویسی اور تصنیف و تالیف جیسے اہم اور مفید کام میں مصروف رہے۔
بیعت:
حضرت مولانا شیخ ولی محمد بن شیخ محمد اسحاق ساکن ملا کا تیار (تحصیل ٹنڈو محمد خان ضلع حیدرآباد) سے آپ سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت خواجہ حاجی مولانا عبدالرحمن سرہندی مجددی سے سلالہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے۔ دونوں بزرگوں سے سلوک طے کیا اور طریقت کے رموز سیکھے اور معرفت حاصل کی۔
عادات و خصائل:
مولانا کی طبع جلالی اور بے پرواہ تھی۔ بے ریا و حق گو عالم تھے متقی پرہیزگار، تہجد گزار، شب خیز بزرگ تھے۔ مثنوی مولان اروم و مکتوبات امام ربانی پر عبور حاصل تھا۔ تصوف کے نتکہ دان و نکتہ سنج تھے۔ اللہ عزوجل ک رضا پر صابر و شاکر تھے۔ اللہ عزوجل کی ذات پر کامل بھروسہ رکھتے تھے۔ اس لئے زمیندار و جاگیردار کے پاس زکوٰۃ عشر و خیرات کیلئے پھیرے نہیں لگاتے تھے۔ ان کو یقین تھا جو روزی مقرر ہے و مالک کی طرف سے ضرور ملے گی۔ اس لئے یکسوئی کے ساتھ دین اسلام و مذہب مہذب اہل سنت احناف کی تبلیغ و نشر و اشاعت میں مصروف رہے۔
تصنیف و تالیف:
مولانا صاحب تصنیف بزرگ تھے ۔ درج ذیل کتب ان کے رشحات قلم کا نتیجہ ہیں۔
٭ الفتاویٰ المحمدیہ فی احکام الحمدیہ (عربی ۲ جلدیں)
٭ فتاویٰ احمدیہ (سندھی)
٭ خلاصۃ الآثار المحمدیہ والخبار الاحمدیہ ﷺ (عربی)
٭ مسائل اربعین فی سنۃ سید المرسلین ﷺ
٭ المسائل الخمسۃ فی دفع توھمات الشیعہ (سندھی) شیعیت کا رد
٭ تمام العنایۃ ترجمہ بھدایۃ الھدایہ (سندھی)
٭ فیض الصمد ترجمہ ایھا الولد (سندھی) تصنیف : امام غزالی علیہ الرحمۃ
٭ رموز الفرقان (سندھی)
٭ کشف الجان (سندھی)
٭ شرح ماۃ احادیث (سندھی)
٭ حقوق الزوجین (سندھی)
٭ قصہ بیبی بلقیس (سندھی)
٭ حل الترکیب منطق (عربی)
٭ دووایو (عربی سندھی)
٭ خلاصہ الاصول
٭ عشرین مسائل (فارسی)
٭ رسالہ در امور طبیہ
٭ رسال ہدر معرفت نبض و قارورہ وغیرہ
تلامذہ:
آپ کے شاگردوں میں سے بعض کے نام م علوم ہوسکے وہ درج ذیل ہیں:
٭ مولانا حاجی عبدالرحمن سمون ساکن نصر پور
٭ مولانا مولسی جان محمد بختیار پوری بختیار پر نزد بوبک اسٹیشن تحصیل سیوہن شریف
٭ مولانا خلیفہ جان محمد بدین
٭ مولانا حکیم قاضی معین الدین ہالانیو
٭ مولانا خلیفہ حافظ حاجی محمد ہالانیو
٭ صاحبزادہ مولانا میاں احمد ہالانیو
٭ صاحبزادہ حکیم مولانا میاں عبداللہ ہالانیو دونوں مولانا مرحوم کے بیٹے تھے۔
وصال:
مولانا مفتی حاجی محمد نقشبندی ۴ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ/ ۱۹۱۸ء کو شب جمع فاجل کے عارضی مرض کے سبب ۶۰ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ آپ کی مزار ہالا پرانہ میں مرجع خلائق ہے۔
اس ملت حضرت مولانا قاضی سید اسد اللہ شاہ ’’فدا‘‘ ٹکھڑ والے نے قطعہ تاریخ وصال کہا جو کہ لوح مزار پر درج ہے
جناب مولوی حاجی محمد محمدت مظہر
مہ برج مکارم مطلع الانوار علامہ
بہ علم و حلم شرع و ورع و تقویٰ اوحد و اکمل
قیام دین محب ایزد غفار علامہ
بہ معقولات بے بدل، بہ منقولات بے ہمتا
بہ کشف معضلات علم گوہر بار علامہ
بچہارم ربیع الآخر و شب جمع داخل شد
بجنت خلد تجری تحتھاالنھار علامہ
چو استفسار رفت از بھر سال وصل آن اقدس
’’فدا‘‘ احقر رقم زد ’’مخزن الاسرار علامہ‘‘
(مضمون نگار: علامہ کے شاگرد ارشد مولانا محمد (ہالا)۔ مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ء ۔ تذکرہ مشاہیر سندھ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )