عارف کامل حضرت مولانا محمد ابراہیم سر حدی
عارف کامل حضرت مولانا محمد ابراہیم سر حدی (تذکرہ / سوانح)
استاد العلماء ، مرد حق آگاہ ، حضرت مولانا محمد ابراہیم بھیو گوٹھ پرانی سرحد ( تحصیل گھوٹکی) میں تولد ہوئے۔ والد انتقال کر چکے تھے۔ سر پر صرف والدہ کا سایہ تھا، غریبی ، مسکینی کے سبب والدہ اپنے بیٹے سے بچپن میں چروا ہے کا کام لیتی تھیں ۔
ایک بارحضرت حافظ محمد سلیمان بھیو ( جن کی ان دنوں سرحد میں دینی درسگاہ تھی) نے حضرت مولانا محمد ابراہیم کی صورت مبارک دیکھ کر آپ کی والدہ ماجدہ سے فرمایا: ’’چروا ہے کا کام اس بچے کی شان کے لائق نہیں اس کو میرے سپرد کر دے کہ انہیں قرآن مجید کی تعلیم دوں ‘‘۔آپ کی والدہ صاحبہ نے کہا: ’’ہم غریب میں بیوہ اور بچہ یتیم ہے گذر بسر کیسے ہو گا؟ حافظ صاحب نے کہا:اماں !جب تک میں زندہ ہوں آپ ہمارے ہاں قیام فرمائیں آپ کا کھانا پینا میرے ذمہ ہو گا‘‘۔
تعلیم و تربیت :
مولانا سرحدی ، حافظ صاحب کے پاس رہ کر قرآن مجید حفظ کیا، اس کے بعد عادل پور ( گھوٹکی) کے قدیمی مدرسہ میں فارسی کی تعلیم حاصل کی، دوران تعلیم ایک بار کھہڑا شریف ( ضلع خیر پور میرس ) کے مخدوم صاحب عاد لپور تشریف لائے تو مولانا سر حدی کا نورانی چہرہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اس لئے آپ کے استاد محترم سے اپنے مدرسہ کے لئے مولانا سرحدی مانگ لیا۔ مولانا سرحدی دربار مخادیم کھہڑا شریف پر طلباء کو فارسی کی تعلیم دی اور خود عربی کی تعلیم حاصل کی۔ ایک روز ایسا خوش نصیب دن آیا کہ مولانا سرحدی دربار مخادیم کھہڑا شریف کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ استاد غالبا حضرت علامہ مخدوم محمد عاقل تھے۔
درس و تدریس:
بعد فراغت وہیں مادر علمی کھہڑا میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک روز عارف کامل حضرت میاں محمد جامی اندھڑؒ کھہڑا شریف آئے اور مخدوم صاحب سے گزارش کی کہ انہیں ایک مولوی صاحب چاہئے جو کہ بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرے ۔ چنانچہ حضرت میاں جامی کی نظر مولانا سرحدی پر پڑی تو انھوں نے حضرت مخدوم صاحب سے اسرار کیا کہ مولانا سرحدی انہیں دیا جائے تاکہ ان کے ہاں تعلیم کا سلسلہ جاری کر سکے ۔ مخدوم صاحب نے فرمایا: یہ ہمارا محبوب ہے‘‘۔
بہر حال اسرار پہیم کے بعد مخدوم صاحب نے مولانا سرحدی کو اجازت دی کہ وہ میاں صاحب کی درگاہ پر جاکر درس و تدریس کا سلسلہ جاری فرمائیں ۔ مولانا سرحدی نے برابر تین برس حضرت میاں جامی ؒ کے آستانہ پر درس دیا ۔
سفر حرمین شریفین :
اس کے بعد حضرت مولانا سرحدی نے حضرت میاں صاحب سے اجازت لے کر حرمین شریفین کا پیدل سفر اختیار کیا۔ حرمین شریفین میں تین برس گذارے انہیں دنوں میں تین حج کئے۔ مدینہ منورہ میں روضہ شریف سے حکم ملا کہ میاں جامی سے خلافت حاصل کریں ۔
بیعت و خلافت :
وطن واپسی پر سیدھے حضرت میاں جامی ؒ کے آستانہ عالیہ پر حاضری دی اور انہوں نے خلافت سے سر فراز فرمایا۔ حضرت میاں صاحب کا آستانہ قبہ جامی ( جھانیاں ضلع سکھر ) کے نام سے مشہور ہے۔
مولاناجامی سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں حضرت نواب الاولیاء پیر موسیٰ نواب سہروردی قدس سرہ ( سنجر پور تحصیل صادق آباد ک) کے سلسلہ میں مرید و خلیفہ تھے۔ مرشد پاک کا نام معلوم نہ ہو سکا ۔ آپ نے حضرت نواب الاولیاء کا عظیم الشان دربار شریف تعمیر کروایا جو کہ اب بھی مرکز تجلیات ہے۔
(سندھ کے سہروردی بزرگ)
مدرسہ کا قیام :
وہاں سے سیدھے اپنے گوٹھ سرحد تشریف لے آئے اور مدرسہ کی بنیاد رکھ درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا اور تقریبا ۲۴ سال اپنے گوٹھ میں قال اللہ وقال رسول کا سلسلہ جاری رکھا۔
مولانا سرحدی کا معمول تھا کہ ہر جمعہ کو سرحد سے پیدل ’’عادل پور ‘‘ جاتے تھے اور اپنے دادا جان اور حضرت میاں سمہ کی مزارات مقدسہ کی زیارت کر کے اپنے قلب و سینہ کو منور کرتے اور فاتحہ دیتے تھے۔
حضرت مولانا محمد ابراہیم سرحدی ، حضرت حافظ محمد صدیق قادری بھر چونڈی شریف اور حضرت مولانا عبدالرحمن سکھر والے تینوں ہم عصر بزرگ عارف کامل اور گہرے دوست تھے۔
تلامذہ :
۱۔استاد العلماء مولانا حافظ نظر محمد انڈھر (گوٹھ بھونگ والے تحصیل صادق آباد) آپ کے مکمل شاگرد اور خلیفہ تھے اور سندھ کے کئی علماء مولانا نظر محمد بھنگ والے سے تلمیذ رکھتے ہیں ۔
۲۔ مولانا سید سلطان علی شاہ جیلانی ( گوٹھ صادق نزد قادر پور )
وصال :
مولانا محمد ابراہیم سرحدی نے ۱۳۰۳ھ ؍ ۱۸۸۵ء میں گوٹھ سرحد ( ضلع گھوٹکی سندھ) میں انتقال کیا۔ ۲۲ سال کے بعد سیلاب کے سبب مولانا صاحب کو اپنی قبر سے نکال کر دوسری جگہ پر دفن کیا گیا۔ سرحد میں آپ کی مزار پر انوار مرجع خلائق ہے۔ قبر سے نکالتے وقت مولانا سرحدی کا جسم بالکل صحیح سلامت ، چہرہ بالکل روشن جیسا کہ ابھی تازہ وضو کر کے آرام فرما ہوں ۔ ( شریعت سوانح نمبر )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)