مولانا محمد عاقل ’’ عاقلی‘‘
مولانا محمد عاقل ’’ عاقلی‘‘ (تذکرہ / سوانح)
مولانا محمد عاقل بن آخوند اللہ ڈنہ سومرو گوٹھ عاقل تحصیل لاڑکانہ میں ۵، ستمبر ۱۸۵۱
( لاڑکانہ ماضی و حال ص ۱۲۹)
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا نبی بخش عباسی سے تعلیم حاصل کی اور مزید اعلیٰ تعلیم اس وقت کی نامور و عظیم دینی درسگاہ ’’جامعہ صدیقیہ ‘‘ شہداد کوٹ ( ضلع لاڑکانہ ) سے حاصل کی ۔ دوران تعلیم استاد العلماء غوث الزمان علامہ مفتی خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی قدس سرہ کے علاوہ ان کے شاگرد ارشد خلیفہ ارشاد علامہ مولانا غلام محمد مھیسر ( کمال دیرو) سے بھی شرف تلمیذ حاصل کیا تھا۔ ( حافظ عبدالرزاق سومرو کے قلمی مضمون سے ماخوذہے)
بیعت :
شیخ طریقت ، عارف کامل ، فارسی کے باکمال شاعر حضرت پیر سید حزب اللہ شاہ راشدی المعروف پیر صاحب تخت دہنی پگارہ سوئم قدس سرہ سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور کافی عرصہ پیرو مرشد کی خدمت میں گذارا ۔ حضرت کے علماء شعراء کا حلقہ وسیع تھا۔ حضرت علماء و شعراء کا بہت اعزاز فرماتے انہیں انعام و اکرام سے نوازنا حضرت کا معمول تھا۔ مولانا موصوف بھی وہاں سے خوب سیراب ہوئے۔ حضرت مصرعہ ارشاد فرماتے اور حاضر شعراء کرام کو حکم ہوتا کہ وہ مصرعہ پر شعر کہیں ۔ ان میں مولانا عاقلی کا بھی خوب نام تھا۔ ( ملا حظہ فرمائیں دیوان مسکین مطبوعہ پیر جو گوٹھ ) عاقل کی سومرا قوم و دیگر افراد خاندانی طور پر درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پگارہ کے مرید و معتقد تھے۔
لاڑکانہ واپسی :
۱۳۰۸ھ؍ ۱۸۹۰ء کو حضرت پیر صاحب پگارہ سوئم کے وصال مبارک کے بعد مولانا عاقلی درگاہ شریف سے واپس لاڑکانہ اپنے گوٹھ عاقل بذریعہ کشتی دریا پار کر کے آئے ۔ لاڑکانہ شہر میں اسلامی کتب خانہ قائم کیا۔ اس طرح لاڑکانہ شہر میں سب سے پہلا اسلامی کتب خانہ تاجرانہ بنیاد پر ایک مسلمان عالم کے ذریعہ قائم ہوا۔ کتب بنیی و گوشہ نشینی آپ کا وصف خاص تھی۔ علامہ مخدوم حسن اللہ صدیقی قدس سرہ کی کتاب ’’تحفۃ اولی الالباب فی رد علیٰ طاعن الاصحاب ‘‘ مطبوعہ ۱۳۲۸ھ ؍ ۱۹۱۰ء پر مولانا عاقلی کی تقریظ ثنت ہے۔ ( روشن صبح )
حکمت وطب :
مولانا حکمت پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ اس فن کے ذریعے بھی انسانیت کی خدمت انجام دی ۔ لاڑکانہ کے نابینا حکیم حافظ عبدلوہاب مرحوم مولانا کے شاگردوں میں سے تھے۔ ( سندھ کی طبی تاریخ ص ۶۵۸)
شاعری :
