مولانا مفتی محمد حسین ٹھٹوی
مولانا مفتی محمد حسین ٹھٹوی (تذکرہ / سوانح)
ٹھٹھہ کے صدیقی خاندان کے چشم و چراغ ، علم و عمل کے روشن ستارے ، نامور خطیب حضرت مولانا حافظ مفتی محمد حسین بن مولانا حافظ پیر محمد صدیقی ۱۳۱۷ھ میں ٹھٹھہ ( سندھ ) میں تو لد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
مفتی محمد حسین نے اپنے والد ماجد حافظ پیر محمد صدیقی کے پاس قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد حفظ کی دولت سے سر فراز ہوئے۔ فارسی و عربی کی تعلیم کیلئے استاد العلماء فخر اہل سنت حضرت علامہ عبدالکریم درس مہتمم مدرسہ درسیہ کراچی کی خدمات حاصل کی۔ اس کے بعد مٹیاری میں حضرت مولانا محمد عمر جان سر ہندی اور استاد العلماء حضرت علامہ قاضی لعل محمد مٹیاری سے نصاب کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت :
آپ سلسلہ نقشبندیہ میں قاطع نجدیت حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی فاروقی قدس سرہ سے دست بیعت تھے۔ ( بروایت محترم حافظ حبیب سندھی )
درس و تدریس :
بعد فراغت ٹھٹھہ شہر میں اپنے خاندانی مدرسہ عربیہ اسلامیہ میں درس و تدریس کا مشغلہ جاری کیا ، اور جامع مسجد شاہجہانی میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔
جامع مسجد شاہجہانی :
ٹھٹھہ (سندھ ) کی شاہجہانی مسجد معماری کے نادر نمونوں میں سے ایک ہے۔ مسجد کی تعمیر مغل بادشاہ شاہجہان کے حکم سے ۱۰۵۴ھ بمطابق ۱۶۶۷ء میں تین سال کے عرصے میں مکمل ہوئی ۔ مسجد کا رقبہ ۶۳۱۶ مربع گز ہے۔ مسجد کے تعمیراتی کام کی نگرانی اس وقت کے گورنر امیر خان نے کی۔ تعمیراتی کام پر نولاکھ روپے خرچ ہوئے جو قومی خزانے سے ادا کئے گئے ۔ جامع مسجد شاہجہانی کی بنیاد رکھنے کے بارے میں روایت مشہور ہے کہ شاہجہان کسی بھی مسجد کی بنیاد رکھنے کے لئے ہمیشہ اس مسلمان کو کہتا تھا جس نے کبھی تہجد قضا نہ کی ہو ۔ چنانچہ ٹھٹھہ کی شاہجہانی مسجد کی بنیاد رکھنے کیلئے بھی یہی اعلان کروادیا لیکن کوئی بھی آدمی سامنے نہ آسکا ۔ اس بات کے پیش نظر کہ شاید کوئی تہجد گزار بندہ اپنا راز عیاں کرنے نہیں چاہتا۔ اعلان کرادیا گیا کہ تہجد گزار رات کے اندھیرے میں مسجد کی بنیاد رکھ دے ۔ دوسری صبح دیکھا گیا تو مسجد کی بنیاد رکھی جا چکی تھی اور یوں یہ بات اس مسجد کے لئے باعث امتیاز ہوگئی کہ اس کی بنیاد بوقت تہجد ، تہجد گزار بندہ کے ہاتھوں رکھی گئی ۔ مسجد شریف کی گہرائی بھی اتنی ہی ہے جتنی مسجد کی کل اونچائی ہے۔مسجد کا صدر دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ہے کیوں کہ ساری زندگی مسجد کی خدمت کے لئے وقف کرنے والے عبدالرحمن صدیقی نے اپنی خدمات کے صلے میں مسجد کے صدر دروازے کے سامنے مدفن ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ جہاں ان کی مزار ہے۔ ( عبدالرحمن صدیقی شاہجہان کے دور میں جامع مسجد شریف کے کام کرنے والے مزدوروں کے نگران اعلیٰ مقرر تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ مفتی محمد حسین اسی بزرگ کی اولاد میں سے ہیں ) مسجد میں داخل ہونے کے لئے اب صدر دروازہ کے دائیں و بائیں بنے ہوئے چھوٹے دروازے استعمال ہوتے ہیں ۔ دائیں طرف کے دروازے سے مسجد میں داخل ہوں تو دائیں طرف ایک دالان آتا ہے جسے عبور کریں تو سفید چونے سے بنا ہوا وضو کا حوض ہے بالکل اسی طرح کا ایک حوض مسجد کے بائیں دروازے کے بائیں جانب ہے البتہ ان دونوں کے درمیان مسجد کے صدر دروازے کا ہال نما کمرہ ہے جو شمالا و جنوبا وضو خانہ جب کہ مغرب کی جانب مسجد کی مرکزی محراب کی طرف کھلتا ہے۔ صدر دروازے کے دائیں و بائیں جانب سے شروع ہونے والا دالان جو ۵ مربع فٹ کے ستونوں اور جن کی باہری جانب ۵ فٹ چوڑے اور ۷ فٹ لمبے جھرو کے بنے ہوئے ہیں جو صحن کے دونوں جانب چلتے ہیں اور جا کر مسجد کے مرکزی حصے سے مل جاتے ہیں ۔ مسجد کی تعمیر میں سندھ کی ثقافت کا حصہ اور سندھی تعمیرات میں نمایاں نیلے رنگ کی کاشی کاری اگر چہ حوادث زمانہ کی وجہ سے اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ سے اکھڑ چکی ہے ۔ لیکن آج بھی اتنی دیدہ زیب ہے کہ آج کے جدید دور کی سہولت بھی مسجد کے مختلف حصوں کی تعمیر نو میں وہ رنگ نہیں بھر سکی جو صدیوں قبل مشتاق ہاتھوں نے اس میں بھر دیئے تھے۔
شاہجہانی مسجد کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ مسجد کے ستونوں کی تعداد ۹۴ ہے کہ اس کی ہراینٹ حفاظ کرام کے ہاتھوں تلاوت کلام پاک کرتے ہوئے نصب کی گئی تھی ۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی بہت مشہور ہے کہ مسجد کی تعمیر کے دوران ایک مزدور دن بھر میں صرف ۳۰ اینٹیں لگاتا تھا اور پھر کام ختم کر دیتا تھا، چنانچہ جب اس کو کسی کی شکایت کرنے پر شاہجہان نے طلب کر کے دن بھر میں صرف تیس اینٹیں لگانے کی وجہ دریافت کی تو اس نے الٹا شاہجہان سے سوال کر دیا کہ قرآن حکیم کے پارے کتنے ہیں ؟ شاہجہان نے کہا ۳۰ ، تو مزدور بولا کہ ایک پارہ ایک اینٹ ۔ مزدور کا جواب سن کر شاہجہان بہت مسرور وہوئے ۔ مسجد کی خصوصیات میں یہ بات بڑی قابل ذکر ہے کہ مسجد کی مرکزی محراب میں کھڑے ہو کر تلاوت کرنے والے کی آواز پوری مسجد میں باآسانی سنی جاسکتی ہے جو کہ اس دور کے معماروں کی اپنے فن میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا کہ اس پر بنے ہوئے ۱۰۰ گنبد کچھ اس طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں کہ آواز گردش کرتی ہوئی پوری مسجد میں پہنچتی ہے ۔ یہ بات باعث امتیاز ہے کہ پوری دنیا میں کوئی مذہبی عبادت گاہ کہ جس میں ۱۰۰ گنبد بالترتیب ایک دوسرے سے مربوط ہوں ۔ صرف ایک ہی ہے اور وہ صرف جامع مسجد شاہجہان ٹھٹھہ ہے ۔ علاوہ ازیں مسجد کی تعمیر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے چاروں جانب بنی ہوئی کھڑکیوں کی تراش خراش کچھ ایسی ہے کہ مسجد کے کسی بھی حصے میں کھڑے نمازی کو گھٹن کا احساس نہیں ہوتا ہے اور ہر نمازی تک ہوا کا گزر ہوتا ہے۔ اور پوری مسجد میں پنکھے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ مسجد میں کل بیس ہزار ( ۰۰۰،۲۰) نمازی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں ۔
شاہجہانی مسجد کی خصوصیت کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ ٹھٹھہ کی اس تاریخی مسجد میں عین بیداری کی حالت میں ایک شخص نے سرور عالم ﷺ کو امامت کرواتے دیکھا اور ان کی اقتدامیں حضرات حسنین کریمین کے علاوہ جلیل القدر صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اولیاء امت علیہم الرحمہ کو بھی نماز پڑھتے دیکھا۔ یہ منظر دیکھنے والا مسجد شریف کا ایک خوش نصیب چوکیدار لاسی شید ی تھا۔ اسے تشویش لاحق ہوئی کہ یہ کون سی جماعت ہے جو اتنی رات گئے نماز ادا کر رہی ہے۔ بہر کیف اس نے جماعت کے ارد گرد چکر لگایا تو کیا دیکھتا ہے کہ جماعت میں شریک ہر فرد کے چہرے سے ایک ایسا نور برستا ہے جیسا آج تک کسی کے چہرے پر نظر نہیں آیاتھا اور امامت کروانے والے صاحب کی تو شان ہی الگ تھی۔ سفید لباس میں ملبوس ، عمامہ شریف سجائے با ااواز بلند تلاوت کلام پاک کرنے والے امام کے جیسا ذیشان اور جمیل تو آج تک کسی کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ لاسی شیدی نے بعدازاں یہ بھی بتایا کہ مسجد سے اس طرح خوشبو کی لپیٹیں آتی تھیں گویا دنیا کے نایاب ترین عطرسے پوری مسجد کو غسل دیا گیا ہو ۔ بہر کیف عین بیداری کی حالت میں یہ دلکش نظارے کرنے والے لاسی شیدی نے جب مفتی محمد حسین ٹھٹوی کو بھی جماعت میں حاضر پایا تو قدرے مطمئن ہو کر اپنی جگہ پر جا بیٹھا جہاں اسے نیند نے گھیر لیا۔ کچھ وقت بعد وہ بیداری ہوا تو مسجد شریف میں کوئی نہ تھا البتہ خوشبو بدستور آرہی تھی ۔ صبح تک اس کشمکش میں گرفتار لاسی شید ی نے مفتی محمد حسین ٹھٹوی سے پہلا سوال ہی رات کے ماجر ے سے متعلق کیا تومفتی صاحب مسکرائے اور فرمایا کہ یہ اللہ عزوجل کا خاص کرم اور عنایت ہے جس نے مجھے جماعت صحابہ کرام اور حضرات حسنین کریمین علیہم الرضوان کے ساتھ سر کار دو عالم ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کی سعادت بخشی ۔
شاہجہانی مسجد کے صحن میں جس جگہ حضور پر نور ﷺ کو امامت کرواتے ہوئے دیکھا گیا تھا اس جگہ فرش سے تقریبا دو انچ اونچا مصلیٰ بنا دیا ہے۔
سڑک کے دائیں جانب بنے ہوئے مسجد شریف کے دیدہ زیب تین دروازوں والے گیٹ سے اندر داخل ہوں تو ایک وسیع و عریض باغ نظر آجاتا ہے۔ جس میں کھجوروں کے بلند و بالا درخت قطار در قطار صفیں باندھے ہوئے ہیں اندر لمبے لمبے حوضوں میں فوار لگے ہوئے ہیں ۔ یہ باغ مسجد شریف کی تعمیر میں شامل نہیں ۔ یہ باغ مسٹر زوالفقار علی بھٹو سابق وزیر اعظم پاکستان نے اپنے دور حکومت ۱۹۷۴ء میں تعمیر کروایا تھا ۔ ( جامع مسجد شاہجہانی ٹھٹھہ مطبوعہ مسجد کمیٹی ۲۰۰۲ء )
عادات و خصائل :
مفتی صاحب عالم باعمل ، علم میراث ، قضا و افتاء کے ماہر، شریعت مطہرہ کے پابند اور ٹھٹھہ کی جامع مسجد شاہجہانی کے خطیب و امام تھے ۔ خطابت میں بھی نام کمایا۔ اپنے خطاب کے ذریعے سندھ کے دیہی علاقوں خصوصا ضلع ٹھٹھہ کے دیہات میں جاکر دین کا پیغام احسن طریقے سے پہنچایا ۔ کتابوں کے جمع اور کتب بنیی کا انتہائی شوق تھا۔ اہل سنت و جماعت کے زبردست مبلغ تھے۔
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ میں سے بعض نام درج ذیل ہیں :
٭ مولانا دوست محمد بروہی
٭ مولانا محمد ابراہیم سموں
٭ قاطع نجدیت حضرت علامہ مفتی عبدالرحمن ٹھٹھوی مہتمم دارالعلوم مجددیہ عثمانیہ ، ٹھٹھہ
٭ مولانا پیر غلام علی جان سر ہندی
٭ مولانا پیر احمد جان سر ہندی
٭ مولانا غلام محمد سر ہندی
شادی و اولاد :
آپ نے دو شادیاں کی ۔ پہلی بیوی سے چار بیٹے اور دوسری سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی تولد ہوئی ۔
٭ مولانا عبداللطیف صدیقی سابق امام و خطیب شاہجہانی جامع مسجد ٹھٹھہ
٭ ۱۔عبدالقادر، ۲۔حزب اللہ ، ۳۔صبغۃ اللہ ، ۴۔عزیز اللہ ۔
وصال :
حضرت مولانا مفتی محمد حسین ٹھٹھوی نے ۶۶ سال کی عمر میں ۱۳۸۳ھ؍ ۱۹۶۳ء کو انتقال کیا۔ آخری آرامگاہ مکلی ( ٹھٹھہ ) پر ہے ۔ ( ٹھٹھہ صدین کان )
آپ کے وصال پر مولانا پیر ابراہیم جان سر ہندی نے عربی میںقطعہ تاریخ وصال کہا:
محمد حسین الذی حصل لہ النصیب من اسمہ
فحصل فی العلم والفضل درجۃ عظیمۃ
قدراح منا الحبیب الذی کان وجودہ
من الرحمان لاحباب رحمۃ و سکینۃ
وانہ لما خلع الدنیا و نعیمھا
فاعطوہ فی الفردوس قصرا و حدیقۃ
الا ان اولیاء اللہ لا یموتون موتۃ
بل ینقلون من دار الیٰ دار حقیقتا
وفاز من العلماء فی السند واکنافۃ
علما و عملا و زاھدا و خلقا و خلیفۃ
فان بلدۃ التتہ مولدہ و مسکنہ
والصدیق جدہ نسبا و جدہ طریقۃ
ولما ان اردت ان کتب ارخ و صالہ
فوجدت مغفورا نجب بدیھۃ
۱۳۸۲ھ
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )