استاد العلماء مولانا مفتی محمد محمودالوری
استاد العلماء مولانا مفتی محمد محمودالوری (تذکرہ / سوانح)
استاد العلماء مولانا محمد محمود الوری بن حضرت مولانا رکن الدین الوری مجددی ۵، ذوالحجہ ۱۳۲۲ھ؍ ۱۹۰۴ء شب جمعہ المبارک انڈیا کی ریاست راجستھان کے ایک بڑے شہر ’’الور ‘‘میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
حدایۃ النحو تک عربی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مولانا کن الدین اور گلستان بوستان تک فارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد مولانا فرید الدین سے حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے اجمیر شریف گئے وہاں ’’مدرسہ معینیہ عثمانیہ‘‘ میں قطبی ، شرح جامی اور شافعیہ وغیرہ پڑھیں بعد ازاں آپ دہلی چلے گئے، وہاں مدرسہ عالیہ فتحپور میں حضر علامہ برکات احمد ٹونکی کے نامور شاگرد مولانا عبدالرحمن کے ہاں منطق میں صغریٰ ، کبریٰ المرقات ، شرح تہذیب قطبی، میر قطبی اور فلسفہ میں ہدیہ سعیدیہ تک پڑھا۔ دوسرے اساتزہ سے شرح جامی، شرح وقایہ اور مختصر المعانی وغیرہ کا درس لیا۔ پھر بھوپال گئے اور مدسرہ احمدیہ میں مولوی محمد حسن جو کہ مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی کے تلمیذ تھے ان سے کتب احادیث مشکوٰۃ ، جامع ترمذی، صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ پڑھیں۔ اس کے بعد پھر اجمیر شریف تشریف لئے گئے اور وہاں مدرستہ معینیہ عثمانیہ میں اصول فقہ نور الانوار، انوار حسامی، تلویح علی التوضیح ، علم کلام میں شرح عقائد مع خیالی ادب میں سبعہ معلقہ، مقامات حریری، اور دیوان متنبی تفسیر میں مدارک اور جلالین ، حدیث میں پھر دوبارہ صحاح ستہ ، منطق میں رسالہ میر زاہد ملا جلال ، ملا حسن حمد اللہ اور قاضی۔ریاضی میں اقلید س تصریح اور ۱۳۴۵ھ؍ ۱۹۲۶ء کو مدرسہ معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف کے صدر مدرس صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی ؒ ( مصنف بہار شریعت ) نے سند الفراغ عطا فرمائی ۔ اس کے علاوہ اپنے خسر حضرت مولانا مفتی محمد مظہر اللہ دہلوی ( والد پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد ) سے علم فرائض و علم توقیت میں مہارت حاصل کی۔ دہلی میں حکیم اجمل خان کے استاد حکیم جمیل الدین بانی طیبہ کالج دہلی کی خدمت میں حاضر ہو کر طب کی ادق اور اعلیٰ کتب کا درس لیا اور ۲۵، شعبان المعظم ۱۳۵۱ھ؍ ۱۹۳۲ء کو سند تکمیل حاصل کی۔
بیعت و خلافت :
بعد فراغت اپنے والد ماجد اور الور کے نامور عالم دین و شیخ طریقت مولانا رکن الدین انصاری الوری ( موٗلف رکن الدین ) کی صحبت اختیار کی، اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے اور ۱۹۳۶ء میں خلافت سے نوازے گئے ۔
پاکستان میں قیام :
۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے وقت راجپوتانہ میں زبردست فساد پھوٹ پرے تھے، چنانچہ آپ نے الور سے دہلی منتقل ہوئے، آپ کا عظیم خاندانی کتب خانہ جو علمی نوادرات سے معمور تھا ، فسادات کی نذر ہو گیا ۔ دہلی میں قیام کیلئے کچھ عرصہ نہ گذرا تھا کہ یہ سر زمین بھی فسادات کے شعلوں کی لپیٹ میں آگئی اور یہاں کی وسیع و عریض فضائیں مسلمانوں کے لئے تنگ ہو گئیں ۔ چنانچہ یہاں سے پاکستان نقل مکانی کر کے آگئے اور حیدر آباد سندھ میں محلہ ہیر آباد میں قیام فرمایا۔
خطابت:
آپ نے بعد سند الفراغ سات برس الور کی جامع مسجد میں درس قرآن دیا اور نماز جمعہ میں خطبہ دیا۔ پاکستان تشریف لانے کے بعد حیدرآباد شہر میں واقع تاریخی مساجد ، جامع مسجد مائی خیری محلہ فقیر جو پڑا اور مدینہ مسجد میں ایک عرصہ تک درس قرآن دیا ۔ محلہ ہیر آباد میں اپنی رہائش گاہ کے قریب آزاد میدان کے نام سے زمین کا ایک وسیع و عریض قطعہ تھا وہاں مسجد شریف کی بنیاد رکھی جو کہ ایک نیک سیرت انسا ن حاجی محبوب الہی صاحب ( مالک سندھ تیز یز لمیٹڈ ٹنڈو یوسف حیدرآباد سندھ ) نے زرکثیر صرف کر کے شاندار مسجد تعمیر کرادی جو کہ اب ’’جامع مسجد آزاد میدان ‘‘کے نام سے مشہور ہے ۔ جہاں ہر جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے لیکن بعد میں اب تک یہ مسجد دیوبندیوں کے قبضہ میں ہے۔
جامعہ مجددیہ کا قیام :
جامع مسجد آزاد میدان ہیر آباد شہر حیدر آباد کے وسط میں ہے اپنے والد و مرشد کی یاد میں مسجد شریف کے متصل ایک پر شکوہ مدرسہ ’’رکن الاسلام جامعہ مجددیہ ‘‘ تعمیر کرایا۔ بقیہ زندگی اس دارالعلوم کی ترقی و تعمیر ، درس و تدریس ، تصنیف و تالیف ، تعمیر انسانیت اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دارالعلوم کے فضلاء آج بھی دین اسلام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ۔
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ میں سے بعض کے نام معلوم ہو سکے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
٭ صاحبزادہ مولانا ابو الخیر محمد زبیر (رکن قومی اسمبلی ، حکومت پاکستان )
٭ مولانا حافظ سعید احمد
تصنیف و تالیف :
تصنیف و تالیف کے شعبہ میں بھی کآپ نے گراں قدر خد مات انجام دیں ۔
٭ بہار مثنوی ۔ حضرت مولانا روم کی مثنوی شریف سے منتخب حکایات پر سبق آموز فوائد عصر حاضر کے حالات کے مطابق لکھے گئے ہیں ۔
٭ کتاب الصیام
٭ مصباح السالکین فی احوال رکن الملت والدین ۔ اپنے والد ماجد مولانا رکن الدین کے حالات رقم فرمائے۔
٭ کتاب الحج
٭ کتاب الزکوۃ
خلفاء :
آپ نے بعض حضرات کو خلافت سے نوازا، ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
حکیم مشتاق احمد مرحوم ( کراچی ) ، حکیم احمد حسین ، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد ( کراچی ) ، پروفیسر حافظ محمد مقصود احمد ( خیر پور میرس ) ، مولانا احمد خان ( لطیف آباد ) ، صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر ، مفتی محمد ظفر احمد دہلوی وغیرہ ۔
