مولانا محمد و سایاالخطیب
مولانا محمد و سایاالخطیب (تذکرہ / سوانح)
مولانا محمد وسایا بن غلام محمد ۴ صفر المظفر ۱۳۶۰ھ بمطابق ۳ مارچ ۱۹۴۱ء بروز پیر صوبہ پنجاب ضلع میانوالی کے گوٹھ موسیٰ خیل کے محلہ غورنیاں میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے ۱۹۵۸ء میں آبائی گوٹھ موسیٰ خیل میں مڈل اینگلو نیکر فائنل کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں میانوالی میں پاس کیا۔ آبائی گائوں پھر میانوالی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ انوار العلوم ملتان میں داخلہ لیا ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء کو فارغ التحصیل ہوئے اور شیخ الحدیث علامہ سید احمد سعید کاظمی نے سند حدیث عنایت فرمائی۔ جامعہ حنفیہ اشرف المدارس اوکاڑہ سے اسی سال شھادۃ الفراغ (دور حدیث و تفسیر) کی سند شیخ القرآن علامہ غلام علی اوکاڑوی سے حاصل کی۔ ۱۹۷۹ء کو جامعہ غوثیہ حنفیہ (طارق روڈ کراچی) میں مولانا محمد شفیع اوکاڑوی کی زیر سرپرستی دورہ تفسیر القرآن علامہ غلام علی اوکاڑوی نے پڑھایا ٓپ نے سند حاصل کی۔
تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان (لاہور) سے ۱۰ مارچ ۱۹۸۶ء کو شہادۃ العالمیہ فی علوم العربیہ والاسلامیہ (ایم اے عربی و ایم اے اسلامیات) کی سند حاصل کی۔
مدرسہ فیض نبوی کا قیام:
آپ نومبر ۱۹۶۳ء کو میانوالی سے کراچی شفٹ ہوئے اور محبوب مسجد بکراپیڑی کراچی میں خطیب مقرر ہوئے اور ایک سال کے بعد ۵ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو مدرسہ فیض نبوی کی بنیاد رکھی۔ ابتداء میں مدرسہ میں ناظرہ ، حفظ اور فیض نبوی پرائمری اسکول قائم کیا ، مگر ۱۹۷۰ء کو پرائمری اسکول کی جگہ درس نظامی کی کلاسوں کا اجراء کیا گیا۔ دیگر علماء کے ساتھ آپ بھی مدرسہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔
تلامذہ:
آپ کے مدرسہ فیض نبوی سے چند نمایاں فارغ التحصیل طلباء کے اسماء گرامی:
تلامذہ:
٭ صاحبزادہ قاری غلام رسول (کراچی)
٭ مولانا حافظ ظہور احمد (لاہور)
٭ حافظ اللہ وسایا ثانی (میانوالی)
٭ مولانا حافظ مشتاق احمد نورانی
٭ مولانا محمد افضل۔ مولانا حافظ معین الدین
٭ حافظ عطاء اللہ
خطابت:
آپ خطابت کے شہسوار تھے۔ کراچی کے مقبول واعظ تھے۔ جمعہ کے روز محبوب مسجد لیاری میں آپ خطبہ دیتے تھے۔ جماعت اہل سنت اور جمیعت علماء پاکستان کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اسلئے عملی طور پر ان میں شامل ہو کر بھر پور کام کیا۔ تنظیم ائمہ مساجد اہل سنت کو بھی منظم کرنے کی سعی کی تھی لیکن بار آور ثابت نہ ہوسکی ۔ ورنہ تنظیم سازی کا پورے پاکستان میں جال بچھ جاتا۔
۱۹۷۴ء کو جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے تحریک ختم نبوت چلی تو اس میں بھی کام کیا۔
جب سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد ہوئی تو جمعیت کے قائدین نے تحریک نظام مصطفی کے نام سے تنظیم قائم کی جس کے پلیٹ فارم سے کام کرتے تھے۔ ۱۹۷۷ء کو تحریک نظام مصطفی میں خطیب صاحب نے ولولہ و جوش و جذبہ سے کام کیا یہاں تک اس وقت کے قانون D.P.R(ڈی، پی ، آر) کے تحت وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے۔
۱۵ مئی ۱۹۸۳ء کو جب مولانا غلام دستگیر افغانی نے ذاتی وجوہات کی بنا پر جماعت اہل سنت کراچی کی صدارت سے استعفیٰ دیا تو خطیب صاحب جماعت اہل سنت کراچی کے صدر نامزد ہوئے۔
۱۹۶۵ء کی جنب پاک و ہند میں مجاہد ملت مولانا عبدالحامد بدایونی کی اپیل پر آپ نے ہزاروں روپے مالیت کے کپڑوے و ادویات وغیرہ امداد سے ٹرکیں بھر کر بھجوائیں۔
۱۹۷۱ء کے انتخابات میں عملی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے مجاہد اہل سنت صوفی ایاز خان نیاز ی کے حلقہ انتخاب میں تقریریں کرکے عوام اہل سنت کو بیدار کیا کہ عوام اہل سنت فقط اپنے سنی نمائندوں کو ووٹ دیں۔
بیعت:
آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت پیر سید محمد شریف علیہ الرحمۃ بن حضرت پیر سید محمد شاہ علیہ الرحمۃ آستانہ دندہ شاہ بلاول (تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال) سے دست بیعت ہوئے۔
اولاد:
آپ نے ایک شادی کی جس میں سے دو بیٹے اور ۶ بیٹیاں تولد ہوئیں۔ بڑے بیٹے محمد ممتاز نے بچپن میں انتقال کیا۔ قاری غلام رسول صاحب اپنے دوسرے بیٹے اور مدرسہ کے متہمم ہیں۔
تصنیف و تالیف:
٭ سفر زیارت رسول ﷺ
٭ تسکین الطابین فی تبرکات الصالحین
مطبوعہ مدرسہ فیض نبوی لیاری ۱۹۹۰ء
٭ حدر جم کی شرعی حیثیت
مطبوعہ مدرسہ فیض نبوی لیاری ۱۹۸۹ء
٭ مسئلہ فاتحہ خلف امام
مطبوعہ مدرسہ فیض نبوی لیاری ۱۹۹۲ء
٭ مسائل قربانی
مطبوعہ مدرسہ فیض نبوی لیاری
وصال:
مولانا محمد وسایا الخطیب نے ۲۹ رجب المرجب ۱۴۲۴ھ / ۲۷ ستمبر ۲۰۰۳ء بروز ہفتہ بوقت ظہر انتقال کیا۔ دوسرے روز یکم شعبان کو مولانا سید عمر دراز شاہ مشہدی (خطیب جامعی مسجد فائر بریگیڈ سینٹر نزد سول ہسپتال) نے نماز جنازہ کی اقتدا فرمائی اور کراچی کے قدیم و تاریخی قبرستان میوہ شاہ میں حضرت مویہ شاہ کے مزار کے متص تدفین عمل میں آئی۔
[صاحبزادہ قاری غلام رسول صاحب کے مشکور ہیں جنہوں نے اپنے والد کے متعلق مواد فراہم کیا]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)