علامہ مفتی نبی بخش کولاچی
علامہ مفتی نبی بخش کولاچی (تذکرہ / سوانح)
استاد العلماء مولانا مفتی بخش کولاچی مٹھڑی ( بلوچستان ) کے ایک گوٹھ ’’حاجی ‘‘ میں تولد ہوئے۔ نسب نامہ : قاضی نبی بخش بن قاضی عبدالعزیز بن قاضی غلام مصطفی بن قاضی ملا محمد بن میاں عبدالرحیم بن حسن خان بن احمد خان بن قالو خان بن بھنبھا خان بن عبدالعزیز خان بن عبدالغفور خان بن عبدالستار خان بن محمد خان بن میر کلاچ خان بلوچ۔
آپ کے آباء واجد اد اصل میں شہر کولاچی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ( سرحد ) کے تھے۔ آپ کے اجداد میں حسن خان ، کولاچی سے نقل مکانی کر کے ناڑی ( بلوچستان ) میں مقیم ہوئے اور آپ کے پوتے مولانا محمد کو وہاں کا سر کاری قاضی مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد پورا خاندان قاضی کے خطاب سے مشہور ہوا۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم بھاگ ناڑی میں مفتی ملا احمد سے ( ملا احمد کا مفتی محمد ہاشم یاسینی سے مناظرہ ہوا تھا دیکھئے اسی کتاب کی ردیف ھ حالات مفتی ہاشم ) سے حاصل کی اس کے بعد شہداد کوٹ کی عظیم دینی درسگاہ میں استاد العلماء والفضلاء شیخ العلماء علامہ گل محمد شہداد کوٹی سے نصاب مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق امام العلماء ، عاشق خیر الوری مفتی اعظم علامہ مفتی عبدالغفور ہمایوی قدس سرہ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ( مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ئ)
علامہ ہمایونی کے معاصر اور آپ کے والد ماجد کے شاگرد ارشد شیخ کامل حضرت مولانا عبدالرحمن مجددی سکھر والے سے بھی مفتی نبی بخش نے استفادہ کیا تھا۔
بیعت:
خاندانی روایت کے مطابق آپ سلسلہ عالیہ قادریہ سلطانیہ میں درگاہ محمد پور شریف ( تحصیل پنو عاقل ) کے سجادہ نشین میاں پیر بخش یا مولانا میاں غلام مصطفی قادری سے دست بیعت تھے۔ ( مولوی عبدالحق کولاچی ، اوستہ محمد )
درس و تدریس :
شیخ طریقت ، حاتم وقت پیر سید حزب اللہ شاہ راشدی المعروف پیر صاحب پاگارہ سوئم تخت دھنی ؒ نے حضرت شیخ عبدالرحمن نقشبندی مجددی ( سکھر ) سے ایک قابل قدر عالم دین طلب کیا۔ آپ نے اپنے قابل فخر شاگرد مولانا نبی بخش کو بھجوادیا۔ آپ جامعہ راشدیہ درگاہ شریف پیر جو گوٹھ میں مدرس مقرر ہوئے۔ تدریس کے ساتھ فتاویٰ نویسی کے بھی فرائض انجام دیئے ۔ کچھ عرصہ درگاہ شریف پر قیام کیا۔ اس کے بعد اوستہ ملا محمد کی استدعا پر بلوچستان واپس ہوئے اور اوستہ محمد میں مدرسہ قائم کیا اور پوری زندگی وہیں درس و تدریس اور فتاویٰ نویسی سے وابستہ رہے۔ اوستہ محمد اصل شکار پور کے نجار ( کارپینٹر) تھے۔ انہوں نے جمالی سرداروں کی زمینوں کو پانی دیا اور نیا شہر آباد کیا جو کہ آپ کے نام سے ’’اوستہ محمد ‘‘ مشہور ہوا۔ انہوں نے سب سے پہلے شہر میں جامع مسجد تعمیر کروائی جس کے پہلے امام و خطیب ، مفتی نبی بخش مقرر ہوئے۔
قاضی عدالت:
خان آف قلات ( بلوچستان ) کی طرف سے آپ نصیر آباد کے سر کاری قاضی اور سبی ضلع کے مفتی اعظم تھے۔
امام و خطیب :
جامع مسجد اوستہ محمد کے امام و خطیب تھے، جمعہ کو مدلل خطبہ دیتے تھے۔
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کا حلقہ وسیع تھا اور سندھ و بلوچستان میں پھیلا ہوا ہے:
٭ حضرت پیر سید علی گوہر شاہ ثانی المعروف پیر صاحب پگار چہارم
٭ حضر ت پیر سید شاہ مردان شاہ راشدی پیر صاحب پگارہ پنجم
٭ مولانا غلام مصطفی کولاچی ( برادر اصغر)
٭ مولوی عبدالوہاب کو لاچی غیر مقلد وہابی ( بھانجہ )
٭ مولوی غلام رسول شیخ بھاگ ناڑی ( استاد : مولوی عبدالحکیم شاہل سدھایو ، مولوی خوش محمد میر و خانی )
٭ مولانا عطاء محمد کلہوڑو پنھوں وسایو ( استاد: مولانا قمر الدین عطائی مہیسر )
٭ مولوی عنایت احمد خوش نویس بھاگ ناڑی
شاعری :
محترم ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے آپ کو ’’فارسی کا ادیب اور شاعر ‘‘ لکھا ہے اور حضرت پیر سید حزب اللہ شاہ راشدی کے صحبت یافتہ میں شمار کیا ہے۔
(دیوان مسکین ، مقدمہ ص ۳۶ درگاہ شریف )
ہو سکتا ہے کہ مولانا نبی بخش کولاچی نے فارسی کے علاوہ سندھی سرائیکی بلوچی اور عربی میں بھی شاعری کی ہو کیوں کہ آپ علامہ ہمایونی ؒ جیسے بے مثال عالم ، لاثانی شاعر اور عشق رسول ﷺ میں غوطہ زن بزرگ کے شاگرد ارشد تھے۔
وصال:
مولانا مفتی نبی بخش کولاچی اوستہ محمد کے مدرسہ میں تاحیات درس و تدریس فتاویٰ نویسی اور جامع مسجد میں امامت و خطابت سے وابستہ رہے، اپنے پیغام کے ذریعے دلوں میں عشق رسول ﷺ کی قند یلیں روشن کرتے رہے یہاں تک کہ ۱۳۴۴ ھ؍ ۱۹۲۵ء کو انتقال کیا۔
(الرحیم (سندھی ) اپریل ۱۹۷۸ء ، قاضی محمد ابراہیم کارڑائی )
تاریخی شعور اور تذکرہ نویسی
نامور قلمکار جناب خواجہ رضی حیدرآباد
(ڈائر یکٹر قائداعظم اکیڈمی ، کراچی ۔ حکومت پاکستان )
مولانا سید زین العابدین راشدی ایک صاحب علم شخصیت ہیں ۔ انہوں نے کم عمری میں نہایت وقیع موضوعات پر اردو اور سندھی میں متعدد کتب تصنیف کی ہیں اور یہ سلسلہ برا بر جاری ہے جس سے ان کی علمی سنجیدگی اور اپنے موضوعات سے گہری ذہنی وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ علماء کی تاریخ سے ان کو خصوصی دلچپسی ہے اور اس حوالے سے ایک نہایت مفصل تحقیقی کام ان دنوں وہ کر رہے ہیں اور یہ کام ہے صوبہٗ سندھ کے علماء اہلسنت کا تذکرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے جزوی طور پر اس تذکرہ کے مسودہ کا مطالعہ کیا ہے اور مجھے ازحد خوشی ہو کہ ابھی ہمارے درمیا ں ایسے افراد موجود ہیں جو اپنے اسلاف کی حیات و خدمات کو محفوظ کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ مجھے سید زین العابدین راشدی نے بتایا کہ اس تذکرہ میں تین سو سے زائد علماء کے حالات جمع کئے گئے ہیں اور ان حالات کو دریافت دیکجا کرنے کیلئے ان کو گیارہ سال کا عرصہ لگا۔ بلکہ انہوں نے احوال و تذکار کے جمع و انضباط کیلئے جو سفر اختیار کئے وہ کئی ہزار میل سے زائد ہو گئے ہوں گے۔ علمائے کرام یقینا ہمارے مذہبی ڈھانچہ میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ان پر مذہب و ملت کی جانب سے جو ذمہ داریاں عائد ہوئی ہیں وہ اتنی اہم ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیا کے سے رتبہ کے حامل ہوں گے‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے شاید معاشرے میں علماء اپنی عزت کھو رہے ہیں ۔ ان کا اعتبار زائل ہو رہا اور ایسا اس لئے نہیں ہے کہ ان کے پاس علم کی کمی ہے ۔ نہیں علم تو ان کے پاس بہت موجود ہے مگر عمل نہیں ہے۔ وہ جو بات زبان سے کہتے ہیں اس کی اپنے عمل سے تصدیق نہیں کرتے ۔ مصلحت اور معاندانہ روش نے ان کی شخصیت کو گہنا دیا ہے۔ آج مذہب سے جو بیزاری کا اظہار کیا جا رہا ہے اس کا بھی واحد سبب یہ ہے کہ علماء اپنی منہاج سے نہ صرف ہٹ گئے ہیں بلکہ وہ خود کو ایک مثالی مسلمان کے طور پر پیش کرنے میں کسی حد تک نا کام ہو گئے ہیں ۔ ایسی صورت میں علماء کی تاریخ کو منضبط کرنیوالے افراد کی ذمہ داری شاید اب زیادہ ہو گئی ہے ۔ یعنی اب ان کو اپنے درخشاں ماضی کی تاریخ ہی رقم نہیں کرنا ہے بلکہ ماضی سے حال کیلئے ایسے اصول اخذ اور وضع کرنا ہیں جو پیش آمدہ صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوں ۔
علماء کی تاریخ منضبط کرنے والوں پر فی زمانہ ایک اور ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور وہ یہ کہ علماء کے علمی توفق کے اظہار کے ساتھ ہی ساتھ ان کی اسلام کی سر بلندی ، انسان دوستی اور اخلاقی صورتحال کو بھی واشگاف الفاظ میں تحریر کیا جائے تا کہ وہ طالب علم جو علماء کے منصب پر فائز ہونے والے ہیں ان کو علم ہو سکے کہ ہمارے علماء کیسے پاکیزہ سیرت ، علائق دنیوی سے بے نیاز ، عزت نفس کے پاسدار ، مجاہدانہ کردار کے حامل ، دلنواز سخن کے مالک ، امانت دار ، دیانت ، صداقت اور شرافت کا پیکر ہوتے تھے۔ وہ معاشرے میں روحانی انقلاب کے داعی تھے اور اس دعوت کے حوالے سے انہوں نے خود کو ایک مثالی انسان کے طور پر معاشرے کے سامنے پیش کیا۔ وہ حصول تشہیر کیلئے در بدر پھرتے تھے اور نہ ہی اہل ثروت اور صاحبان اقتدار سے قرب کے تمنائی رہتے تھے۔ عزت نفس کا پاس و لحاظ ان کا مذہبی امتیاز تھا۔ ان کی انا اور احتیاط دین کے حوالے سے تھی اور ایسا شاید اس لئے تھا کہ وہ تبلیغ دین اور تدریس دین کی اجرت کے نہیں اجر کے طلبگار تھے۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کے تذکرہ کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے اور آج بھی مغفرت کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں ۔
اس ضمن میں ایک بات اور بڑی اہم ہے اور وہ یہ کہ تذکرہ نویسوں کو معروضی انداز میں سوچنا چاہیے ۔ ہر شخصیت کے اچھے اور برے دونوں پہلو ہوتے ہیں ۔ جہاں اچھے رہنما ہوتے ہیں وہاں برے پہلو آئندگاں کو اصلاح پر آمادہ کرتے ہیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ تذکرہ نویس مدح و ستائش میں زیادہ انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کی بنا ء پر ان کا ممدوح یک رخا ہو جاتا ہے۔ جدید تذکرہ نویس میں ایسے رحجان کو معیوب تصور کیا جاتا ہے ۔ مزید برآں تذکرہ نویسی کیلئے بنیادی طور پر تاریخی شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ جو کچھ بھی شعوری طور پر تاریخ سمجھ کر لکھ دیا وہ تاریخ کہلائے گا بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ تذکرہ نویس کیلئے تاریخی شعور کا شعور ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ یعنی اسے یہ ادراک و احساس ہو کہ وہ تاریخی شعور کا مکمل طور پر حامل ہے۔ علماء اور صوفیا کے تذکرے مرتب کرنے والے بیشتر افراد عقیدت کے حصار میں بیٹھ کر لکھتے ہیں اس لئے وہ تاریخی شعور سے صرف نظر کرتے ہیں یا یہ ان کو تاریخی شعور کا احساس و ادراک ہی نہیں ہوتا۔ لہذا ان کی تحریروں میں نہ تو کوئی قوت استدلال ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی نتیجہ خیزی ۔ مورخ کا کام معروضی حقائق کا بیان ہی نہیں بلکہ اس کا اصل کام وہ تجزیہ ہوتا ہے جس تک وہ ان حقائق سے گزر کر پہنچتا ہے۔ اس لئے تاریخی شعور کو تاریخ نویسوں کیلئے ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ محض حقائق جمع کرنا اور ان کی تصدیق و توثیق ہی تاریخ نہیں ہوتی بلکہ جدید تعریف کی رو سے تاریخ واقعات کی کوکھ میں موجود انسانی رویوں کی دریافت ہے اور اس کام کیلئے تاریخی شعور اور تجزیاتی صلاحیت کا ہونا بہت ضروری قرار پاتاہے۔ مولانا حسن مثنیٰ ندوی فرماتے تھے کہ فی زمانہ تذکرہ نویسی ایک روحانی مشقت کی متقاضی ہے اور یہ روحانی شقت صرف وہی شخص کر سکتاہے جو اپنی عینیت اور انانیت کو حقیقت نہائی سے ہم وجود کر سکے صرف واقعاتی اظہار تذکرہ نویسی نہیں ہے۔ تذکرہ نویسی واقعاتی اعمال نامہ سے خیر و شر کو ان کی اصل حالت میں بر آمد کرنا ہے۔
سید زین العابدین راشدی نے جس کام کا آغاز کیا ہے وہ اگر چہ ایک عمومی افادیت رکھتا ہے لیکن اس کی حیثیت ایک علاقائی تاریخ کی ہے۔۔۔۔۔۔۔اور علاقائی تاریخ نویسی کو ان معاشروں میں فروغ حاصل ہوتا ہے جہاں کسی یکجہتی کا تصور معدوم ہو گیا ہو۔ تاریخ دانوں نے ہمیشہ قومی تاریخ یعنی کسی ریاست کی مکمل تاریخ کو مستحسن قرار دیا ہے کیونکہ قومی تاریخ سے کسی بھی قوم یا گروہ کے مجموعی مزاج کی عکاسی ہوتی ہے۔ بہر حال راشدی صاحب نے ایک علاقہ کے ان علماء کے تذکرہ کو یکجا کر دیا ہے جن کے فقہی موقف اور رسم ورواج ایک ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ قیام پاکستان کے بعد اب تک ایسا کوئی تذکرہ منظر عام پر نہیں آیا جس میں فقہی موقف کے حوالے سے کسی صوبہ کے علماء کا انتخاب کیا گیا ہو، سندھ کی سر زمین سے نامی گرامی علماء پیدا ہوئے ۔ ایسے علماء جنہوں نے حجاز مقدس کو ہی اپنے علم کی روشنی سے معمور کیا۔ میں نے سید حسام الدین راشدی کی مرتب کردہ کتاب ’’برہان پور کے سندھی اولیائ‘‘ دیکھی ہے اور مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اس دور میں جبکہ رسل و رسائل اور آمدورفت کے ذرائع محدود اور راستے دشوار گزار تھے سندھ کے علماء صوفیاء نے ترویج علم کیلئے دور دراز کے سفر اختیار کیے اور قیام کیا۔ اٹھارویں اور سترویں صدی میں مولانا محمد حیات سندھی اور مولانا محمد عابد سندھی کا معروف علمائے حجاز میں شمار ہوتا ہے۔ سید زین العابدین نے جن علماء و مشائخ کے تذکار کو یکجا کیا ہے ان میں بیشتر اپنے علمی توفق میں نمایاں ہیں اور یقینا وہ آسمان تاریخ میں جگمگاتے اور جو یان دشت علم کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ میں اس تذکرہ کی تدوین پر سید زین العابدین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس تذکرہ کو قبول فرمائے اور سید زین العابدین کو دنیا و آخرت میں بہتر اجر سے نوازے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ ۔
احقر العباد
۲۷ جولائی ۲۰۰۶ئ خواجہ رضی حیدر
۳۰جمادی الثانی۱۴۲۷ھ نبیرہ حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی ؒ
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )