آپ کا پایۂ علمی بہت بلند ہے،اپنے دور کے اکابر فضلاء میں ستے تھے، نرڑہ (کیمبلپور) میں پیدا ہوئے۔علامہ محمد غازی صاحب استاد زمن مولانا احمد حسن کانپوری کے اجلہ تلامذہ میں سے تھے،ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے اورمدرسہ صولتیہ میں آٹھ سال تک درس دیتے رہے حضرت شیخ الاسلام پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ جب حج کے لئے تشریف لے گے تو مولانا علامہ محمد غازی رحمہ اللہ تعالیٰ آپ کے علوم و معارف سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ کے ساتھ ہی گولڑہ شریف چلے آئے اور تمام عمر آستانۂ عالیہ بسر کی اور مسلک اہل سنت و جماعت کے تحفظ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔افسوس کہ آپ کے تفصیلی حالات معلوم نہیں ہو سکے،
۱۳۵۸ھ؍۱۹۳۹ء کو دار آخرت کا سفر کیا اور گولڑہ شریف کی مسجد کے شمالی جانب حضور اعلیٰ گولڑوی کے والد ماجد حضرت خواجہ سیدن نذر الدین قدس سرہ کے مزار کے پہلو میں دفن ہوئے[1]
حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب سیف چشتیائی میں مسیلمہ کذاب،مرزائے قایانی وغیرہ کی صف میں محمد بن عبد الوہاب نجدی کو بھی شمار کیا ہے آپ کے وصال کے بعد وہابیوں نے مطالبہ کیا کہ نجدی کا نام اس فہرست سے حذف کر دیا جائے حضرت مولانا محمد غازی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر ایک طویل حاشیہ میں نجدی کے عقائد ومظالم بیان کر کے فرمایا کہ ان حالات میں ہم نجدی کا نام حذف کرنے سے معذور ہیں۔
[1] غلام مہر علی مولانا: الیوقیت المہر یہ ص۸۸۔۸۹
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)