اولاد :
آپ کو دو بیٹیاں اور ایک بیٹا مولانا ڈاکٹرمحمد زبیر نقشبندی ( مہتمم رکن الاسلام ) تولد ہوئے۔
عادات و خصائل:
آپ سادہ کھاتے سادہ پہنتے اور سادہ طبیعت کے مالک تھے، ’’استغناء اور بے نیازی ‘‘ کی حسین تصویر تھے۔ ایک صاحب نے آپ سے کہا کہ حضرت !اگر اجازت ہو تو آپ کے اس حجرہ کی پیمائش کرا کے اس کے ناپ کا ایک عمدہ قالین پیش کروں ۔ اپنے فقیر انہ حال میں مست رہنے والے اس فقیر بوریہ نشین کی شان استغنا ء نے یہ گوارانہ کیا اور بڑی بے نیازی سے ان کی اس شاہانہ پیش کش کو یہ فرماتے ہوئے حقارت سے ٹھکرادیا کہ ’’ ہم تو اس اپنے پھٹے پرانے بوریہ میں خوش ہیں ہمیں اس دنیوی شاہ و شوکت کی کوئی ضرورت نہیں یہ زیبائش خدا آپ کو مبارک کرے ‘‘۔
سیٹھ ولی محمد اکبر جی آپ کا مرید تھا ، وہ کہتے تھے آج تک میری آنکھوں نے ایسا بے نیاز پیر نہیں دیکھا۔ آج کے پیر تو ایسے ہیں کہ اگر کوئی دولت مندان کا مرید ہو جائے تو پھر پیر صاحب الٹے اس کے مرید ہو جاتے ہیں اور رات دن اپنے اس مرید کے پیچھے پھرتے رہتے ہیں لیکن یہ کیسا پیر ہے کہ جب میں ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہوا ہوں اس نے کبھی میرے گھر کا رخ بھی نہیں کیا۔
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
وصال :
آپ نے ۱۲، شعبان المعظم ۱۴۰۷ھ بمطابق ۱۲ ،اپریل ۱۹۸۷ء ضلع قصور ( پنجاب ) میں پریم نگر اسٹیشن کے قریب گھینا کی کے مقام پر رحلت فرمائی ۔ جہاں آپ ہر سال قوم میوات سے تعلق رکھنے والے اپنے مریدین کو فیضیاب کرنے کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ آپ کے جسد مبارک کو دوسرے روز حیدرآباد سندھ لایا گیا۔ آپ کے صاحبزادے نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ آپ کا مزار شریف حیدرآباد میں جامشورو روڈ پر لب سڑک راجپوتا نہ ہسپتال کے قریب مسجد شریف کے ساتھ واقع ہے ۔ مزار سے متصل جامعہ اسلامیہ کی تعمیر جلد شروع کی جانے والی ہے ۔ سالانہ عرس نہایت عقیدت سے منایا جاتا ہے۔ ( ماخوذ : یاد محمود مطبوعہ کراچی )
استاد العلماء مولانا مفتی محمد خلیل خاں برکاتی
استاد العلماء حضرت علامہ مفتی محمد خلیل خاں بن عبدالجلیل خان بن اسماعیل خان لودھی جولائی ۱۹۲۰ء میں ضلع علی گڑھ کی مشہور ریاست دادوں سے ملحق موضع کھریری میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ عمر چھ روز ہی ہوئی کہ والد ماجد کے سایہٗعاطفت سے محروم ہو گئے۔ دادا صاحب نے پرورش میں حصہ لیا۔ لیکن وہ بھی جلد ہی رخصت ہو گئے جس کے بعد آپ والدہ ماجدہ کے ہمراہ اپنی ننھیال ’’مار ہرہ شریف ‘‘ تشریف لے آئے یہاں آکر والدہ ماجدہ بھی رحلت فرماگئیں ۔ ابھی آپ عمر کے اس حصہ کو نہ پہنچے تھے کہ جہاں نیک و بد کاشعور ہو۔ چنانچہ چچا صاحب نے اپنی تربیت میں لیا۔ مفتی صاحب موصوف مار ہرہ شریف ( ضلع ایٹہ ، انڈیا) کے محلہ کمبوہ میں افغان روڈ پر اقامت پزیر ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
