حضرت فاضل جلیل علامہ مفتی محمد حسین نعیمی
حضرت فاضل جلیل علامہ مفتی محمد حسین نعیمی (تذکرہ / سوانح)
حضرت فاضل جلیل علامہ مفتی محمد حسین نعیمی، لاہور علیہ الرحمۃ
حضرت علامہ مفتی محمد حسین نعیمی بن ملّا تفضل حسین ۱۳۴۲ھ/ ۱۹۲۳ء میں سنبھل ضلع مراد آباد (ہندوستان) کے مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سنبھل کے ممتاز تاجر تھے، لیکن اس کے باوجود دین اور شعائرِ اسلام سے قلبی محبّت رکھتے تھے۔ وہ اپنے صاحبزادے کو عالمِ دین اور مبلغِ اسلام دیکھنے کے خواہاں تھے۔
علومِ اسلامیہ کی تحصیل:
حضرت مفتی صاحب ۱۹۳۳ء میں جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں داخل ہوئے دو سال میں کتبِ فارسی اور سات سال میں درسِ نظامی کی کتابوں پر عبور حاصل کیا جامعہ نعیمیہ میں ان دنوں آپ کے بہنوئی مولانا محمد یونس (جو حضرت صدر الافاضل مولانا سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ کے وصال کے بعد جامعہ کے مہتم بنے) مسندِ تدریس پر فائز تھے۔ صدر الافاضل رحمہ اللہ نے چند ذہین طلبأ کی ایک جماعت بنائی، جن پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی، ان میں حضرت مفتی صاحب بھی شامل تھے۔ [۱]
[۱۔ اس جماعت میں حضرت مفتی صاحب کے علاوہ حافظ نذیر الاکرم مبلغِ اسلام (افریقہ و یورپ) مفتی حبیب اللہ، مولانا ریاض الحسن اور مولانا غلام معین الدین نعیمی علیہ الرحمۃ (مدیر سوادِ اعظم) کے اسمائے گرامی شامل ہیں (مرتب) بحوالہ تذکرہ علماء اہل سنت ص ۳۷۱۔]
۱۹۴۲ء میں آپ نے جامعہ نعیمیہ ہی سے سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔
آپ نے جن قابلِ قدر اساتذہ سے استفادہ کیا، ان میں سے مولانا وصی احمد سہسرامی، مولانا شمس الدین بہاری، مولانا محمد عمر نعیمی (مدفون کراچی) اور مولانا محمد یونس خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
تدریس:
۱۹۴۲ء میں مفتی اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات سیّد احمد رحمہ اللہ نے دارلعلوم حزب الاحناف میں تدریس کی خاطر حضرت صدر الافاضل رحمہ اللہ کو ایک مدرس بھیجنے کے لیے لکھا، تو آپ نے حضرت مفتی صاحب کو لاہور بھیج دیا۔ ۱۹۴۲ء سے لے کر ۱۹۴۸ء تک آپ دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں پڑھاتے رہے اور پھر ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۳ء تک دارالعلوم انجمن نعمانیہ لاہور میں مسندِ تدریس پر فائز رہے۔
بعد ازاں آپ نے اپنی مسجد چوک دالگراں میں ایک دینی دارالعلوم جامعہ نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ آغازِ تدریس میں حضرت مفتی صاحب کے ساتھ مولانا حافظ محمد عالم سیالکوٹی، علامہ عبدالمصطفےٰ الازہری (کراچی) مولانا عبدالغفور (لاہور) اور مولانا عبدالحئی نے معاونت کی۔ جامعہ نعیمیہ کی بڑھتی ہوئی شہرت کی وجہ سے طلبا جوق در جوق آنا شروع ہوگئے چنانچہ ۱۹۵۹ء میں مسجد میں جگہ کی کمی کی وجہ سے دارالعلوم کو چوک دالگراں سے گڑھی شاہو منتقل کر دیا گیا۔ اس ویران مقام پر عیدگاہ اور مسجد میں تدریس شروع ہوئی اور ساتھ ہی طلبا کی رہائش کا انتظام ہونے لگا یہاں تک کہ ایک عظیم دارالعلوم اور مسجد تعمیر ہوگئی، جس کو دیکھ کر مفتی صاحب کی ہمت، خلوص اور جدّو جہد کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ جامعہ نعیمیہ اور اس سے متّصل مسجد قابل زیارت ہے۔ (مرتب)