مولانا عاقلی عالم فاضل اور فارسی و سندھی کے باکمال شاعر تھے۔ ’’عاقلی ‘‘ تخلص استعمال میں لاتے تھے۔ آپ نے اپنے نعتیہ کلام میں حضور پر نور صاحب لولاک ﷺ کی تعریف و توصیف ، شان و عطمت ، سیرت طیبہ ، بلند مقام ، میلاد شریف و معراج النبی کا ذکر خیر کیا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عاقلی صحیح العقیدہ سنی عالم دین اور صوفی تھے۔ ایک سندھی نعت شریف میں اپنی ترجمانی یوں کی ہے۔
مار محبت جی مزی جی گالھ کادن کنئون پچو
عام کی کھری خبر، ھن عشق جی اسرار جی
اور ایک مقام پر صاف صاف بات کہی ہے کہ حضور پاک شفاعت فرمائیں باقی اپنے اعمال پر کوئی بھروسہ نہیں :
ناھ ’’عاقل‘‘ کی عبادت ء عقل تی آسرو
کر سفارش سیدا، ھن بی وری بیکار جی
(سندھی نعتیہ شاعری مرتبہ ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی )
اولاد :
آپ کو تین بیٹے تولد ہوئے اور تینوں شاعرو علم دوست گذرے ہیں :
۱۔ عبدالفتاح عبد
۲۔ غلام سرور مسرور
۳۔ عبدالحق زیب عاقلی
وصال :
مولانا محمد عاقل عاقلی نے ۱۰، شعبان المعظم ۱۳۶۰ھ بمطابق ۳ ، ستمبر ۱۹۴۱ھ کو نوے سال کی عمر میں انتقال کیا۔ ( لاڑکانہ ماضی و حال : میمن عبدالمجید سندھی )
آخری آرامگاہ عاقل کے قبرستان میں ہے۔
عاقلی کا قریبی شاگرد یا فرزند آپ کے حالات پر لکھتا تو آج تفصیل معلوم ہوجاتی کہ مولانا نے نثر و نظم میں کونسی کتابیں تخلیق کی تھیں ۔ ہائے افسوس ! ناقدری کے سبب تفصیلی حالات نہیں لکھے گئے۔ زر پرستی کا زمانہ ہے ہر ایک دنیا جمع کرنے کے چکر میں سرمست ہے الاماشاء اللہ اس لئے اسلاف سے وابستگی کم ہوتی جا رہی ہے جب اپنو ں کا یہ حال ہو تو دوسروں سے کیا شکوہ!!!
الحاج مولانا محمد تھیم
حضرت الحاج مولانا محمد تھیم گوٹھ ٹنگو ( تحصیل جاتی ضلع ٹھٹھہ ) میں ۱۸۸۶ء کو تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم اپنے گوٹھ میں اپنے والد ماجد کے قائم کردہ مدرسہ میں حاصل کی۔ جہاں مولانا یار محمد رپ والے ، علامہ فتح علی جتوئی اصغر اور مولانا مفتی میر محمد جتوئی جیسے نامور و جید اساتذہ کی نگرانی میں تکمیل درس کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔ ان دنوں بدین کے مشہور وہابی و شاعر حاجی احمد ملاح آپ کا ہم سبق تھا۔
درس و تدریس:
بعد فراغت مادر علمی میں گوٹھ ٹنگو میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری فرمایا ۔ اس مدرسہ سے بے شمار طلباء نے استفادہ کیا اور آپ کی اولاد میں بھی کئی افراد مشرف بعلم ہوئے۔ یہ درسگاہ آج بھی علم کی شمع فروزاں کئے ہوئے ہے۔
عادات و خصائل :
حق گو عالم دین تھے۔ عابد ، زاہد ، پرہیز گار ، صابرو شاکر شخصیت کے مالک تھے۔ تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ متحرک و سر گرم زندگی گذاری ۔
وصال :
حضرت مولانا محمد تھیم نے ۱۹۴۹ء کو ۶۳ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ ( ٹھٹھہ صدین کان )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)