مار ہر ہ کے دستور کے مطابق آپ نے بھی انگریزی تعلیم حاصل کی اور اوائل ۱۹۳۴ء میں انگریزی مڈل اچھی پوزیشن میں پاس کیا ۔ ( سنی بہشتی زیور ) مفتی صاحب مارہرہ شریف میں اپنی تعلیم کا آغاز فرمانے کے بعد پھر اپنے مولد ’’دادوں ‘‘ تشریف لے آئے اور مکمل تعلیم کے لئے نواب ابو بکر خان شروانی کے مدرسہ حافظیہ سعیدیہ میں ۱۳۵۳ھ؍ ۹، مارچ ۱۹۳۵ء کو داخل ہوئے اور آخر تک وہیں رہے ، دورہ حدیث شریف تک صدر الشریعہ فقیہ اعظم حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی ( موٗلف بہار شریعت ) سے پڑھا ۱۹۴۵ء میں فارغ ہوئے ۔ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا محمد مصطفی رضاخان بریلوی نے سندحدیث عطا فرمائی ۔ آپ کی سند حدیث کا سلسلہ مفتی امجد علی اعظمی کی وساطت سے بحر العلوم مولانا عبدالعلی لکھنوی تک اور مارہرہ شریف کے قطب سید شاہ آل رسول رحمتہ اللہ علیہ ( امام احمد رضا خان کے پیرو مرشد) کے واسطے سے حضرت شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہ تک پہنچتا ہے۔ سند حدیث کے علاوہ مفتی صاحب کے پاس سند قرآ ن بھی تھی جس کا سلسلہ اکتیس ( ۳۱) واسطوں سے ساتوں قراٗۃ میں حضرت سید نا عثمان غنی ذوالنور ین ۔ حضرت سید نا علی المرتضی حیدر کرار ، حضرت ابی بن کعب ، حضرت زیدبن ثابت اور حضرت عبداللہ بن مسعود ( رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) کے توسط سے حضور پر نور سید عالم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ یہ سند آپ کو مرشد گرامی اولاد رسول سے عطا ہوئی ۔
بیعت و خلافت :
زمانہ طالب علمی ہی میں ۱۸، ذوالحجہ ۱۳۵۶ھ؍ ۱۹۳۸ء میں تاج العلماء حضرت مولانا الحاج سید اولاد رسول محمد میاں قادری قدس سرہ ( رحلت ۱۳۷۵ھ) سجادہ نشین مار ہرہ شریف کے دست مبارکہ پر سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے ۔
حضرت اورلاد رسول کے انتقال کے بعد ان کے خلیفہ و جانشین احسن العلماء حضرت سید شاہ حسن میاں صاحب برکاتی نے حضرت کے ایماء پر مفتی خلیل خاں کو سند خلافت عطا فرمائی ۔ اس طرح آپ اولاد رسول کے خلیفہ قرار پائے اور اسی لئے برکاتی کہلاتے تھے۔ حضرت جامع المعقول والمنقول شیخ طریقت علامہ الحاج مفتی محمد مصطفی رضا خان بریلوی قدس سرہ نے سلسلہ قادریہ رضویہ میں خلافت سے نوازا۔
پاکستان میںقیام :
فراغت کے بعدع آپ مار ہرہ شریف میں رہے اور حالات کی کشاکش کی بناء پر ترک وطن کر کے ۲۳، شعبان المعظم ۱۳۷۱ھ؍ ۱۹۵۲ء میں پاکستان تشریف لے آئے ۔ کچھ عرصہ میر پور خاص اور پھر کراچی میں ایک سال تک رہے۔ بعد ازاں آپ نے ایک پیر بھائی حاجی محمد عمر صاحب برکاتی مرحوم کے مشورے پر حیدر آباد ( سندھ ) منتقل ہو گئے، جہاں حاجی صاحب موصوف نے مفتی صاحب کیلئے ایک مکان حاصل کر لیا تھا۔
احسن البرکات کا قیام :