حضرت علامہ مفتی محمد حسین نعیمی نہ صرف قابل مدّرس ہیں بلکہ نہایت پُر تاثیر خطیب ماہر مفتی اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، ملک کے لیے آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ تحفظِ مقامِ مصطفےٰ اور نظامِ مصطفےٰ کے نفاذ کی خاطر آپ نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختمِ نبوت میں مفتی صاحب نے علامہ سیّد محمود احمد رضوی کے ساتھ مل کر حزب الاحناف (جو ان دنوں اندرون دہلی دروازہ میں واقع تھا) میں ایک مرکز قائم کیا، جہاں پولیس اور فوج کے نوجوانوں کو تحریکِ ختم نبوّت کی اہمیت پر ذاتی مشین پر پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کرتے تھے۔ مارشل لا کے دوران آپ کو گرفتار کرلیا گیا۔ فوجی عدالت نے بری کردیا، مگر دوسرے مقدمہ کی سماعت جاری تھی کہ مارشل لأ کا زور ٹوٹ گیا اور آپ مکمل طور پر بَری کردیے گیے۔
۱۹۶۷ء میں جمعیت علمأ پاکستان کی تطہیر کے لیے مفتی صاحب نے ایک زبردست مہم چلائی۔ آپ جمعیت کو فعال بنانا چاہتے تھے اور حکومت کے وظیفہ خوار اور حاشیہ بردار علمأ سے پاک کرنا چاہتے تھے، چنانچہ آپ کی کوششوں سے ملک بھرکے سنی علمأ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے اور شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی رحمہ اللہ کو جمعیت کا قائد چن لیا گیا۔[۱]
[۱۔ حضرت شیخ القرآن علامہ عبدالغفور ہزاروی رحمہ اللہ کی قیادت میں بحالی جمہوریت کی خاطر سب سے پہلے یہی جماعت میدان میں آئی اس وقت علامہ ہزاروی کی رفاقت میں صاحبزادہ محمود شاہ گجراتی، مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی، مولانا قاضی عبدالنبی کوکب رحمہ اللہ اور ان کے دیگر رفقاء نے کار ہائے نمایاں سر انجام دیے۔ (مرتب)]
صدر ایوب کے دور میں جب تمام علمأ کو مرضی کے مطابق عید کی نماز پڑھانے کو کہا گیا، تو مفتی صاحب نے سخت احتجاج کیا: چنانچہ آپ کو دوسرے علمأ کے ساتھ گرفتار کر کے مچھ جیل (بلوچستان) بھیج دیا گیا۔
۱۹۷۷ء کی تحریک نفاذِ نظام مصطفےٰ میں آپ نے اپنے دارالعلوم میں غزالیٔ زماں حضرت علامہ سید احمد کاظمی مدظلہ کی صدارت علما اہلِ سنت کا نمائندہ اجلاس بُلایا اور ایک قرار داد کے ذریعے تحریک میں حصہ لینے کو جہاد اور نظامِ مصطفےٰ کے نفاذ کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو شہید قرار دیتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ علمأ اہل سنت اس تحریک میں مکمل طور پر پوری قوم کے ساتھ ہیں۔[۱]
[۱۔ روز نامہ وفاق، مورخہ ۱۴؍ اپریل ۱۹۷۷ء۔]
حضرت مفتی صاحب نہایت باہمت اور باشعور علما میں شمار ہوتے ہیں اپنی سیاسی بصیرت کی وجہ سے عالمِ اسلام کی نامور شخصیتوں کو دعوت دے کر جامعہ کی تقاریب میں جمع کرتے ہیں۔ چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے جولائی ۱۹۷۷ء میں اسلامی مشاورتی کونسل کےلیے جن علمأ کا انتخاب کیا، ان میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔
اشاعتِ علمِ دین:
آپ نے ایک ماہنامہ مجلّہ ’’عرفات‘‘ جاری کیا ہوا ہے، جو ہر مہینے علمی اور تحقیقی مضامین کے جلو میں قارئین کے سامنے آتا ہے۔
آپ نے قاضی عیاض رحمہ اللہ کی الشفاء، مولانا ابوالحسنات رحمہ اللہ کی اوراقِ غم اور الخیرات الحسان کی اس وقت طباعت کرائی، جبکہ کوئی ناشران کی اشاعت کے لیے تیار نہ تھا۔
چند مشہور تلامذہ:
آپ سے اکتسابِ فیض کرنے والے چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:
۱۔ حضرت علامہ مولانا غلام رسول سعیدی، جامعہ نعیمیہ، کراچی۔
۲۔ خطیبِ اہلِ سنت مولانا الٰہی بخش، لاہور۔
۳۔ مولانا باغ علی نسیم، لاہور۔
۴۔ حضرت مولانا حافظ محمد عالم، سیالکوٹ۔
۵۔ مولانا محمد ارشد پناہوی، پناہ کے۔
۶۔ مولانا محمد فیض الحسن تنویر۔
۸۔ زینت القرأ قاری غلام رسول، لاہور۔
۹۔ مولانا محمد سعید نقشبندی، خطیب دربار حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ، لاہور۔
۱۰۔ حافظ حبیب اللہ، خطیب سرائے عالمگیر۔[۱]
[۱۔ علامہ پیر زادہ محمد اقبال فاروقی، تذکرہ علمأ اہل سنّت لاہور، ص ۳۷۱۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)