جولائی ۱۹۵۲ء میں سید جعفر حسین شاہ صاحب مرحوم کی نگرانی و سر پرستی میں دارالعلوم احسن البرکات کی بنیاد رکھی ۔ دارالعلوم حید رآباد شہر کے وسط میں ہوم اسٹیڈ ہال کی چاڑی پر آج بھی عروج پر ہے اور علم کے پیاسوں کی پیاس بجھا رہا ہے جہالت کی تاریک راث میں علم کی روشنی ہر سو عالم میں بکھیر رہا ہے۔
خطابت :
تعلیم سے فراغت پاتے ہی تدریس و تبلیغ کے امور سونپ دیئے گئے۔ چنانچہ آپ نے تنہا اور مرشد گرامی کی معیت میں ہندوستان کے مختلف صوبوں میں کئی شہروں کے تبلیغی دورے کئے ، کچھ عرصہ میرٹھ چھاوٗ نی میں بحیثیت فوجی مبلغ بھی فرائض انجام دیئے ۔ فراغت کے چار سال بعد ۲۹ سال کی عمر میں مرشد گرامی نے خانقاہ برکاتیہ مار ہرہ شریف کے دارالافتاء میں اہم ذمہ داری دے کر منصب افتاء پر بٹھا دیا جہاں سے آپ نے فتویٰ نویسی کا آغاز کیا۔
دوران قیام کراچی میں جامع مسجد کھتری ، میٹھا در میں بھی خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے تقریبا دس سال سے زیادہ عرصہ تک آپ کی تفسیر نشر ہوئی ، جس کے مسودات ، ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں اس کے علاوہ بہت سے مختلف مواقع پر آپ کی تقریر اور مذاکرات بھی نشر ہوئے۔
تلامذہ :
آ پ کے تلامذہ کا حلقہ کافی وسیع ہے بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں ۔
٭ احسن العلماء حضرت علامہ حسن میاں برکاتی
٭ صاحبزادہ مولانا مفتی ابوحماد احمد میاں برکاتی مہتمم دارالعلوم احسن البرکات حیدرآباد
٭ مفتی غلام محمد قاسمی مہتمم دارالعلوم غوثیہ قاسمیہ کوئٹہ
٭ مفتی محمد وارث قاسمی مہتمم دارالعلوم قاسمیہ خضدار
٭ مولانا صوفی رضا محمد عباسی شیخ الفقہ دارالعلوم احسن البرکات حیدرآباد
٭ مولانا حافظ سعید احمد قادری مدرسہ غوثیہ رضویہ سعید یہ بکرا منڈی حیدرآباد
٭ مولانا قاری خیر محمد قاسمی خطیب جامع مسجد شیخ زید لاڑکانہ
٭ مولانا مفتی عبدالرحمن قاسمی صدر مدرس مدرسہ جیلانیہ لاڑکانہ
٭ مولانا محمد حسن قلندرانی قاسمی خطیب صدیق اکبر مسجد تلک چاڑی حیدرآباد
٭ علامہ ہدایت اللہ عاریجوی لاڑکانہ
تصنیف و تالیف :
مفتی صاحب نے تقریبا ۵۸تصانیف و تراجم یاد گار چھوڑی ہیں جن میں سے نصف شائع ہو چکی ہیں ان میں سے بعض کتب کے اسماء درج ذیل ہیں ۔
٭ خلاصۃ التفاسیر ( جلد اول ۱؍۶پارے ) مطبوعہ مکتبہ قاسمیہ رضویہ حیدرآباد
٭ الفتاویٰ الخلیلیہ المعروف احسن الفتاویٰ ( ساڑھے تین ہزار سے زائد فتاویٰ کا مجموعہ )
٭ نور علی نور ترجمہ سراج العوارف فی الوصایا والمعارف از :حضرت شاہ ابو الحسین
احمد نوری قدس سرہ العزیز کا خوبصورت اردوترجمہ جس میں شریعت ، طریقت اور حقیقت کے فوائد و مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔ ( مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور سن اشاعت ۱۴۰۳ھ)
٭ سنی بہشتی زیور ( اتا۸حصے مکمل ) مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور
٭ ہمارا اسلام ( مکمل نو حصے )
مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور
٭ ترجمہ سبع سنابل حضرت میر سید عبدالواحد بلگرامی ؒ
مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور
٭ عقائد الاسلام شیخ ولی اللہ محدث دہلوی
مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور
٭ تفسیر سورہ نور المعروف چادر اور چارد یواری مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور
٭ شرح فیصلہ ہفت مسئلہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی
٭ معراج المومنین
٭ حکایت رضویہ
٭ ہماری نماز
٭ الصلوۃ
٭ روشنی کی طرف (ترجمہ : المنقد من الضلال از: امام غزالی)
٭ موت کا سفر شیخ شہاب الدین ابن حجر عسقلانی ( ترجمہ : المنبھات علی الاستعداد لیوم المعاد )
٭ خنجر آبدار برفرقہ خاکسار۔ عنایت داللہ مشرقی کی خاکسار تحریک کے چوبیس نکات کی گرفت شدید
٭ دس عقیدے ۔ امام احمد رضا خان بریلوی
٭ جمال خلیل دیوان (مجموعہ کلام )
٭ بہار نسوا ں ( خواتین کی نماز مع مسائل )
٭ اسلامی گفتگو
شعر و شاعری :
مفتی صاحب حضور اکرم ﷺ کی یاد میں ان کی مدحت سرائی کرتے ہوئے نعتیہ شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے، آپ کا تعتیہ دیوان ’’جمال خلیل ‘‘ کے نا سے مطبوعہ ہے اور آپ کا تخلص خلیل ہے۔
سفر حرمین شریفین :
آپ نے ذوالحجہ ۱۳۹۸ھ؍ ۱۹۷۸ ء میں پہلی مرتبہ حج بیت اللہ ادا فرمایا اور روضہ حضور پر نور ﷺ پر حاضری کی سعادت حاصل کی۔
اٹھارہ سال کے بعد جمادی الآخر ۱۴۰۲ھ؍اپریل ۱۹۸۲ء کو ہندوستان کا تبلیغی دورہ کیا۔
شادی واولاد :
آپ نے ۴، ربیع الاخر۱۳۶۷ھ؍ بمطابق۱۵، فروری ۱۹۴۸ء کو سکندرہ راوٗ ضلع علی گڑھ میں منشی حبیب احمد خان کی دختر نیک اختر نعیم جہاں سے شادی کی۔ جن سے آپ کو سات بیٹیاں اور دو بیٹے ہوئے۔ بڑے صاحبزادے مولانا مفتی احمد میاں حافظ برکاتی قادری ہیں مدرسہ کے مہتمم اور والد صاحب کے جانشین ہیں ۔
تحریک پاکستان :
آپ نے تحریک پاکستان میں بھی بھر پور حصہ لیا۔ تحریک پاکستان کا دور حضرت مفتی صاحب کے شباب و جوانی کا دور تھا ۔ آپ مار ہرہ شریف اور اس کے گردو نواح میں ہونیوالے مسلم لیگ کے جلسے جلو میں بڑی دلچپسی سے حصہ لیتے رہے۔ آپ مسلم لیگ کا پرچم اٹھائے ہوئے جلوسوں کے آگے آگے چلتے تھے، کانگریس اور نگریسیوں کا اپنی تقاریر میں ہمیشہ رد فرماتے اور یوں حصول پاکستان کی تحریک میں بھر پور حصہ لیتے رہے ۔
زمانہ طالب علمی میں جب کہ (کانگریسی بیلچہ ) ’’خاکسار تحریک ‘‘ زوروں پر تھی اور اس کا ہر سو چرچاکیا جارہا تھا جگہ جگہ شہر شہر اس تحریک کے کنویئر اور اراکین گشت کر رہے تھے ، اکابر علمائ، قائداعظم اور مسلم لیگ کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا۔ گمراہ کن لٹر یچر کی بھر مار تھی ، اس دور میں مفتی صاحب نے اس تحریک کے چوبیس نکات کی شدید گرفت کی اور ان کے رد میں رسالہ ’’خنجر آبداربرفرقہ خاکسار ‘‘ تحریر فرما کر قوم کو خبر دار کیا اور ان سے ہوشیار رہنے کی ہدایت کی۔ ( خلیل العلماء ص ۱۸)
عادات و خصائل :
مفتی صاحب ، زمانہ کے ظاہر ی نمود و نمائش سے بہت متنفر رہتے ۔ اپنی تعریف و ستائش ( خود سنائی ) بالکل نا پسند تھی ۔ آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، غرور تکبر سے بہت دور ، سادگی ، علم سے محبت اور درس و تدریس میں بے حد محنت آپ کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ آپ نفاست پسند تھے لباس عمدہ اور صاف ستھرا زیب تن فرماتے تھے۔
مولانا محمد حسن قلندر رانی اپنے استاد محترم کے متعلق لکھتے ہیں : حضرت انتہائی متقی پرہیز گار انسان تھے ، ظاہری اور باطنی اعتبار سے آپ کی ذات گرامی قابل تقلید تھی ، حدیث پاک پڑھاتے ہوئے وضو کی حاجت ہوتی تو فورا تازہ وضو فرماتے پھر اسباق فاری فرماتے۔ بندہ نے کبھی آپ کی زبان سے کوئی گالی یا ایسا ناز یبا لفظ کسی کو کہتے نہیں سنا۔ آپ کئی دنوں سے بہت علیل تھے ایک ، روز راقم آپ کے دولت خانہ پر حاضر ہوا۔ حضرت ایک چھوٹے کمرہ میں استراحت فرما رہے تھے، ہمیں دیکھ کر اٹھ کر بیٹھ گئے ۔ سلام و کلام کے بعد ہم طلباء پاوٗ ں کو دبانے لگے ۔ چند منٹ کے بعد آپ بے چین سے ہو گئے اور آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور فرمایا: بیٹا ! مجھے معاف کرنا ممکن ہے میں نے تمہیں کبھی ڈانٹا ہو ۔ ہم نے عرض کیا حضرت ! آپ تو ہمارے والدین سے بھی بڑ ھ کر ہمارے لئے عظیم ہیں آپ ہمارے استاد ہیں آپ ہمیں معاف کریں ہم سے ضرور کو تاہیاں ہوئی ہوں گی ۔ ( مجلہ خلیل علم ص ۸۸ گولڈن جوبلی)
مفتی صاحب اپنی رائے میں بڑے صائب تھے ایک بار جو قول فرما دیا کبھی اس سے رجوع کی ضرورت پیش نہ آئی ، امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی قدس سرہ سے آپ کو والہانہ انسیت و محبت تھی یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریر میں جگہ جگہ رضویت کی تازہ بہار دکھائی نظر آتی ہے۔ ( سنی بہشتی زیور )
ایک مرتبہ حجام بال بنانے آیا تو مدرسے میں پانی نہ تھا حجام نے کہا’’میں مسجد سے پانی لے آتا ہوں ‘‘ فرمایا کہ نہیں مسجد کا پانی مسجد ہی میں استعمال کرنا چاہئے ، اس لئے تم مسجد سے پانی نہ لاوٗ بلکہ کل آنا کل مدرسے میں پانی ہو گا۔ ( خلیل العلماء )
وصال:
حضرت مولانا مفتی محمد خلیل خاں برکاتی نے ۲۸، رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ بمطابق ۱۸، جون ۱۹۸۵ء وقت مغرب ۶۵ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ حضرت مفتید محمد وقار الدین قادری ، نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ ۲۹، رمضان شریف کو ظہر کے وقت عارف کامل والئی حیدرآباد حضرت سخی سید عبدالوہاب شاہ جیلانی قدس سرہ کی درگاہ عالیشان کے صحن میں آپ کو مدفن نصیب ہوا۔ ( موت کا سفر)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )